نہیں! ’’سب اچھا ہے‘‘

سعید پرویز  جمعـء 4 جنوری 2013

ملک جس نہج پر پہنچ چکا ہے، اس پر عوام و خواص بے حد پریشان ہیں، لوگ بیمار ہو چکے ہیں، کوئی ذہنی بیمار ہے تو کوئی دیگر جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہے، لیکن ایک گروہ ایسا ہے کہ جو بالکل تندرست و توانا اور ہشاش بشاش ہے۔ اس پر ملک کے نازک حالات کا ذرہ برابر اثر نہیں ہوتا۔ یہ گروہ ہمارے حکمران ہیں اور یہ ’’سب اچھا‘‘ ہی بتلاتے ہیں۔ ملکی نازک صورت حال کی جانب حکمرانوں کی لاکھ توجہ دلاؤ، مگر یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے، اور ان کے پاس ہر سوال کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوتا ہے۔ مثلاً ان سے پوچھو ’’لوگ قتل ہو رہے ہیں‘‘ یہ کہیں گے ’’نہیں لوگ ذاتی دشمنیاں نکال رہے ہیں‘‘۔

’’بے روزگاری کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں‘‘ ۔ ’’نہیں گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں‘‘۔ ’’تاجر بھتے کی پرچیوں سے خوفزدہ ہیں‘‘۔ حکومتی جواب ’’تاجر ایف آئی آر نہیں کٹواتے، ہم کسے پکڑیں؟‘‘ ۔ ’’جناب! علماء قتل ہو رہے ہیں‘‘۔ حکومتی جواب ’’نہیں، یہ تو ہر دور میں قتل ہوتے رہے ہیں‘‘۔ ’’خودکش بمبار حملے کر رہے ہیں‘‘۔ حکومتی جواب ’’مگر ہم ہار نہیں مانیں گے، ہماری فورسز کے جوان بھی خودکش حملوں میں مر رہے ہیں‘‘۔

’’جناب بینک لٹ رہے ہیں‘‘ جواب ’’بینک کے ملازمین سے پوچھ گچھ کر رہے ہیں، اور وہ ڈاکو؟ ان کی سی سی ٹی فوٹیج بھی مل گئی ہے، وہ بھی ’’غور‘‘ سے دیکھ رہے ہیں‘‘۔ ’’جناب! گیس بند ہے، گاڑیاں نہیں چل رہیں، گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں‘‘۔ جواب ’’ہمارے خانسامے بے چارے بھی پتہ نہیں کیسے کھانا پکا رہے ہیں، پتہ نہیں ہمارے بے چارے ڈرائیور کیسے گاڑیاں چلا رہے ہیں‘‘۔ ’’جناب! اسٹریٹ کرائم گلی گلی ہو رہے ہیں، گن پوائنٹ پر موبائل فون، نقدی، عورتوں سے زیورات چھین لیے جاتے ہیں‘‘۔ جواب ’’ارے نہیں، اب یہ چھوٹے موٹے کام بند ہو چکے ہیں، عورتوں نے بھی نقلی زیورات پہننے شروع کر دیے ہیں، ہمیں سب پتہ ہے، ہم بے خبر نہیں ہیں‘‘۔ ’’جناب! ہمارے نوجوانوں کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے‘‘۔ جواب ’’ارے نہیں بھئی! نوجوان بہت خوش ہیں، نئے نئے اور دلکش موبائل پیکیجز آ رہے ہیں اور نوجوان دن رات لگے ہوئے ہیں‘‘۔

قارئین کرام! ہم دن رات ایسے ہی سوال جواب ٹی وی اسکرین پر دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ کچھ نیا نہیں ہو رہا، ماضی کے حکمران بھی یہی سب کچھ کرتے رہے ہیں اور جھوٹ بولتے بولتے اپنی قبروں میں اتر گئے۔ ہم سب نے بھی ایک دن اپنی اپنی قبر میں اترنا ہے۔

قائد اعظم محمد علی جناح اﷲ کے مقرر کردہ وقت پر چلے گئے، اور آج بانی پاکستان کے ساتھ اسی کے شہر کراچی میں یہ سلوک ہوا کہ قائد کے یوم پیدائش یعنی 25 دسمبر کے دن شہر کی بڑی بڑی شاہراہوں پر حکمرانوں کے بڑے بڑے رنگین تصاویر سے مزین بورڈ لگے ہوئے تھے اور قائد اعظم کی ایک بھی تصویر کہیں نہیں تھی۔

لیاقت علی خان کو بھی راولپنڈی میں گولی لگی اور شہید ہو کر چل دیے۔ اس زمانے میں بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے کھڑے ہو کر عوام سے خطاب کرنے کا رواج نہیں تھا، اس زمانے کے رہنماؤں کو اپنے کردار پر فخر ہوتا تھا اور وہ بلاخوف و خطر سامنے آ کر بات کرتے تھے۔ آج کے حکمران اور رہنما، کیا چھوٹے کیا بڑے سب ’’بلٹ پروف‘‘ ہو گئے ہیں۔ ہمارے صدر صاحب اپنے ہی گھر نواب شاہ میں محفوظ نہیں ہیں۔ وہ اپنے گھر آئے تو سارے شہر کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیے گئے، رستے گلیاں سنسان کر دی گئیں، مجھے مرزا صاحباں کی داستان کا ایک مصرعہ یاد آ گیا۔ صاحباں چاہتی ہے کہ:

’’اے گلیاں ہو جان سُنجیّاں‘ وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ یعنی ’’یہ گلیاں سونی ہو جائیں اور میرا مرزا یار ان گلیوں میں گھومے پھرے‘‘۔

کبھی کبھی میں اپنے دوست حامد حسین بروہی سے ملنے چلا جاتا ہوں۔ یہ دوست بلوچ ہے اور ساسولی قبیلے سے ان کا تعلق ہے۔ تقریباً چار سو سال پہلے ان کے خاندان نے بلوچستان سے ہجرت کی اور کراچی کے علاقے شیر شاہ میں آباد ہوئے اور یہ آج بھی اپنے آبائی علاقے شیرشاہ میں رہ رہے ہیں۔ حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے ان کا تعلق ہے اور یہ اپنی پارٹی کے ساتھ ہونے پر فخر کرتے ہیں، مگر حق بات بھی کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ان کو پرانی کہاوتیں خوب یاد ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سنیں اور اب یہ دوستوں کو سناتے رہتے ہیں۔ اس بار ملاقات پر حامد حسین بروہی نے جو کہاوت سنائی آپ بھی سنیے!

’’ایک لڑکے کو گاؤں میں چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا، گاؤں کے لوگوں نے اس کا منہ کالا کیا، اس کے گلے میں پرانے جوتوں کا ہار ڈالا اور اسے گدھے پر بٹھا کر پورے گاؤں کا چکر لگوایا، یہ واقعہ پورے گاؤں میں پھیل گیا۔ وہ لڑکا جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا، اپنے گھر پہنچا تو اس کی بھابی نے اس سے پوچھا ’’سنا ہے گاؤں والوں نے تمہارا منہ کالا کیا؟‘‘ لڑکے نے یہ سن کر اپنی بھابی سے کہا: ’’ارے نہیں بھابی! یہ جھوٹ ہے، گاؤں والوں نے میرا منہ کالا نہیں کیا بلکہ چھوٹی سی ٹھیکری پر کالک لگا کر میرے منہ پر ماری اور تھوڑی کالک میرے چہرے پر لگ گئی، میں نے سارے گاؤں کے سامنے کہا ’’واہ رے ٹھیکری! تیرا کیا رنگ ہے‘‘۔

پھر بھابی نے پوچھا: ’’سنا ہے تمہارے گلے میں پرانے جوتوں کا ہار پہنایا؟‘‘ تو اس پر لڑکا بولا: ’’ارے نہیں بھابی! وہ تو چمڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا ہار تھا اور رنگ رنگ کے ٹکڑے اصلی رنگ برنگے پھولوں کے ہار جیسا لگ رہا تھا‘‘ پھر بھابی نے پوچھا: ’’سنا ہے تمہیں گدھے پر بٹھایا؟‘‘ تو لڑکا بولا: ’’ارے نہیں، سب جھوٹ بولتے ہیں، مجھے گدھے پر نہیں بٹھایا، وہ ایک چھوٹا سا تندرست گدھے کا بچہ تھا اور اس نے مجھے ویل کم کیا اور گردن جھکا کر کہا آئیے دوست بیٹھ جائیے۔ وہ ایسا چھلانگ مار مار کر چلتا تھا، مجھے بڑا مزا آیا‘‘۔

لڑکے کے ساتھ جو کچھ بھی گاؤں والوں نے سلوک کیا، لڑکا سارے سلوک سے انکاری رہا۔ لوگ مر رہے ہیں، خودکشیاں کر رہے ہیں، خودکش دھماکے ہو رہے ہیں، بینک لُٹ رہے ہیں، مگر ہمارے حکمران انکاری ہیں اور ’’سب اچھا‘‘ کہہ رہے ہیں۔ اﷲ اکبر! ’’آخر سب نے ہے مرجانا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔