نگران وزیراعظم …اچکزئی کو راضی کیا جائے

نصرت جاوید  جمعـء 4 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سچی بات تو یہ ہے کہ اپنی ایمانداری، ثابت قدمی اور جمہوریت سے گہری وابستگی کی وجہ سے رضا ربانی پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی طرف سے عطاء کردہ سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ نہ دینے کے باوجود بھی نئے انتخابات کرانے کے لیے بنائی گئی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر سب کو قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ ان کی اپنی قیادت مگر ان سے اکثر ناراض رہا کرتی ہے۔ ایک ارب پتی جنھیں آج کل دربارِ آصف علی زرداری میں ضرورت سے کہیں زیادہ موثر سمجھا جاتا ہے، ان کے نام کو اپنی نجی محفلوں میں ویٹو کرتے بھی سنائی دیے ہیں۔

اپنے ٹھنڈے مزاج، صلح جوئی اور معاملہ فہمی کے سبب اسحاق ڈار بھی عبوری وزیر اعظم کے منصب کے لیے مناسب ترین امیدواروں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ ان کا انتخاب مگر کینیڈا سے آئے ایک قادری ہی نہیں بلکہ ’’تبدیلی کا نشان‘‘ بھی دو پارٹیوں کے درمیان مک مکا ٹھہرا کر متنازعہ بنا دیں گے۔ محض اس وجہ سے کہ ڈار صاحب اب نواز شریف کے رشتہ دار بھی ہو چکے ہیں۔ اگر انتخابات ہر صورت کرانا ہیں اور انھیں صاف ستھرا بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی کرنا ہے تو عاصمہ جہانگیر اس حوالے سے ایک دبنگ نام ہو سکتی ہیں۔ ’’وہ‘‘ مگر انھیں پسند نہ کریں گے۔ اسلام اور نظریہ پاکستان کے از خود محافظ بنے کچھ لوگ بھی فوراََ حرکت میں آ کر اس نام پر کیچڑ اُچھالنا شروع ہو جائیں گے ۔

سابقہ جج حضرات خواہ کتنے ہی با اصول اور نیک نام کیوں نہ رہے ہوں، عملی سیاست کی اُلجھنوں سے نبٹنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج انتخابات کی گہما گہمی میں اڑائی جانے والی دھول کا سامنا بھی نہیں کر سکتا۔ میری بات پر یقین نہ آئے تو ہمارے فخرو بھائی کو دیکھ لیجیے۔ ہر روز یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ وہ کسی بھی روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ بابر اعوان اس ضمن میں کافی دنوں سے الیکشن کمیشن کے ’’اندرونی ذرایع‘‘ سے یہ ’’خبر‘‘ دے کر اس خدشے کو مزید تقویت پہنچا رہے ہیں۔

پنجابی کا ایک محاورہ ان ’’اچکوں‘‘ کے بارے میں بہت حیرانی کا اظہار کرتا ہے جو کسی گائوں کے بسنے سے پہلے ہی اسے لوٹنے کی تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ اسلام آباد کے چند با خبر لوگ عبوری وزیر اعظم کا نام طے ہو جانے سے پہلے ہی آئین کی کتاب نکال کر یہ جاننے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے ہیں کہ اگر کسی دبائو کے تحت نئے انتخاب کے لیے بنائی جانے والی حکومت کا سربراہ استعفیٰ دے ڈالے تو اس کے جانشین کا انتخاب کون کرے گا۔ اکثر سیانوں کا خیال ہے کہ ایسی صورت میں پیدا ہونے والی مشکلات کا حل صرف چیف جسٹس صاحب ہی دے پائیں گے۔

’’اہل، ایمان دار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت کو کم از کم تین سال تک کھینچنے کی باتیں تو ہو رہی ہیں۔ مگر کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ عزت مآب جسٹس افتخار چوہدری کے ہوتے ہوئے آئین کی وہ کونسی دفعہ بروئے کار لائی جا سکتی ہے جو ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو اتنے عرصے تک ٹکے رہنے کا قانونی جواز فراہم کر سکے۔ میری ناقص رائے میں ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کہے بغیر ٹیکنوکریٹس کی یہ حکومت بنائی ہی نہیں جا سکتی اور اس کے قیام و استحکام سے پہلے ہمارے ہمہ وقت مستعد میڈیا اور سیاپا فروش اینکروں کا منہ بھی کچھ عرصے کے لیے بند کرنا ہو گا اور یہ بندش بھی موجودہ عدلیہ کے ہوتے ہوئے موثر طور پر نافذ نہیں کی جا سکتی۔

کینیڈا سے آئے قادری صاحب نے اعلان کر دیا ہے کہ اگر کوئی ان کا 14 جنوری 2013ء کو اسلام آباد جانے والا 40 لاکھ کا لشکر روکنا چاہتا ہے تو لاہور جا کر ان کے قدموں میں بیٹھے۔ ان کی شرائط پوری کرنے کا عہد کرے اور ضمانت کے طور پر عدلیہ اور افواجِ پاکستان کے نمایندے بھی اپنے ساتھ لائے۔ رحمٰن ملک کو گزشتہ کئی ہفتوں سے دربارِ آصف علی زرداری میں حاضری کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ ایک بااثر صاحب نے ان کی معافی تلافی کرائی۔ اس کے بعد انھیں لندن بھیجا گیا۔ الطاف بھائی نے اس بار ان کی بات نہ مانی۔

حکم فرمایا کہ میری جماعت کو قادری کے ساتھ اسلام آباد جانے سے روکنا چاہتے ہو تو لاہور جائو اور کینیڈا سے آئے انقلابی کی دل جوئی کرو۔ حکومت کے لیے اس موقعہ پر اپنے قاصد دوڑانا مگر ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اس حکومت کے وزیروں کا قادری کی درگاہ پر چلے جانا تو بلکہ ساری دنیا پر واضح کر دے گا کہ اب پاکستان میں کس کا حکم چلا کرے گا۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ اسلام آباد میں 40 لاکھ لوگوں کی آمد، ان کا سردی سے بچائو اور حوائج ِضروریہ کا بندوبست شروع کر دیا جائے اور پھر انتظار کہ سیلاب بلا کی آیندہ منزل کیا ہو سکتی ہے۔ نواز شریف کے نورتن فی الحال اتنا پریشان نظر نہیں آتے۔ سیلاب بلا کو اسلام آباد کی راہ دینے پر تقریباََ تیار ہیں۔ عمران خان سمجھ نہیں پا رہے کہ اس سارے قضیے میں انھیں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔ وہ تو پرچی کے ذریعے سونامی بپا کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔

انھیں یکسوئی چاہیے اور ’’فروعی معاملات‘‘ سے دوری۔ نواز شریف کے درباریوں کی ہر رعونت بے عملی اور عمران خان کی اعتماد بھری لاتعلقی کینیڈا سے آئے قادری کے پیدا کردہ ہیجان کو ختم نہ کر پائے گی۔ اب معاملہ محض مرکزی حکومت اور 14 جنوری کو اسلام آباد آنے پر بضد انقلابیوں کے درمیان نہیں رہا۔ دن بدن یہ بنیادی سوال نکھر کر سامنے آ رہا ہے کہ آیا اس بدنصیب قوم کو ایک منتخب حکومت کی جگہ ایک اور حکومت کو صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے لانے کا موقعہ دیا جائے گا یا نہیں۔ میں ایک کالم نہیں ا چھی خاصی ضخیم کتاب لکھ کر ثابت کر سکتا ہوں کہ ہمارے عوام سے یہ موقعہ چھیننا پاکستان کو تباہی کی کھائی میں دھکیل دے گا اور میرے اس خیال کی تائید چند وہ لوگ بھی بڑی دیانت داری سے کر رہے ہیں جنھیں ان حلقوں تک پوری رسائی حاصل ہے۔

جو بہت لوگوں کی نظر میں ٹیکنو کریٹس والی حکومت کے ’’اصل‘‘ منصوبہ ساز ہیں۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ 14 جنوری اور اس کے بعد یہ حلقے کیا کریں گے۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ 14 جنوری کے دھرنے کو روکنا تمام سیاستدانوں کی ضرورت ہے خواہ وہ حکومت میں بیٹھے ہوں یا اس سے باہر۔ کینیڈا سے آئے قادری کی درگاہ میں حاضری سے کہیں زیادہ موثر قدم انتخابات کے لیے بنائی جانے والی حکومت کے وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کا محض اعلان بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اعلان کرنا ہے تو محمود خان اچکزئی کا نام مان لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اسی شخص کی ایمانداری اور جمہوریت سے دیوانہ وار وابستگی کسی بھی طرح مشکوک نہیں سمجھی جاتی۔ اسی لیے تو عمران خان کی طرح اچکزئی کی جماعت نے بھی 2008ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا اور یہ وہ شخص بھی ہے جس کے عبوری حکومت کا سربراہ ہوتے ہوئے بہت سارے ’’انتہاء پسند اور ناراض‘‘ بلوچ بھی ایک بار پھر انتخابی عمل میں حصہ لینے کو تیار ہو سکتے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کو اچکزئی کے ساتھ ٹیلی فون پر باتیں کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ انھیں کسی نہ کسی طرح راضی کریں اور باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے ان کا نام اپنی جماعت کی طرف سے قوم کے سامنے انتخابات کے لیے بنائی جانے والی حکومت کے سربراہ کے طور پر تجویز کر دیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔