قائد کے مزار پر

عبدالقادر حسن  اتوار 5 فروری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں اس انتظار میں تھا کہ کیا میں چشمے کے بغیر کالم لکھ سکتا ہوں اور اس انتظار میں بھی تھا کہ ایسا مرحلہ جلد ہی آ جائے کہ میں عینک کے بغیر کچھ لکھ سکوں۔ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو عینک کے بغیر دل کی بات بیان کر سکتے ہیں اور دل و دماغ کی سوچ کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں خصوصاً میرے جیسے لوگ جن کا پیشہ ہی یہ ہے کہ اندر کی بات باہر لے آئیں اور اسے عام کر دیں۔

میرا چشمہ مرمت کے لیے عینکوں کے اسپتال میں داخل ہے اور یہ کب صحت یاب ہو گا اس کا وعدہ تو ایک دن کا تھا لیکن وعدے کی پابندی ہم پاکستانی کسی بڑی مجبوری کے تحت ہی کر سکتے ہیں۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کے مقولے پر عمل کرنے والے ہم پاکستانی وعدہ پورا نہ کرنے کے ہزار عذر اور بہانے رکھتے ہیں اور ان میں کئی ایک لاجواب بھی۔

اس تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں کیونکہ عینک کے بغیر کام چل رہا ہے اور میں عینک کی وجہ سے کوئی بدشگونی نہیں کرنا چاہتا۔ قدرت نے اگر انسان کو کسی چیز کا محتاج کر دیا ہے اور وہ چیز مل بھی جائے تب بھی اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ قدرت نے انسان کو لاتعداد صلاحیتوں سے نوازا ہے اور وہ تھوڑی سی محنت کے ساتھ اپنی کسی مجبوری کو دور کر سکتا ہے۔

میرا چشمہ تو ایک آدھ دن میں جا کر تیار ہو گا لیکن اس کا ایک ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی خراب ہو گیا ہے اور وہ ہے سماعت۔ کانوں کو بہت کم سنائی دینے لگا ہے لیکن دونوں کان سن رہے ہیں اور دونوں مل کر کم از کم ایک آدھ کان کا کام کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے میں بہرہ نہیں ہوں اور سن سکتا ہوں۔ ویسے اب ان دنوں جس قدر کم سن سکیں اتنا ہی بہتر ہے لیکن ایک صحافی ہوں جس نے آپ کی بات سن کر اسے آگے پہنچانا ہے۔ یہ گناہ میری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔ اسے آپ کچھ بھی سمجھیں میں نے آپ کی بات سن کر اسے تحریر کے ذریعے آگے پہنچانا ہے۔

شکر ہے کہ ان دنوں سیاست قدرے خاموش ہے اور کم بولتی ہے جس کی وجہ سے اسے لکھا بھی کم جاتا ہے ورنہ سیاست کے زندہ دنوں میں سیاست دانوں کے سوا اور کچھ باقی نہیں بچتا کہ اسے تحریر میں بیان کیا جائے۔ ان دنوں چونکہ سیاسی سرگرمیاں ذرا سی کم ہیں اس لیے سیاست دان بھی ذرا کم بولنے لگے ہیں ورنہ سیاست دان رات کو سونے سے پہلے دوسرے دن کی صبح کا بیان تیار کرتا ہے اور اسے اپنے قابل اعتماد ساتھی کے سپرد کر دیتا ہے کہ اس کی نوک پلک درست کر کے مجھے دے دینا۔ اگر کوئی تازہ موضوع ایسا نہ ہو جو کسی بیان کی صورت میں اخبارات کے سپرد کیا جائے تو یہ دن گویا زبان بندی کا دن ہے۔

پرانے زمانے کی بات ہے جب اکثر سیاست دان محتاط اور شریف ہوا کرتے تھے۔ وہ فرمائش کیا کرتے کہ مہربانی کر کے کل پرسوں فلاں فلاں موضوع پر لکھ دینا کیونکہ ان دنوں طبیعت کچھ غیر سیاسی ہو رہی ہے اور ہمارے سرگرم سیاسی ساتھی ملک سے باہر ہیں جن کی واپسی میں چند دن لگیں گے لیکن اگر وہ ملک میں موجود بھی ہوں تو ان دنوں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کوئی سیاسی تنازع نہیں چل رہا کہ سیاست دان اس پر کچھ کہنے پر مجبور ہوں اس لیے فی الحال اکثر سیاست دان عمرے پر روانہ ہو رہے ہیں، کچھ جا بھی چکے ہیں اور کئی ایک تیاری کر رہے ہیں۔ خدا ان سب کے عمرے قبول کرے اور اگر یہ اپنے علاوہ ملک کی خوشحالی اور سلامتی کے لیے کوئی دعا کریں تو اللہ اسے بھی قبول کر لے۔

میں گورنر صاحب کی طرف سے مزار قائد پر پھول نچھاور کرنے کی تقریب بھی دیکھ رہا ہوں اور دل میں یہ حسرت تڑپ رہی ہے کہ اس قائد نے اپنی زندگی میں جس اصول پرستی اور جزرسی کا نمونہ پیش کیا ہے اس کے مزار پر حاضری دینے والے بھی اس کی پیروی کریں گے۔ ہمارے قائد دیانت داری اور اصول پسندی کا ایک نادر نمونہ تھے۔ کاش اس کے مزار پر حلف برداری کرنے والے بھی اس کا کوئی عکس پیش کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔