مولاناطاہر القادری کا اٹلی ماڈل اور آرٹیکل 254

اسلم خان  جمعرات 3 جنوری 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

ہمارے خود ساختہ خیر خواہ سات سمندر پار سے عذاب بن کر نازل ہو رہے ہیں۔ اصلاحات کے نعروں کی گونج میں کڑے احتساب کا ایسا شور و غوغا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گذشتہ ڈیڑھ دہائی سے متحارب اور متصادم حکمران جماعتوں کے اتحادی نظام بد کو جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے میدان میں نکل کھڑ ے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ سب کچھ اچانک ہو رہا ہے۔

حضرت مولاناطاہر القادری مع القابہ کینیڈا کے یخ بستہ ماحول سے5 سالہ گوشہ نشینی ختم کرتے ہوئے 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر نمودار ہوئے۔ انھوں نے پاکستان کا دستور لہراتے ہوئے سوا دو گھنٹے خطاب فرمایا‘ منظم مجمع گم سم، خاموشی سے یہ سحر انگیز خطاب سنتا رہا۔جس کے بیشتر نکات پر ہمارے نیم خواندہ ٹی وی اینکرز اپنی عقل و دانش کے دریا بہا چکے ہیں جب کہ نرم و گرم چشیدہ کالم نگاروں نے بھی اس خطاب کے تار پود بکھیر دیے ہیں اور خود حضرت مولانا طاہر القادری نے بھی اپنے ارشادات گرامی کی تشریح کر کے اپنا مافی الضمیر واضح کر دیا ہے۔

جس کے مطابق وہ عوام کی طاقت سے نگران حکومت کی تشکیل کا عمل قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سے چھین لینا چاہتے ہیں۔ بظاہر مولوی طاہر القادری آئین پر مکمل عمل درآمد چاہتے ہیں۔ میدانِ سیاست کو ہر قسم کی آلودگی سے پاک صاف کر کے انتخابی اکھاڑہ سجانا چاہتے ہیں اور ان کی صدائے انقلاب پر الطاف حسین نے لبیک کہا۔

یہ عذاب اچانک نازل نہیں ہوا۔ اس چھاپہ مار کارروائی کی تیاری بہت دنوں سے کی جا رہی تھی صرف اس کا طریق کار اور کردار پوشیدہ تھے۔دستورِ پاکستان کے مطابق نگران حکومت کی تشکیل کا عمل دو شخصیات قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نے باہم اتفاق رائے سے مکمل کرنا ہے۔ جن کی اصل طاقت جناب نواز شریف اور صدر زرداری ہیں۔ جن کے دو نیک نام نمایندے رضا ربانی اور اسحق ڈار بڑی رازداری سے کام کررہے ہیں۔ یہ خاکسار تواتر سے لکھ رہا ہے کہ جناب نواز شریف اور صدر زرداری میں ہر معاملے پر کمال کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

اُن کے تمام اہداف مشترکہ ہیں یہاں تک کہ جناب نواز شریف تو صدر زرداری کے لیے ’’دوست‘‘ بھی ڈھونڈتے رہے ہیں۔ جس کی چٹ پٹی تفصیلات امریکی خاتون اخبار نویس (KIM BARKER) نے اپنی کتاب TALIBAN SHAFFLE میں مزے لے لے کر بیان کی ہیں۔اسی طرح نواز شریف کے ذاتی فوٹو گرافر ذوالفقار بلتی نے گذشتہ دنوں ایک انٹرویو میں دونوں حکمران خاندانوں کے بچو ں کے باہمی روابط کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ جناب نواز شریف اور صدر زرداری پارلیمانی جمہوریت کی سر بلندی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن پارلیمانی جمہوریت کی تشکیل کے بنیادی اجزاء، پارٹی کے اندرونی انتخابات، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اسمبلیوں میں لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دونوں رہنما موروثی قیادت کا تسلسل چاہتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کے مقابل حمزہ شہباز‘ مریم نواز اور اب نوارد حسین نواز میدان میں ہیں۔ گھریلو سیاست کا اس سے بڑا شاہکار اور کیا ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں رہنما پارلیمانی جمہوریت کے نام پر ’’خاندانی آمریت‘‘ کو ترویج دے رہے ہیں۔ اس ماحول میں جب اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں صرف 90 دن باقی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جناب زرداری پارلیمان کے باہر موجود جمہوری قوتوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیتے لیکن وہ صرف جناب نواز شریف کی محبت اور دوستی پر تکیہ کیے رہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے اجتماعی رویے اور ان کے حامی لکھاریوں کے طرز عمل سے ان کے روایتی حلیف بھی بد ظن ہوتے گئے۔

کہتے ہیں کہ صرف افعال اور اعمال نہیں بلکہ نیک نیتی اہم ہوتی ہے۔ اسی لیے تو دستور پر عمل درآمد کے معاملے میں الفاظ کے ساتھ اس کی حقیقی روح اور معانی و معارف کو لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے۔ دونوں قائدین نے سیاسی عمل، انتقال اقتدار کو پر اسرار اور پر پیچ کھیل بنا دیا تھا۔ ریاست کے دیگر ستونوں سے مکالمے اور مشاورت کے بجائے آئین کی سربلندی اور پارلیمان کی عظمت کے قصیدے گاتے ہوئے جمہوریت کے تسلسل کی راہیں مسدود کرنا شروع کر دیں اور یکے بعد دیگرے تمام ’’سیفٹی والوز‘‘ بند کر دیے جو بند گلی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی کا نشان ہوتے ہیں۔

جب سارے راستے بند ہو جاتے ہیں تو فطرت ایسے اسباب پیدا کرتی ہے کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے۔ایسے ہی ماحول میں 23 دسمبر کو حضرت مولانا، مولوی طاہر القادری خاص گیٹ اَپ میں سکائی لیب بن کر مینار پاکستان پر نازل ہوئے۔انھوں نے اپنے سوا دو گھنٹے طویل خطاب میں دو اہم نکات بیان کیے۔ جن پر توجہ دینا سر شام نمودار ہونے والے اداکار دانشوروں نے مناسب نہیں سمجھا۔ جناب طاہر القادری نے آئین کے آرٹیکل 254 کا حوالہ دیا۔

254. Failure to comply with requirement as to time does not render an act invalid.- When any act or thing is required by the Constitution to be done within a particular period and it is not done within that period, the doing of the act or thing shall not be invalid or otherwise ineffective by reason only that it was not done within that period.
جس کا مفہوم کچھ یوں ہے ’’آئین کے مقرر کردہ وقت میں اگر کوئی کام نہ کیا جا سکے تو وہ کام غیر موثر یا ختم نہیں ہو جائے گا‘‘۔ اگر کوئی چیز یا کام کرنے کے لیے آئین میں کسی مخصوص مدت کا تعین کر دیا گیا ہو اور اس کو مقر رہ مدت میں مکمل نہ کیا جائے، ایسا کرنے سے وہ چیز یا عمل غیر موثر یا ختم نہیں ہو جائے گا کیونکہ اسے مقرر کردہ مخصوص مدت میں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچایا جا سکا‘‘۔

مولوی طاہر القادری نے منطق یہ پیش کی ہے کہ اگر نگران حکومت 60 یا 90 دن کی مقررہ آئینی مدت میں انتخابات نہیں کرا پاتی تو سارا عمل غیر موثر اور باطل نہیں ہو جائے گا بلکہ آئین میں اس کی گنجائش موجود ہے۔ جس کے لیے سپریم کورٹ سے راہنمائی کے لیے رجوع کرنا ہوگا۔ جس کے بعد نگران حکومت کی مدت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔

دوسری چونکا دینے والی خیال آفرینی یہ کی کہ ہجوم اکٹھے کر کے عوامی طاقت کے سہارے آئینی اصلاحات کرانے کا مطالبہ کرنا عین جمہوری عمل ہے۔ انھوں نے گذشتہ سال اٹلی میں معاشی بحران سے جنم لینے والی اَکھاڑ پچھاڑ کا حوالے دیا۔ انھوں نے فرمایا کہ 14 جنوری کو اسلام آباد میں کچھ انوکھا نہیں ہو گا اس سے پہلے اٹلی میں ہجوم کی طاقت نے وزیرا عظم برلسکونی کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ جس کے بعد اٹلی کے صدر نے جناب ماریو مونٹی کو عبوری وزیر اعظم بننے کی دعوت دی تھی وہ یورپی یونین بینک اور دیگر عالمی ضمانتوں کے بعد دو سال برسر اقتدار رہے اور 21 دسمبر 2012ء کو اپنا کام ختم کر کے مستعفی ہوئے۔ 23 دسمبر کو ٹھیک دو دن بعدطاہر القادری لاکھوں حاضرین کو یہ کہانی سنا رہے تھے جو کسی کو سمجھ نہ آئی، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا صدر زرداری دبائو میں آ کر حضرت مولانا قادری یا ان کے پسندیدہ کسی شخص کو نگران حکومت بنانے کی دعوت دیتے ہیں یا نہیں۔

ہر شخص اپنے حصے کی غلطیاں کرتا ہے، تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا، یہ ازلی اور ابدی حقیقت ہے مگر جناب نواز شریف اور صدر زرداری غلطیاں کر نہیں رہے بلکہ پرانی غلطیاں دُہرا رہے ہیں اور ان کی شریک اقتدار ایم کیو ایم اور قاف لیگ اسمبلیوں سے الگ ہوئے بغیر طاہر القادری کے اصلاحاتی ایجنڈے کی حمایت کر رہی ہیں۔ اب یہ بوڑھا آسمان کیا منظر دیکھے گا کہ ایم کیو ایم کے وفاقی وزراء اپنی حکومت کا گھیرائو کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچیں گے اور نائب وزیراعظم جناب پرویز الہی اپنی ہی حکومت کا گھیرائو کرنے والوں کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں گے۔

نیا سال ہمارے لیے نئی مصیبتیں اور آزمائشیں لے کر نمودار ہوا ہے۔ پسپائی کے لیے محفوظ راستوں کی تلاش چالاک امریکیوں کی پہلی ترجیح ہے۔ اے بار ی تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرما۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔