کاش آپ ایسا نہ کرتے۔۔۔

شیریں حیدر  اتوار 29 جولائی 2012
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

اگر ہم چند برس پیچھے کی طرف چلیں اور ان حالات کا تجزیہ کریں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ نجی اداروں اور کمپنیوں میں ملازمت کے لیے ریٹائرڈ فوجیوں کو ترجیح دی جاتی تھی، کسی بھی عہدے کا ریٹائرڈ فوجی ہونا اس ملازمت کی مکمل شرط ہوتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فوجی کھرا انسان ہوتا ہے… ’’کھرا‘‘ واحد لفظ ہے جو اس کی مکمل تشریح کر سکتا ہے اور اس کی شخصیت کے تمام اوصاف کی وضاحت بھی۔

فوج میں پندرہ بیس یا پچیس تیس سال تک ملازمت اس نے مکمل دیانت داری سے کی ہوتی ہے اور اس کے کردار کی ایک خوبی ہوتی ہے کہ وہ غلط کو غلط سمجھتا ہے اور ہر کام قاعدے اور قانون کے مطابق کرتا ہے۔

اپنے خاندان میں بھی ہم نے تین نسلوں سے ایسا دیکھا ہے کہ ایک فوجی اپنے اوصاف میں دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے، فوج سے محبت ہماری گھٹی میں پڑی ہے کہ ہم نے جانا ، فوج کوئی اور نہیں ہمارے اپنے ہی ہیں، ہمارے باپ، بھائی، چچا اور ماموں وغیرہ۔ پھر ایک دور ایسا آیا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، اس ملک کے عوام کے دلوں میں فوج کے خلاف نفرت اس طرح inject کر دی گئی کہ ہر طرف سے فوج کو ملامت ہونے لگی اوربعد از ملازمت پرائیویٹ شعبوں میں ملازمت کرنے والے فوجیوں کو بلا جواز دھڑا دھڑ فارغ کیا جانے لگا۔

وہ فوج جو دنیا کی بہترین فوج ہے اسے دہشت گردی کا جگہ جگہ نشانہ بنایا جانے لگا، فوج سے نفرت عوام کے دلوں میں ایک انتہائی منظم منصوبے کے ذریعے پھیلائی گئی تھی جو کامیابی سے ہمکنار ہوا… محب وطن لکھاریوں نے ہر ہر وقت فوج کی اہمیت لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی… ہم نے اپنے بچوں کو گھول گھول کر سبق سکھائے کہ جو قومیں اپنے محافظوں کی قدر نہیں کرتیں، ان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

دو دن قبل میرا بیٹا عبداللہ حسب معمول گھر سے نکلا، پندرہ منٹ کے بعد اس کی کال آ گئی کہ ائیر پورٹ چوک پر اس کی گاڑ ی کو حادثہ پیش آ گیا تھا، دل دھک دھک کرنے لگا، ماؤں کے پاس سوائے دعاؤں کے کیا ہوتا ہے، اس کے والد فوراً گھر سے نکلے، اسے تسلی تشفی دی کہ وہ جلد پہنچ رہے ہیں۔ اس کی گاڑی کے آگے جانے والی گاڑی نے اچانک بریک لگائے تو اسے بھی بریک لگانا پڑی، بارش کے باعث سڑک پھسلواں تھی کہ اس کی گاڑی عمودی انداز میں اسی لین میں مڑ گئی، اس نے کوشش کر کے اسے روک لیا مگر ساتھ ہی ایک زور دار دھماکے سے اس کے پیچھے آنے والی گاڑی نے اس کی طرف کے دروازوں کو اندر دھنسا دیا…

جانے کس دعا کا اثر تھا کہ اللہ نے اسے محفوظ رکھا… اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے اس بات پر۔ جس گاڑی نے اسے ٹکر ماری تھی، اس گاڑی میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر سوار تھے، ان کے ڈرائیور نے اس کے پاس آ کر اس سے پوچھا کہ اس نے اچانک بریک کیوں لگا لیے تھے؟ اس نے کہا کہ چاہے اس کی غلطی بھی ہوتی کہ وہ بریک لگاتا، (حالانکہ اسے اگلی گاڑی کے رکنے کے باعث بریک لگانا پڑے) مگر پچھلی گاڑی کو اتنا محتاط فاصلہ تو رکھنا ہوتا ہے کہ وہ اگلی گاڑی کو کسی بھی غلطی کا چانس دے۔

پھر صاحب خود گاڑی سے نکل کر آئے، اپنا تعارف کروایا، اس کی خیریت پوچھی اور اسے بتایا کہ وہ کہیں جا رہے تھے اور انھیں جلد پہنچنا تھا۔ عبداللہ نے کہا کہ اس کے والد پہنچ رہے ہیں اور اگر وہ انتظار کر لیں تو… مگر انھوں نے عذر پیش کیا اور اپنا کارڈ اسے دے کر کہا کہ انھیں جانا ہے، بعدمیں فون پر، جو بھی ہو گا sort out کر لیں گے۔

sort outسے یہی مراد لی گئی کہ معاملہ آپس میں باہمی رضا مندی سے طے کر لیں گے… اس نے انھیں جانے دیا، جب تک اس کے والد پہنچے وہ صاحب جا چکے تھے۔ عبداللہ کو سب سے پہلے اس کے والد نے یہی کہا کہ اسے ان کو ان کی گاڑی نہیں ہٹانے دینا چاہیے تھی اور پولیس کو کال کرنا چاہیے تھی۔ اب وہ صاحب کبھی اپنے ڈرائیور کی غلطی کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔

’’ پاپا وہ ایک ریٹائرڈ افسر تھے اور شکل سے اچھے بھی لگ رہے تھے اور روزے کی حالت میں بھی ہوں گے، انھوں نے مجھے کہا ہے کہ وہ جلدی میں تھے انھیں کسی میٹنگ میں جانا تھا… اس لیے میں نے انھیں جانے دیا! ‘‘ بہر حال اسے اور اس کی گاڑی کوکسی نہ کسی طرح گھر پہنچایا گیا اور اس کے بعد گاڑی کو ورکشاپ میں بھیجا گیا تا کہ اس کے نقصان کا تخمینہ لگوایا جا سکے۔

ایک ورکشاپ والے نے اٹھائیس ہزار کا تخمینہ لگایا تو کسی اور ورکشاپ میں گاڑی بھیجی گئی کہ ضروری مرمت ہو سکے، اس کا تخمینہ اٹھارہ ہزار روپے کا لگایا گیا۔ شام کو عبداللہ نے ’’انکل‘‘ کو کال کی کہ انھیں بتائے کہ اس کا کتنا نقصان ہوا ہے… اس کے فون کا اسپیکر آن تھا اور عبداللہ کی توقع کے برعکس اور ہماری توقع کی عین مطابق… ان کا بار بار یہی موقف تھاکہ آپ نے بریک کیوں لگائی… عبداللہ پریشان کم اور حیران بہت زیادہ تھا۔ ایک مقام پر اس نے اﷲ حافظ کہہ کر فون بند کر دیا…

آپ بتائیں سر…

… عبداﷲ تو بچہ تھا، جب حادثہ ہوا اور بقول آپ کے قصور بھی عبداﷲ کا تھا تو آپ نے پولیس کو کیوں کال نہیں کیا، آپ نے اپنی گاڑی جائے حادثہ سے کسی settlement کے بغیر کیوںہٹائی اور اپنا کارڈ اسے کیوں دیا؟

… کیا آپ کی گاڑی کے آگے والی گاڑی نے ’’ انتہائی اچانک‘‘ بریک بھی لگائی تو آپ اپنی رفتار کے لحاظ سے مناسب فاصلے پر تھے…(گاڑی کی رفتار کے مطابق آپ جتنے کلومیٹر کی رفتار سے جا رہے ہوں اتنے گز کا فاصلہ آپ کا اگلی گاڑی سے ہونا چاہیے)۔

… دنیا بھر میں حادثات کی تحقیقات کے وقت ایک سادہ سا فارمولہ یہ ہوتا ہے کہ جو گاڑی بھی پیچھے سے آ کر ٹکر مارتی ہے اس کے ڈرائیور کا قصور گردانا جاتا ہے، وجہ چاہے جو بھی ہو۔

آج آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے ڈرائیور کی غلطی نہیں… میرے بیٹے کے پیچھے تو اللہ حافظ اور اس کے پیاروں کی دعائیں تھیں کہ وہ تھوڑی بہت ہلکی پھلکی چوٹوں کے علاوہ محفوظ رہا، اگر اسے اس سے زیادہ کچھ ہو جاتا تو! آپ نے تو اپنی پوزیشن اور رقم بچانے کے لیے صاف اس پر سارا الزام تھوپ دیا۔ آپ کے ڈرائیور کی غفلت یا تیز رفتاری سے ایک حادثہ ہوا، یعنی ایک جرم کا ارتکاب ہوا، آپ نے اپنی گاڑی ہٹا کر اس جرم کے سارے ثبوت مٹا ڈالے، اس کے بعد مسلسل اپنے موقف پر ڈٹے رہ کر آپ نے اس جرم کی اعانت کی… کیا آپ شریک جرم نہیں ٹھہرتے…

کاش آپ ایسا نہ کرتے، آپ اس وقت وہاں رکتے، قانونی چارہ جوئی کرتے، آپ جلدی میں تھے تو وہ بھی اپنی ملازمت پر اس روز نہ پہنچ سکا تھا …مجھے یقین ہے کہ اس وقت آپ نے اپنا دامن چھڑانے کو اسے اپنا کارڈ دے دیا تھا، کاش آپ اسے اپنا تعارف ہی نہ کرواتے نہ اسے اپنا تعارفی کارڈ دیتے … کم از کم اس کے ذہن میں آپ کا ذاتی منفی تاثر وہ ایک عظیم ادارے سے linkنہ کرتا!!!!!بہرحال میرا اب بھی یہ یقین ہے کہ کسی ایک فرد کی غلطی کو اجتماعیت کا رنگ دینا درست نہیں۔اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔