امن چاہیے

عبدالقادر حسن  جمعرات 9 فروری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان کو ڈرانے بلکہ تباہ کرنے کے لیے بھارت نے دو کھرب روپے کے ہتھیار خریدنے کا حتمی منصوبہ بنایا ہے اس سلسلے میں کئی ممالک سے ہنگامی معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ بھارتی فضائیہ نے 92ارب روپے کے 43معاہدے کیے ہیں جن سے کئی فضائی جنگی جہازوں کے پرزے منگوائے جا رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے گزشتہ چند ماہ میں جنگی سامان کے کئی معاہدے کیے گئے ہیں۔

اسرائیل‘ روس اور فرانس سے ہونے والے معاہدوں میں بھی تیزی لائی جا رہی ہے۔ بھارت کی جنگی صلاحیتوں میں اضافے کا ایک طویل سلسلہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ بھارت کی فوج اس اسلحہ کے ساتھ دس روز تک مسلسل جنگ لڑ سکتی ہے اور مخالف پر دس روز تک ایک ایسی جنگ مسلط کر سکتی ہے کہ اسے تباہ و برباد کر دے۔ اس طویل خبر میں سوائے پاکستان کے اور تمام پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ اس مبینہ اور مجوزہ دس روزہ جنگ کا نشانہ ظاہر ہے کہ پاکستان ہو گا جو بھارتی جنگ بازوں کے منصوبے کے مطابق دس روز تک اس جنگ میں ختم ہو جائے گا یا اتنا کمزور کہ پھر اٹھ نہ سکے گا۔

اس دس روزہ جنگ سے بھارت کے جو ارادے وابستہ ہیں دنیا جانتی ہے کہ یہ سب پاکستان کے بارے میں ہیں۔ بھارتی جنگی منصوبہ بازوں کے مطابق اس جنگ کا دس روز تک مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا یا دوسرے الفاظ میں دشمن میں اتنی سکت اور جان باقی نہیں رہے گی کہ وہ بھارت کے خلاف ہاتھ اٹھا سکے۔دو کھرب روپے معمولی رقم نہیں ہے جس کی گنتی بھارتی بنیا ہی کر سکتا ہے پاکستانی تو دو کھرب روپے کا سن کر ہی شکست کھا جائیں گے۔ لگتا ہے بھارت نے اپنی دولت کو کسی جنگ میں جھونک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ دو کھرب روپے کی فوجی طاقت کا نشانہ پاکستان ہے۔

بھارت اگر دو کھرب روپے پاکستانیوں کو نقد ہی پیش کر دیتا تو زیادہ فائدے میں رہتا اور پاکستانی جوانوں سے مار کھانے سے بچ جاتا۔ ہم پاکستانیوں کے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ بھارت کے جنگی منصوبہ باز صرف اتنی اوقات رکھتے ہیں کہ صرف دو کھرب روپے سے پاکستان کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ بھارتیوں نے کھربوں کا یہ منصوبہ بناتے وقت پاکستانیوں کی اربوں کھربوں کی طاقت کا حساب نہیں لگایا۔ خود مجھے ایک تجربہ ہو چکا ہے جب میری ہلکی سی یاد دہانی کے جواب میں پورے بھارت کا میڈیا چیخ اٹھا تھا۔

میں اس یاد دہانی کا ذکر کرچکا ہوں جو میرے بچپن سے متعلق تھی جب میں اپنے گاؤں کے ہندو دکاندار سے کھلونے وغیرہ خریدتا تھا اور میں نے اتنا کہا تھا کہ اب جب میں ہندوؤں کے بھارت میں ہوں تو کچھ بھی خریدنے کا پروگرام نہیں رکھتا کیونکہ میں شاپنگ کا شوق بچپن میں پورا کر چکا ہوں۔ اس پر حیرت انگیز حد تک بھارتی میڈیا بھڑک اٹھا اور اتنے بڑے ملک میں ہر طرف میری اس معصومانہ سی بات کا تذکرہ ہونے لگا اور میں دلی میں بیٹھا حیرت زدہ ہوتا رہا، امرتسر کا بے چارہ آنجہانی راجندر اپنی حیرت کو میری تسلی کے لیے بار بار ظاہر کرتا رہا کہ بھارتیوں نے اتنے بڑے ردعمل کی کیا حماقت کی ہے۔

بھارت جو دو کھرب روپے کسی جنگ پر خرچ کرنا چاہتا ہے یہ رقم وہ نقد ہی دے دے تو شاید اسے جنگ کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ دو کھرب روپے کی اس غیر معمولی رقم سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت اب اس قدر خوفزدہ ہو چکا ہے کہ اس کی کم از کم قیمت فی الحال دو کھرب روپے ہے جو ہم پاکستانی تو گن ہی نہیں سکتے البتہ بھارتی بنئے اس کی گنتی کر سکتے ہیں۔ ہم غریب پاکستانی تو یہ عرض کریں گے کہ یہ دو کھرب روپے اگر ہمیں نقد دے دیے جائیں تو ہمارے کئی کام نکل سکتے ہیں اور بھارت بھی اس دس روزہ مسلسل جنگ سے بچ سکتا ہے۔

یہ ایک ایسی تجویز ہے جس میں بھارت اور پاکستان دونوں کی خیریت ہے۔ بھارت بھی جنگ سے بچ سکتا ہے اور ہم پاکستانی بھی جو اتنی سکت نہیں رکھتے کہ دس روز تک دنیا بھر کے اسلحہ کے خلاف لڑ سکیں۔ اس تباہ کن جنگ سے محفوظ رہ سکتے ہیں اگر بھارت ذرا سی عقل سے کام لے لے۔ جنگ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں فتح و شکست دونوں کا برابر کا امکان رہتا ہے اور بھارتیوں کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان کے پاس کتنے ایٹم بم موجود ہیں۔ جب آپ ایک بم بنا سکتے ہیں تو اس کی ٹیکنالوجی سے بہت سارے بم بھی اتنے کہ بھارت ان کا تصور بھی نہ کر سکے۔

وہ جو اندرا گاندھی نے ایک جلسہ میں کہا تھا کہ ہم ہزار برس تک مسلمانوں کے غلام رہے ہیں اور اب اس غلامی کا بدلہ لیں گے۔ یہ بات انھوں نے ’’بنگلہ دیش‘‘ کے قیام کی خوشی میں بے تاب ہو کر کہی تھی، لیکن ایک بات عرض ہے جس کا ہندو دانشوروں کو خوب علم ہے کہ پاکستان کو یہ صدمہ کسی بھارتی نے نہیں خود اپنے پاکستانیوں نے پہنچایا تھا بہر کیف جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اب پاکستان اپنے زخموں کو چاٹ نہیں رہا انھیں مندمل کرنے میں کوشاں ہے اور ان کا جو علاج پاکستان چاہتا ہے اس کا بھارت کو خوب علم ہے لیکن امن کی دونوں کو ضرورت ہے جس کی قیمت کھربوں سے زیادہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔