کشمیر ہمارا حصہ تھا، ہے اور رہے گا

پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی جدوجہد کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا رہے گا۔ فوٹو: ایکسپریس

پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی جدوجہد کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا رہے گا۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ’’یکجہتی کشمیر سیمینار ‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدرات کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانافضل الرحمن نے کی، وزیراعظم آزادو جموں کشمیرراجہ فاروق حیدر خان اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب مہمان خصوصی تھے جبکہ مقررین میںآزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان، پاکستان تحریک انصاف آزادکشمیر کے سربراہ بیرسٹر سلطان محمود، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر، پاکستان مسلم لیگ(ق) کے رہنما راجہ بشارت اور کشمیری حریت رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک شامل تھیں۔سیمینار میں روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایاز خان نے خصوصی شرکت کی۔

تقریب میں فاسٹ مارکیٹنگ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد ادریس بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر ایکسپریس نیوز اسلام آباد کے بیوروچیف عامر الیاس رانا، روزنامہ ایکسپریس کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارکیٹنگ منیر حسین اور روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد کے چیف رپورٹر ارشاد انصاری بھی موجود تھے۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

مولانا فضل الرحمن (چیئرمین کشمیر کمیٹی)

پاکستان اول دن سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہے اور ہمیشہ ساتھ رہے گا۔ اسی لئے پانچ فروری کو پاکستانی قوم یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے تاکہ کشمیریوں کویہ احساس دلایا جاسکے کہ ہم اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔ اس تقریب میں مقررین نے حکومت پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جن کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے اس پر میں ان کا مشکور ہوں، میری ایکسپریس کی ٹیم سے گزارش ہے کہ سیمینار کے شرکاء کی جانب سے آنیوالی تجاویز کو اکٹھا کرکے ہمیں فراہم کریں تاکہ ہم ان مثبت تجاویز کو وزیراعظم نواز شریف کے سامنے رکھیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے حکومتی پالیسی کو موثر بنایا جاسکے۔

9/11 کے بعدامریکا نے پوری دنیا پر دہشت گردی کے نام سے جنگ مسلط کرد ی اور اس صورتحال میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہماری ترجیحات تبدیل ہوگئیں ۔ ہم مسئلہ کشمیر کے بارے میں سوچنے کے بجائے امریکا کے کہنے پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے اور پھر دہشت گردی کی آگ نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج تک پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے 100 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرچکا ہے ۔

بین القوامی ممالک کو سوچنا ہوگا کہ جب تک فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا، اس وقت تک دنیا اور ایشیاء میں امن نہیں آسکے گا۔ دہشت گردی کی اس صورتحال کی وجہ سے گزشتہ پندرہ سالوںسے ہمیں ایک چیلنج کا سامنا تھا کہ کس طرح مسئلہ کشمیر کوپاکستان کی خارجہ پالیسی کے محور کی شناخت دے سکیں۔

وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں اور قومی کشمیر کمیٹی نے مسئلہ کشمیر کو ایک چیلنج سمجھ کر اٹھایا ہوا ہے۔آج پوری دنیا سمجھتی ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہا ہے اور پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موقف سو فیصد درست ہے تاہم پوری دنیا اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظرمسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت پر دباو نہیں ڈال رہی کیونکہ آج بھارت اقتصادی لحاظ سے پاکستان سے کہیں آگے ہے۔

اب پاکستان کی ترقی کا آغاز ہوا ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے جہاں چین مضبوط ہوگا وہاں پاکستان کی اقتصادی صورتحال بہتر ہوگی۔ امریکا اور بھارت آج پھر پاکستان اور چین کیخلاف یکجا ہوگئے ہیں کیونکہ بھارت اور امریکہ کو ڈر ہے کہ چین عالمی منڈی پر قبضہ کرنے جارہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ڈر بھی ہے کہ جب پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہوگی تو پھر مسئلہ کشمیر پر مثبت پیش رفت ہوگی۔

کشمیر کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ آئندہ اجلاسوں میں دفتر خارجہ اور امور کشمیر کی وزارت کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوا کریں گے تاکہ کشمیر کے حوالے سے ہماری متفقہ سوچ سامنے آسکے۔ میری وزیر اعظم میاں نوازشریف سے گزارش ہے کہ بیرون ممالک بھجوائے جانے والے  فود میں پارلیمنٹرین کیساتھ ساتھ پاکستان میں موجود کشمیری قیادت اور ریٹائرڈ سفارتکاروں کو بھی شامل کیاجائے تاکہ بہتر انداز میں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کیا جاسکے۔

مریم اورنگزیب (وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات)

مسئلہ کشمیر ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کا مستقل حل تلاش کرنے سے دنیا کا کوئی بھی باضمیر شخص انکار نہیں کرسکتا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت تمام اقوام عالم تسلیم کرتی ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی مرضی اور خواہشات کے مطابق حل کیا جائے ۔ کشمیر پاکستان کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی جدوجہد کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کرتا رہے گا۔

پاکستان کا شروع سے یہی موقف رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کی مرضی اور خواہش کے مطابق مسئلہ کشمیرحل کیا جائے۔ پاکستانی حکمران ،سیاسی جماعتیں اور پوری قوم کشمیری عوام کے ساتھ ہیں اور ان کی جانب سے ہر بین الاقوامی فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے جو وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم ہو رہا ہے ۔پاکستان کی سلامتی اور مضبوطی میں کشمیریوں کی سلامتی ہے جبکہ بھارت پاکستان کی ترقی سے خوفزدہ ہورہاہے۔

افسوس ہے کہ عالمی برادری190ممالک کے لئے پائیدار ترقی کے اہداف طے کرتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق بھول گئی۔ بھارتی افواج نے پیلٹ گنز کے استعمال سے کشمیریوں کی ایک نسل تباہ کر دی ہے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں معصوم شہریوں پرظلم ‘بربریت اور انسانیت سوز واقعات کے ایسے بدترین ریکارڈ قائم کیے ہیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ عالمی برادری کو اس معاملے پر بیدار اور بھارت کواس ظلم اور بربریت کا جواب دینا ہوگا۔

70سال گزرنے کے بعد آج بھی پاکستان کا بچہ بچہ یہ کہہ رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارتی فوج نے ایک برہان وانی کو شہید کیا ہے تو تحریک آزادی کشمیر میں مزید تیزی آئی ہے۔ کشمیر میں ہر بچہ برہان وانی ہے، بھارتی فوج کتنے برہان وانی شہید کرے گی۔ یہاں سٹیج پر موجود تمام شخصیات کے آباؤ اجداد نے کشمیر کی تحریک کو تقویت دی اوراب موجودہ نسل بھی کشمیرسے محبت کے جذبے میں آگے بڑھے گی۔

پہلی بار پارلیمنٹ میں نوجوان اراکین اسمبلی نے اکٹھے ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ نسل بھی کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ہم یونیورسٹیوںاور کالجوں میں کشمیر ڈیسک اور بڑے شہروں میں کشمیر چیئر کے قیام کی تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہیں ‘ اس سلسلہ میں وزیر تعلیم اور وزارت کیڈ کے وزراء سے موثر حکمت عملی طے کرنے کے لئے بات کروں گی۔

میڈیا مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار جاری رکھے جبکہ نئی نسل مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سوشل میڈیا پر ایسا فعال کردار ادا کرے تاکہ عالمی برادری اور بھارت مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ میں مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والے سید علی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق‘ یاسین ملک اور دیگر حریت قیادت کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جدوجہد کی تائید کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں نہ صرف انڈیا کے ریاستی جبر ، جبری تسلط اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے اقوام عالم کو آگاہ کیا بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے خود اقوام متحدہ کی منظور شدہ قرار داروں پر عملدرآمد کرانے میں ناکامی پراقوام متحدہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ وزیر اعظم نے ایک ایسے وقت میں جنرل اسمبلی کے اندر کشمیر کا بھرپور مقدمہ لڑا جب بھارت اس معاملہ کوالتوا میں ڈالنے کے لئے بھرپور کوششیں کررہا تھا۔

وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں یہ واضح کردیا کہ پاکستان، بھارت سے مذاکرات کیلئے تیار ہے تاہم جب تک مسئلہ کشمیر مذاکرات کا بنیادی نقطہ نہ ہو گا مذاکرات نہیں ہوسکیں گے۔اقوام متحدہ نے دیگر درپیش اہم مسائل سمیت انسانی حقوق کیلئے سسٹین ایبل ڈویلمنٹ گولز مقرر کئے ہیں، ان گولز میں کشمیریوں کے حقوق کو نظر انداز کیوں کیا گیا؟ اس ظلم و جبر کا بھارت سمیت اقوام متحدہ کو جواب دینا ہوگا۔

راجہ فاروق حیدر خان (وزیراعظم آزاد جموں کشمیر)

مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو بھی معاملہ ہو ،پاکستان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو یکجا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ بھارت زبردستی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے ،اس حوالے سے قومی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت کرکے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھیں اور انہیں بتایا جائے کہ جس طرح اسرائیل ،فسلطین میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کے لئے یہودیوں کی آبادکاری کر رہا ہے، اسی طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کی آبادکاری کی سازش کر رہا ہے۔

آج کل پاکستان میں پانامہ کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ افسوسناک ہے، پاکستان مسائل میں گھرا ہوا ہے، ہمیں دیگر مسائل پربھی توجہ دینی چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو  اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے مفادات کے برعکس پاکستان میں جمہوری عمل کو مضبوط کرنا ہوگا۔

پاکستان سے باہر جانے والے پارلیمانی وفودبیرون ملک آباد کشمیریوں سے خطاب کرنے کے بجائے انگریزوں سے ملیں اور انہیں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بتائیں کہ 70 سالوں سے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے سرد خانے میں پڑا ہوا ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اقوام متحدہ میں کشمیری قیادت کی ترجمانی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل پر بات کی اور اقوام متحدہ سے استفسار کیا کہ آج تک مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہوا۔

سردار عتیق احمد خان (سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر)

قیام پاکستان کے بعد کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا عمل پہلی مرتبہ 28 فروری 1975ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی کال پر کیا گیا جب بھارت نے شملہ معاہدہ کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک ایسی کال تھی جس پر آزاد و مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کی سڑکیں جام ہوگئیں۔ تاہم 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کو سرکاری طور پر منانے کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم کو جاتا ہے جنہوں نے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے نہ صرف 5 فروری کو مخصوص کیا بلکہ اس دن کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر تسلیم کرایا۔ پھر پنجاب کی حکومت اور بعد ازاں پاکستان کی حکومت نے بھی یہ دن منانا شروع کیا۔

پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کشمیری عوام کو پیغام دیا جائے کہ پاکستانی عوام اور حکومت کشمیریوں کی تحریک آزادی کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی ہے اور دنیا کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان اور کشمیرکا رشتہ فطری ہے۔ تاریخی، علاقائی، جغرافیائی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے دونوں ایک ہیں اورا ن کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ سرحد کے اس پار بھارتی قابض فوج کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کررہی ہے لیکن 70 سالوں کے دوران7 لاکھ ہندوستانی فوج کی جانب سے تمام تر ظلم، جبر اور تشدد کے باوجود کشمیری عوام کے حق خود ارادیت اور آزادی کی تحریک کو دبایا نہیں جا سکا ہے۔ کشمیر ایک اکائی ہے جس میں آزاد کشمیر، مقبوضہ کشمیر،کارگل لداخ وغیرہ شامل ہیں اور اس کا اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی ذکر ہے۔

پاکستان نہ صرف مسئلہ کشمیر کا اہم فریق ہے بلکہ کشمیریوں کا وکیل بھی ہے پاکستان کو اس مسئلہ کے حل کیلئے مزید اور مسلسل اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو حریت قائدین کو پاکستان میں مدعو کرنا چاہے تاکہ نہ صرف کشمیریوں کو حوصلہ ملے بلکہ عالمی توجہ بھی حاصل کی جاسکے۔

بیرسٹر سلطان محمود (رہنما پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر)

کشمیریوں کی جدوجہد جدت کے ساتھ چل رہی ہے اور مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سے عالمی سطح پر اجاگر ہوگیا ہے۔ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو 70 سال ہوچکے ہیں اور کشمیری لوگ قربانیاں دے رہے ہیں۔ 1989ء میں لاکھوںلوگ وہاں شہید کردیے گئے۔

9/11کے بعد جب دنیا بھر میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کو دہشتگردی قرار دیا جارہا تھا تو کشمیریوںنے بندوق نیچے رکھ کر ، جمہوری انداز میںاپنی تحریک شروع کرکے عالمی برادری کو یہ مسئلہ حل کرنے کا موقع دیا لیکن 15برس بیت گئے عالمی برادری نے کشمیری عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔

بھارت، مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرناچاہتا ہے جبکہ ڈیموگرافک تبدیلی کو کشمیریوں نے مسترد کر دیاہے۔موجودہ حکومت نے کشمیر کاز کے لیے پارلیمنٹرین کو باہربھیجا،اگر حریت وفد کو باہر بھیجا جاتا تو اس کا زیادہ فائدہ ہوتا۔ پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاک بھارت مذاکرات کے راستے بند نہ ہوں ، کوشش کر رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر اور آزادکشمیر کے عوام لائن آف کنٹرول پر اکٹھے ہوں تاکہ بین القوامی کمیونٹی کی توجہ حاصل کی جاسکے اور اگر ہم متفقہ طور پر اکٹھے ہوجائیں تو دیوار برلن کی طرح لائن آف کنٹرول کو توڑ سکتے ہیں۔ پاکستان میں قومی کشمیر کمیٹی کو سرگرم کرنا چاہیے۔

مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں کشمیری قیادت کو زیادہ سے زیاد ہ شامل کیاجائے تاکہ بہتر انداز میں اس کا حل سامنے آسکے ۔ ایران اور برطانیہ نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر بھارت ہٹ دھرمی کا مظاہر ہ کر رہا ہے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر (رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

ہم ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کی تقریبات منانے تک محدود ہوگئے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عملی اقدامات نہیں اٹھا سکے۔ ہمارے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ گزشتہ 70سالوں سے کشمیری عوام آزادی کی تحریک چلارہے ہیں لیکن تاحال انہیں ان کی منزل نصیب نہ ہوسکی ہے بلکہ وہ آزادی کی امید لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے متحد اور متفق نہیں، ہمیں مسئلہ کشمیر کا مقدمہ لڑنے کیلئے پہلے خود کو سیاسی، سفارتی اور معاشی سطح پر مضبوط کرنا ہوگا۔

آج کے اس دور میں کمزور کی بات کوئی نہیں سنتا،مسلمان آپس میں متحد نہیں ہیں، پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمان ممالک کمزور ہیں اور بڑی طاقتوں کے سہارے پر چل رہے ہیں، ایسے میں ہم کیسے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکتے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے ہے، اگر یہ ابھی تک حل نہیں ہوئے تو اس میں ہماری خامیاں ہیں، ہمیں انہیں دور کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔

ہندوستان نے عالمی سطح پر کشمیری عوام کی تحریک آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنا شروع کردیا ہے اور انہوں نے اس کو اپنا قومی بیانیہ بنایا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے اور کشمیر میں سپانسرڈ دہشت گردی کی جارہی ہے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اقوام عالم میں موجود اس تاثر کو بھی ختم کرنا ہوگا اور دنیا کو باآور کرانا ہوگا کہ کشمیر میں جاری تحریک ہندوستانی قابض فوج کی ظلم و جبر، ریاستی تشدد کے خلاف اور حق خود ارادیت کی تحریک ہے۔

راجہ بشارت (مرکزی رہنماء پاکستان مسلم لیگ (ق))

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یوم یکجہتیٔ کشمیر منانا چاہیے، اس سے ہم مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ اس مشکل گھڑی میں تنہا نہیں ہیں بلکہ پاکستانی قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے۔ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چند تجاویز دینا چاہتا ہوں، میری کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن سے گزارش ہے کہ جہاں ہم مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں ہمیں اپنی نئی نسل کو مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک سے روشناس کرانے کے لئے نصاب میں ترامیم کی جائیں اور نصاب میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا جائے۔

بھارت اپنی بہتر سفارتکار کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کو تنہاکرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک جاری رکھنے والوں کو دہشت گرد کہاجارہا ہے ۔ میں سفارتی محاظ پر بھارتی پراپیگنڈہ کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہیں، ہمیں عالمی سطح پر مثبت سفارتکاری کی ضرورت ہے۔

مشعال ملک (زوجہ کشمیری حریت رہنما یاسین ملک)

کشمیری عوام کیلئے یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ پاکستان میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اور اس روز سول سوسائٹی، طلباء، سیاستدان، صحافی غرض کہ پورے عوام اپنا کاروبار، روزگار اور کام چھوڑ کر کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کیلئے سیمینارز، ریلیاں اور تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں ۔ میں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی طرف سے پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔

دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ70 سالوں سے کشمیری عوام آزادی کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں، اب تک لاکھوں افراد شہید ہوچکے ہیں لیکن کشمیری عوام کی عزم اور جوش میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ روز بروز ان کے تحریک میں تیزی آرہی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں آزاد ی کی تحریک نے نیا موڑ لیا ہے۔

کشمیری حریت قیادت کے ساتھ نوجوانوں نے بھی تحریک شروع کی ہے،جسے دبانے کیلئے ریاستی قابض فوج نے ظلم و تشدد کی انتہا کردی ہے۔ کشمیریوں پر پیلٹ جنز استعمال کی جارہی ہیں جن کا استعمال جانوروں پر بھی ممنوع ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران بھارتی مظالم کی وجہ سے ہزاروں لوگ زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے جبکہ وہاں بھارتی فوج کی جانب سے خواتین کو زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے جو انتہائی شرمناک عمل ہے۔

ہندوستان کشمیریوں کی ہر آواز کو دبا رہا ہے، پاکستان کو ان کی آواز بننا ہوگا۔ میرے شوہر نے بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور ان کی زندگی اجیرن کردی گئی۔ ڈاکٹر عاشق حسین فکتو، بیگم آسیہ اندرابی، سید علی گیلانی سمیت ہر حریت لیڈر نے بے حد قربانیاں دی ہیں،میں انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ میں فیض احمد فیض کی یہ نظم آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں:

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

اور اہل حکم کے سراو پر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی

ہم دیکھیں گے

میری دعا ہے کہ وہ وقت جلد آئے جب دنیا دیکھے کہ کشمیریوں کو ان کا حق مل گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔