مظلوم و شہیدمحمد افضل گُرو کی چوتھی برسی

تنویر قیصر شاہد  بدھ 8 فروری 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

9فروری کا خونی دن پھر طلوع ہونے والا ہے۔ ایک مظلوم، بیگناہ اور بے بس کشمیری مسلمان نوجوان سے وابستہ یادوں سے دل پھر ملُول ہے۔ چار سال قبل، 9فروری 2013ء کو کشمیری محمد افضل گُروکو بھارتی ہندو اسٹیبلشمنٹ نے دہلی کی تہاڑ جیل میں نہائیت ظالمانہ طریقے سے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ اس ستم پر مزید ستم یہ ڈھایا گیاکہ شہید کی میت بھی اُن کے والدین، بیوہ(تبسم) اور نہائیت کمسن اکلوتے بیٹے (غالب)کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ چار سال گزرنے کے باوجود شہید افضل گرو اب بھی تہاڑ جیل کے اندر ہی مدفون ہیں۔

ظلم اور جبر کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے! بھارت نے الزام لگایا تھا کہ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں نے جو حملہ کیا تھا، اس کا ماسٹر مائنڈ یہی افضل گرو تھا۔ بارہ سال مقدمہ چلا۔ اس دوران تمام شواہد نے ثابت کر دیا کہ افضل گنہگار نہیں ہیں لیکن اس کے باوصف بھارتی عدالت نے اُنہیں موت کی سزا سنادی۔ ہندو ججوں کے سفاک الفاظ زرا ملاحظہ کیجئے: ’’بھارت کے اجتماعی ضمیر کا تقاضا ہے کہ افضل گرو کو موت کی سزا دے کر اُس کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔‘‘ 9فروری کو 44سالہ گرو کو پھانسی دے دی گئی۔ بھارت کی ممتاز اورمحترم اخبار نویس ارُن دھتی رائے نے اس موقع پر ایک برطانوی اخبار (گارڈین) میں طویل مذمتی آرٹیکل لکھتے ہُوئے کہا: ’’افضل گرو کی موت بھارتی جمہوریت کے دامن پر ایسا سیاہ دھبہ ہے جو کبھی نہیں دُھل سکے گا۔‘‘

افضل گُرو کا خون رائیگاں تو نہیں جائے گا لیکن دوسری طرف بھارت نے بھی مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ وہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کو کچلنے کے لیے ہر غلیظ ہتھکنڈہ بروئے کار لائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ مجاہدینِ کشمیر کے حوصلے پست کرنے کے لیے کشمیری عفت مآب خواتین کی عصمتیں پامال کرنے سے بھی باز نہیں آرہی۔ اِس ضمن میں ہولناک حقائق سامنے آرہے ہیں۔ مثلاً 2 فروری 2017ء کو مقبوضہ کشمیر سے شایع ہونے والے ممتاز انگریزی اخبار’’رائزنگ کشمیر‘‘ کی ایک خبر۔ اخبار مذکور میںیاور حسین کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے ایک رکن، ایم وائی تریگامی، نے سپیکر سے ریاست میں ہونے والے حالیہ ریپ کے سانحات بارے بار بار سوال پوچھا تو اسمبلی کی طرف سے اُنہیں تحریری جواب میں بتایا گیا کہ گذشتہ دو برسوں (2015-16ء)کے دوران مقبوضہ کشمیر میں 595خواتین کی عصمت دری کی گئی۔

یہ تعداد تو وہ ہے جس کا تھانوں میں باقاعدہ اندراج کیا گیا مگر واقعہ یہ ہے کہ ریپ کے لاتعداد ایسے سانحات ہیں جووقوع پذیر تو ہُوئے لیکن مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے اُنہیں ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا۔ اِس قبیح جرم کا ارتکاب کرنے والے وہ بھارتی فوجی، افسر اور بارڈر سیکیورٹی فورسز کے ’’جوان‘‘ ہیں جنہیں دہلی اسٹیبلشمنٹ نے خصوصی طور پر مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر رکھا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے دو اضلاع، کپواڑہ اور اننت ناگ، میں کشمیری مسلمان خواتین کی سب سے زیادہ بے حرمتی کی گئی ہے۔ عالمی ضمیر مگر بھارت کے اِن قاہرانہ اقدامات پر کب جاگے گا؟ واشنگٹن میں بیٹھے ممتاز کشمیری دانشور، جناب غلام نبی فائی، اِن بھارتی مظالم کے بارے میں بار بار ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی امریکی انتظامیہ کو خط لکھ کر بیدار اور آگاہ کرنے کی اپنی سی مساعی تو کر رہے ہیں لیکن بھارت کی طرف جُھکا امریکی پلڑا فائی صاحب کی چیخوں پر کان دھرنے سے انکاری ہے۔

بھارت سے اربوں ڈالر کی تجارت کرنے والے عرب مسلمان ممالک (مثلاً متحدہ عرب امارات کا پچھلے ماہ ہی بھارت سے 75ارب ڈالر کا تجارتی معاہدہ) بھی اسی ضمن میں کم درجہ بے حس نہیں ہیں۔ اُمت کی تسبیح پڑھنے والے سب خاموش اور مہر بہ لب۔ ظلم اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بھارت کے اندر انسانی حقوق کے ایک رکن، امیت سَین گُپتا، نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ’’بھارت نے نہائیت ہی وحشت سے (مقبوضہ) کشمیر کی مزاحمتی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی ہے، اور اب بھارتی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ بھارتی مکالمے سے کشمیریوں کے مسائل و مصائب کا ذکر ہی دانستہ غائب کر دیا گیا ہے۔‘‘

کیا یہ یقین کر لیا جائے کہ افضل گُرو کے پھانسی لگنے کے بعد بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے باقی نوجوانوں سے صرفِ نظر کر لے گی؟ نظر تو یہی آرہا ہے کہ بھارتی ستمگر کشمیری نوجوانوں کو مختلف الزامات کے تحت موت کی سزائیں دیتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بھارت دنیا میں کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر حریت پسند کشمیریوں کی گردن توڑ دینا چاہتا ہے تاکہ واقعی معنوں میں زیر قبضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کیا جاسکے۔ اُس کی گمشدگی اور اغوا کی رپورٹ درج کروادی گئی تھی لیکن پھر برسوں اُس کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہ ہو سکا۔

پانچ سال بعد، 2007ء میں، ہمارے گاؤں کے نمبردار نے میرے والد، عبدلمجید راتھر، کو بتایا کہ پولیس آئی تھی اور بتارہی تھی کہ مظفر راتھر زندہ ہے، مغربی بنگال سے دہشت گردی کرتے ہُوئے گرفتار ہُوا ہے اور اب کلکتہ جیل میں ہے۔ ہمارے تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ مظفر جب غائب ہُواتھا، دس سال کا تھا۔ دس سالہ بچہ بھلا کیا اور کیسی دہشت گردی کر سکتا ہے؟ اور اب جب کہ وہ بائیس سال کا ہو چکا ہے اور گزشتہ بارہ برسوں سے جیلوں کی سختیاں اور تشدد بھی مسلسل سہتا آ رہا ہے، اُسے سزائے موت سنا دی گئی ہے۔‘‘ مقبوضہ کشمیر میں اب یہ کہانیاں زبان زدِ خاص وعام ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر کے کمسن لڑکوں کو اغوا کرتی ہیں، اُنہیں برسوں غائب رکھا جاتا ہے اور ایک روز اُن پر قتل، ڈاکے اور دہشت گردی کے مقدمات ڈال کر اُنہیں سامنے لایا جاتا ہے۔ بھارتی میڈیا میںاُن کے (ناکردہ) گناہوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے اور پھر یہ خبر بھی آجاتی ہے کہ فلاں کشمیری نوجوان کو عمر قید یا سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ کلگام کے مظفر راتھر کے ساتھ بھی یہی ہاتھ کیا گیا ہے۔

ممتاز اور بزرگ کشمیری رہنما، سید علی شاہ گیلانی، نے کہا ہے کہ بے گناہ مظفر راتھر کو سزائے موت سنا کر بہت بڑا ظلم کیا گیا ہے؛ چنانچہ 3فروری 2017ء کو حریت قائدین کی متحدہ قیادت میںپورے مقبوضہ کشمیر میں مظفر احمد راتھر کو سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف زبردست احتجاج ہُوا ہے۔ ایسے احتجاج تو مگربے گناہ افضل گرو کو سنائی جانے والی سزائے موت کے خلاف بھی بہت ہُوئے تھے لیکن بھارت گرو کو پھانسی دینے سے باز نہ آیا۔ تو کیا مظفر احمد راتھر کی شکل میں ایک اور افضل گُرو کی شہادت کا خوں رنگ منظر ابھرنے والا ہے؟ ابھی تو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیری برہان مظفر وانی کی شہادت کا دکھ نہیں بھولا تھا کہ اب مظفر راتھر کی غمناک داستان سامنے آ گئی ہے۔ میرے اللہ، تُو کشمیریوں پر رحم فرما۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔