اسمارٹ جیکٹ اور موبائل ایپ سے نمونیے کی فوری شناخت ممکن

عبدالریحان  جمعرات 9 فروری 2017
تجارتی پیمانے پر پیداوار شروع کی جائے گی۔ فوٹو : فائل

تجارتی پیمانے پر پیداوار شروع کی جائے گی۔ فوٹو : فائل

نمونیا سے ہر سال دنیا بھر میں 45 کروڑ انسان متأثر ہوتے ہیں۔ ان میں سے 40 لاکھ اس مرض کے ہاتھوں موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد پانچ سال سے کم عمر بچوں اور 75 برس سے زائد عمر کے بوڑھوں کی ہوتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں تیسری دنیا میں اس مرض کے پھیلنے کی شرح پانچ گنا زیادہ ہے۔ اس طرح غریب ممالک میں ہونے والی اموات کا ایک اہم سبب یہ مرض ہے۔ نمونیا کی وجہ سے ہونے والی اموات کی اہم وجہ اس کی بروقت تشخیص نہ ہونا ہے۔

بالخصوص افریقی ممالک کے ان حصوں میں جہاں طبی سہولیات ناپید ہیں وہاں نمونیا کی تشخیص بروقت نہیں ہوپاتی، نتیجتاً متأثرہ فرد خصوصاً بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان ممالک میں یوگنڈا بھی شامل ہے۔ یہاں نمونیا میں مبتلا ہونے والے ہر سو میں سے 26 بچے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس شرح میں مستقبل قریب میں کمی آنے کا امکان ہے، کیوں کہ نمونیے کی تیزرفتار تشخیص ممکن بنالی گئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تشخیص کے لیے کوئی ٹیسٹ وضع کرنے کے بجائے ایک ’ اسمارٹ جیکٹ‘ بنائی گئی ہے اور اس کا سہرا اولیویا کوبرونگو کے سَر ہے۔ اولیویا کوبرونگو پیشے کے لحاظ سے انجنیئر ہے۔ 26 سالہ اولیویا کو نمونیا کی تیزرفتار تشخیص ممکن بنانے کا خیال اپنی دادی کے انتقال کے بعد آیا۔ بیمار ہونے پر اولیویا انھیں بھاگم بھاگ اسپتال لے کر پہنچا۔

ڈاکٹروں نے انھیں ہنگامی طبی امداد دینے کا عمل فوری شروع کردیا تھا مگر مرض کی حتمی تشخیص ہونے سے پہلے ہی معمرعورت دارفانی سے کوچ کرگئی۔ اس واقعے کا اولیویا پر بہت اثر ہوا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر نمونیے کی بروقت تشخیص ہوجاتی تو دادی کی جان بچ سکتی تھی۔ نوجوان انجنیئر نے عزم کرلیا کہ وہ اس مرض کی تیزرفتار تشخیص ممکن بنانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا جو بزرگوں کے علاوہ سالانہ چوبیس ہزار بچوں کی جان لے جاتا ہے۔

اولیویا نے اپنے ساتھی ٹیلی کوم انجنیئر برائن سے اس عزم کا اظہار کیا۔ برائن نے اولیویا کا ساتھ دینے کی ہامی بھرلی۔ بعدازاں دونوں انجنیئروں نے اپنے ارادے سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو آگاہ کیا۔ وہ بھی اس منصوبے میں ان کا ساتھ دینے پر تیار ہوگئے۔ یوں ڈاکٹروں اور انجنیئروں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ایک اسمارٹ جیکٹ اور موبائل فون ایپلی کیشن کی صورت میں برآمد ہوا۔ اس کِٹ کو انھوں نے Mama-Ope کا نام دیا ہے۔

کٹ کے ذریعے تشخیص کا عمل اس طرح انجام پاتا ہے کہ جس بچے یا بزرگ کے نمونیے میں مبتلا ہونے کا شبہ ہو اسے جیکٹ پہنا دی جاتی ہے، اس میں لگے ہوئے سینسرز پھیپھڑوں سے خارج ہونے والی آواز ، جسم کے درجۂ حرارت اور سانس لینے کی رفتار سے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ پھر یہ معلومات بلوٹوتھ کے ذریعے موبائل فون ایپ تک پہنچتی ہیں، جو سیکنڈوں میں ان کا تجزیہ کرکے بتادیتی ہے کہ مریض کو نمونیے کی شکایت ہے یا نہیں، نیز یہ کہ مرض کتنا شدید ہے۔

اولیویا اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیوائس تین گنا کم وقت میں نمونیے کی شناخت کرسکتی ہے۔ عام طور پر ڈاکٹر اسٹیتھواسکوپ کی مدد سے پھیپھڑوں سے خارج ہونے والی آواز سُن کر نمونیے کا اندازہ کرتے ہیں، تاہم ملیریا اور ٹی بی ہونے کی صورت میں بھی اسی نوع کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ لہٰذا مرض کے حتمی تعین کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت پڑتی ہے جس میں وقت لگ جاتا ہے۔ یہ تاخیر مریض کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اولیویا اور اس کے ساتھی اپنی تیارکردہ تشخیصی کِٹ کا باقاعدہ اندراج کروانے کی کوشش کررہے ہیں جس کے بعد اس کی تجارتی پیمانے پر پیداوار شروع کی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔