افتتاح پہ افتتاح

ایاز خان  جمعرات 9 فروری 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

میاں صاحب جب مشکل میں ہوتے ہیں تو وہ منصوبوں کے افتتاح پر نکل پڑتے ہیں۔ گزرے سال 2نومبر کو عمران خان کے لاک ڈاؤن کے وائنڈاپ کے نتیجے میں پانامہ کا کیس سپریم کورٹ میں قابل سماعت قرار پایا تو وزیراعظم اور ان کی زیرک ٹیم نے پلان بنایا کہ اب قوم کو بتایا جائے کہ اس دور میں کتنی ترقی ہو رہی ہے اور تحریک انصاف کس طرح اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

ادھر پلاننگ ہوئی ادھر سلسلہ چل نکلا۔ 2نومبر کے صرف 9روز بعد یعنی 11نومبر کو سانگلہ ہل میں پنڈی بھٹیاں فیصل آباد موٹر وے انٹرچینج کے افتتاح سے اس اننگز کی اوپننگ ہوئی۔کل شیخوپورہ میں بھکھی پاورپلانٹ اب تک کی آخری شاٹ ہے۔

اس دوران حیدر آباد ،کراچی موٹر وے کے 75کلومیٹر کے ایک سیکشن، ملتان میٹرو بس، گریٹر اقبال پارک لاہور، بلوچستان میں سوراب، ہوشاب شاہراہ، گوادربندرگاہ، چشمہ تھری جوہری بجلی گھر وغیرہ وغیرہ کا افتتاح شامل ہے۔ اس عرصے میں کئی جلسوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔ خیبرپختون خوامیں امیر مقام کی ڈیوٹی لگی ہوئی ہے کہ وہ جلسہ در جلسہ کرتے چلے جائیں۔ ن لیگ نے ورکرز کنونشن کی پچ پر علیحدہ سے کھیلنا شروع کیا ہوا ہے۔ اس پچ پر کھیلنے والے مستقل کھلاڑی خواجہ سعد رفیق ہیں جب کہ دیگر کھلاڑی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ گوجرانوالہ میں ہونے والے ایک ایسے ہی کنونشن میں خواجہ صاحب کے کچھ ریمارکس کی باز گشت سپریم کورٹ میں بھی سنائی دی۔کوئی کامیابی ہی کامیابی ہے۔

ن لیگی ٹیم کی تیار ی کی داد دینا پڑے گی۔یہ جب میدان میں اترتی ہے تو پوری تیاری کے ساتھ آتی ہے۔ کوئی ایک بھی پہلو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ ہوم ورک پورا ہو تومیدان میں اترنے کا بھی مزہ آتا ہے۔ مجھے توبعض اوقات یوں لگتا ہے کہ ن لیگی رہنما کسی ریموٹ کنٹرول سے چلائے جا رہے ہیں۔ ان کا فوکس بڑا واضح ہوتا ہے۔ انھیں جہاں سے خطرہ ہوتا ہے صرف وہیں ہٹ کرتے ہیں۔

میری بات پہ یقین نہ آئے تو ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے ہوئے کچھ لیڈروں پر نظر رکھیں کہ وہ کس طرح مسلسل اپنے موبائل فونز پر میسجز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ غالباً کبھی کبھار کسی بات پر ڈانٹ بھی پڑ جاتی ہو گی۔ کہیں داد بھی مل جاتی ہو گی۔ کھلاڑیوں کا انتخاب بھی بڑی مہارت سے کیا گیا ہے۔ روز وہی چہرے بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اتنے عرصے میں پرویز رشید کے درشن صرف دو بار ہوئے ہیں۔ دیگر بلاناغہ اپنی ’’نوکری‘‘ پکی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ن لیگ کی ٹیم نے بڑی واضح اسٹرٹیجی بنائی ہوئی ہے۔ تین ساڑھے تین سال میں ہمیں صرف ایک بات پڑھائی اور سنائی گئی ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ اگر نواز شریف کو ہٹایا گیا تو جمہوریت نہیں بچے گی۔ پانامہ کیس سپریم کورٹ میں گیا اور اس کے بعد کچھ سخت ریمارکس آنے لگے تو رانا ثناء اللہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو قوتیں دھرنے کے ذریعے نواز شریف کو نہیں نکال سکیں وہ اب سپریم کورٹ کے ذریعے یہ کام کرنا چاہتی ہیں۔ ایک بات بار بار باور کرائی گئی کہ نواز شریف کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ یہ سازش کون کررہا ہے؟ ظاہر ہے اشارہ فوج کی طرف ہے۔

کچھ ن لیگی رہنماؤں کو ویسے بھی فوج سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جمہوری حکومت سے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہونے سے جمہوریت مضبوط ہو گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ کیسی جمہوریت ہے جس کی بقاء صرف ایک لیڈر کے رہین منت ہے۔ دو تہائی اکثریت والی حکمران جماعت میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر موجود نہیں جو فرد واحد کا متبادل بن سکے۔

پارٹی میں تو چھوڑیں کیا فیملی میں بھی کوئی اس قابل نہیں جو نواز شریف کی جگہ لے سکے۔ آمریت میں ہمیشہ فرد واحد کی حکومت ہوتی ہے اور جب تک وہ اقتدار چھوڑتا یا اقتدار چھوڑنے پر مجبور نہیں کردیا جاتا اس کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ایک لیڈر جاتا ہے اس کی جگہ لینے کے لیے 10اور تیار ہوتے ہیں۔ ن لیگ کا دوسرا فوکس اس پوائنٹ پر رہا ہے کہ کپتان ’’ترقی‘‘ کا دشمن ہے۔ کپتان کا موقف دوسرا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب حکمران کرپٹ ہوں توملک ترقی نہیں کر سکتا۔ منصوبوں کے افتتاح کی سیاست پر کپتان کا الزام ہے کہ یہ سارے منصوبے ادھورے ہیں۔

پانامہ کیس کی سماعت ملتوی ہونے سے کچھ کھلاڑی ان دنوں آؤٹ آف فارم لگ رہے ہیں۔ ورنہ سپریم کورٹ کے باہر پیر سے جمعہ تک رونق لگی ہوتی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک شاٹ کھیلی جاتی ہے۔ یارکرزاور باؤنسرز کی بھرمار ہوتی ہے۔ گگلی ، فلپر اور ’’دوسرا‘‘ کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ چوکوں اور چھکوں کی بارش ہورہی ہوتی ہے۔ جسٹس عظمت سعیدروبہ صحت ہیں۔ امید ہے کہ سماعت دوبارہ جلد شروع ہو گی اور عدالت کے باہر میدان پھر سج جائے گا۔ پھر سے وہی رونق ہو گی۔ شائقین سے درخواست ہے کہ وہ تب تک پاکستان سپر لیگ کے میچوں سے لطف اندوز ہوں۔ میدان کھیل کا ہویا سیاست کا غیر ذمے داری تو دونوں جگہ نظر آتی ہے۔ دونوں میں پرفارم کرنے والے بھی کم ہی ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ سے پانامہ کیس کا فیصلہ کیا آئے گا اس کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے میں پہلے ہی توقعات سے زیادہ تاخیر ہو گئی ہے۔ اس تاخیر کے ذمے دار جج صاحبان بالکل نہیں ہیں۔ انھیں فیصلہ کرنے کے لیے ثبوت درکار ہیں جو بد قسمتی سے موجود نہیں۔ نواز شریف کے بچے منی ٹریل پیش کر دیتے تو یہ کیس دو تین سماعتوں کی مار تھا۔ لندن کے فلیٹس غالباً پتھر کے زمانے کی ملوں کو بیچ کر خریدے گئے تھے اس لیے قطری خطوط کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ خدشہ ہے قطری ون اور ٹو کے بعد کوئی تھری، فور کی قسط نہ آجائے۔ اسحاق ڈار کا ایک بیان جسے اعترافی کہتے ہیں یا پتہ نہیں زور زبردستی والا کہتے ہیں اچانک ہی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

خواجہ آصف نے تو ایک ٹی وی پروگرام میں وفاقی وزیر خزانہ کو بیل آؤٹ کرنے کی پوری کوشش کر لی لیکن پتہ نہیں سپریم کورٹ اس کا کیا اثر لیتی ہے۔ خواجہ صاحب کا انٹرویو دیکھتے ہوئے میرا دھیان بلاوجہ حسین نواز کے ان انٹرویوز کی طرف چلا گیا جو پانامہ لیکس آنے سے کچھ عرصہ پہلے ’’اچانک‘‘ نشر ہوئے تھے۔ خواجہ صاحب بھی وہیں بیٹھے تھے جہاں حسین نواز جلوہ افروز تھے۔ حسین نواز کا انٹرویو ایک اور اینکر کے ساتھ بھی چلا تھا، دیکھتے ہیں خواجہ صاحب اس اینکر کے سامنے کب بیٹھتے ہیں۔

باقی ساری سائیڈ اسٹوریز ہیں، اصل کہانی یہ ہے کہ میاں صاحب منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں۔ میاں صاحب آپ لگے رہیں ، افتتاح پہ افتتاح کرتے چلے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔