دوہری موت

ندیم جاوید عثمانی  ہفتہ 11 فروری 2017
اِرد گرد کے دو چار لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوا کہ اب یہ لوگ میرے مُردہ جسم کو بذریعہ جہاز پاکستان بھیج رہے ہیں، اگر میرے جسم میں جان ہوتی تو میں یہ سُن کر ہی خوف سے اُٹھ کر بیٹھ گیا ہوتا۔ فوٹو: فائل

اِرد گرد کے دو چار لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوا کہ اب یہ لوگ میرے مُردہ جسم کو بذریعہ جہاز پاکستان بھیج رہے ہیں، اگر میرے جسم میں جان ہوتی تو میں یہ سُن کر ہی خوف سے اُٹھ کر بیٹھ گیا ہوتا۔ فوٹو: فائل

رات کے 3 بج رہے تھے اور میری گاڑی گھر کی جانب رواں دواں تھی، میں اپنے بے سروپا خیالات کے ہمراہ اُکتاہٹ زدہ نظروں سے باہر ویران مناظر کو گھورتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ہر منظر قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے لیکن اگر یہی مناظر انسانی وجود سے محروم ہوں تو کیسے بے رنگ و پھیکے نظر آنے لگتے ہیں۔ یقیناً کائنات کی اسی بے رنگی کے خیال سے ہی حضرتِ انسان کے وجود کے ہونے کی ضرورت محسوس کی گئی ہوگی ورنہ ایک لمحے کو سوچیں کہ کیسا لگتا کہ اگر یہ بلند و بالا پہاڑوں کی ہیبت و بلندی انسانی قدموں تلے روندے جانے سے محروم رہ جاتی یا بھپرے ہوئے ان دریاؤں کی لہروں کا واسطہ اُن انا پرستوں سے نہیں پڑتا جو اُن کی طاقتور موجوں کو شکست دیتا ہوا ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جا پہنچے، تو بھلا وہ کسے اور کیسے بتاتی کہ اُس کے وجود کے اندر کیا فرحت پوشیدہ ہے اور نہ ہی آگ پر کبھی یہ بھید کُھل پاتا کہ اُس کے وجود نے اپنے اندر کیا کیا فتنے چُھپا رکھے ہیں نہ ہی آسمان سے ہونے والی برسات کو پتہ چلتا ہے کہ اُس کی ننھی ننھی بوندوں نے اپنے اندر زندگی اور موت دونوں چھُپا رکھی ہیں نہ کوئی مہتاب کی خوبصورتی پر قصیدے لکھتا اور نہ ہی کوئی سورج کی جُھلسا دینے والی حرارت کا شکوہ کرتا ہے۔ شے اپنے وجود کے ہمراہ یونہی بے مقصد و بے فیض پڑی ہوتی کہ ان سب کی اہمیت ان کے استعمال کے باعث ہی تو ہے اور انہیں استعمال کرنے والا کون ہے؟

یہی حضرتِ انسان جو ان تمام بنیادی ضروریات کی بذات خود ایک بنیادی ضرورت ہے، تو میرے لئے کیا یہ کم باعثِ فخر تھا کہ اگر یہ تمام نعمتیں میرے لئے ضروری ہیں تو اُس سے کہیں زیادہ میں اِن کے لئے ضروری ہوں اور یہ تمام تر کھیل اپنی ذات اور اُس ذات پر اعتماد سے منسلک ہے۔ پھر وہ کونسا محاذ ہے جو انسان فتح نہ کرپائے یا وہ کونسا خواب ہے جو انسان پورا نہ کر پائے؟ اور میں بھی اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش، ایک بہترین فلم ڈائریکٹر بننے کے خواب کو پورا کرکے گھر واپس لوٹ رہا تھا اور سال کے بہترین فلم ڈائریکٹر کی ایوارڈ ٹرافی میرے اِس خواب کی تعبیر کی صورت میرے ہاتھوں میں موجود تھی۔

میرے اِن خیالات کا سلسلہ ڈرائیور کی آواز پر اُس وقت ٹوٹا جب اُس نے گھر پہنچنے کا عندیہ دیا۔ میں کسی بھی فلمی تقریب میں اپنی فیملی کو کبھی ہمراہ نہیں رکھتا تھا، اِس لئے میں نے اپنی بیوی کا سوچا کہ سو نہ گئی ہو کیونکہ تقریباً صبح ہونے والی تھی، لیکن گھر میں پہنچتے ہی میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا، میری بیوی اور میری بیٹی میرے انتظار میں جاگ رہے تھے، جن کو میں نے فون پر ایوارڈ ملتے ہی بتادیا تھا۔ مجھ سے زیادہ وہ دونوں خوش دکھائی دے رہے تھے اور کیوں نہ ہوتے کہ آج کا ایوارڈ جیت کر میں نے گزشتہ 2 سالوں سے بہترین ڈائریکٹر کا ایوارڈ جیتنے کی روایت کو برقرار جو رکھا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ میری بیوی نے مجھے چھیڑتے ہوئے کہا، پہلا ایوارڈ جیتنے پر آپ کی خوشی اور چہرہ دیکھنے والا تھا۔ دوسرے ایوارڈ پر وہ خوشی ذرا کم تھی لیکن آج اِس تیسرے ایوارڈ پر تو آپ کے چہرے سے وہ خوشی ہی غائب ہے، میں نے مسکراتے ہوئے کہا،

جیت ہمیشہ غیر متوقع ہی اچھی لگتی ہے کہ آپ ہار رہے ہوں اور فتح کا سہرا آپ کے سر پر سج جائے لیکن کبھی کبھی مستقل فتوحات بھی لڑنے کے جوش کو ختم کرنے کا باعث بن جاتی ہیں،

بابا تو کیا مطلب؟ آپ چوتھی بار ایوارڈ جیتنے کی اِس روایت کو برقرار نہیں رکھیں گے؟ میں نے شانے اُچکاتے ہوئے کہا کہ بیٹا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، میں تو ابھی فقط اتنا جانتا ہوں کہ اب مجھے سونا ہے اور مسکراتے ہوئے اپنے بیڈ روم کی طرف قدم بڑھا دئیے۔

جہاز اپنی منزلِ مقصود پر رواں دواں تھا۔ میرے کام اور شہرت کے باعث مجھے پڑوسی ملک کے ایک مشہور فلم ڈائریکٹر کی طرف سے مشترکہ فلمسازی کی پیشکش ہوئی تھی، لہذا میرا یہ سفر اسی ملاقات کے حوالے سے تھا اور میں جہاز کی نشست سے سر لگائے، آنکھیں موندھے اُسی فلم کے حوالے سے اپنے دماغ میں تانے بانے بننے میں لگا ہوا تھا کہ اچانک جہاز چند ہچکولے کھا کر سنبھل گیا لیکن یہ سنبھلنا عارضی تھا کیونکہ کچھ ہی دیر بعد جہاز کے اسپیکرز پر فنی خرابی کے باعث جہاز کی ہنگامی لینڈنگ کا اعلان ہونے لگا اور جہاز کے ہچکولوں کے بعد جن چہروں پر ابھی سکون آیا ہی تھا، وہ واپس گھبراہٹ زدہ دکھائی دینے لگے۔ ابھی اعلان ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ جہاز واپس جھٹکے لینے لگا اور اِس بار اُن جھٹکوں میں پہلے سے زیادہ تیزی تھی۔ میری ایمانی حالت کوئی اتنی مضبوط نہیں تھی کہ ہنستے ہوئے موت کو خوش آمدید کہتا لیکن اب سوائے کلمہ پڑھنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا اور کلمے کی طوالت کا مجھے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا اور یہ کیفیت زیادہ دیر قائم نہیں رہی ایک زوردار دھماکے کے ساتھ سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔

میری آنکھ کُھلی تو مجھے اپنے ماتھے پر شدید ٹھنڈک کا احساس ہوا، ماتھے پر ہاتھ پھیرنے کی صورت پسینے نے اپنی موجودگی کی شہادت میرے ہتھیلی پر ثبت کردی، اُف! یہ خواب۔۔۔ میرے مُنہ سے ایک گرم سانس خارج ہوئی کیونکہ جسم تو میرا پورا ٹھنڈا پڑا تھا۔ اپنے زندہ ہونے کا یقین ہونے پر میں نے سُکھ کا سانس لیا اور دوبارہ سوگیا۔ صبح ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ انڈیا سے میرے ایک دوست جو کہ خود ایک بہترین فلم ڈائریکٹر تھا، سدھارتھ مکرجی کا فون آگیا۔ سدھارتھ سے میری دوستی ایک فلمی تقریب میں ہی ہوئی تھی جس میں پڑوسی ملک سے بھی کچھ ڈائریکٹرز اور اداکاروں کو مدعو کیا ہوا تھا۔ اُس ملاقات کے بعد ہماری دوستی اتنی بڑھ گئی کہ اب جب کبھی سدھارتھ کا کراچی آنا ہوتا تو اُس کا قیام میرے ہی گھر ہوتا تھا۔ فون اُٹھانے پر سب سے پہلے تو اُس نے مجھے ایوارڈ جیتنے کی مبارکباد دی یعنی اُس تک اِس جیت کی خبر پہنچ چکی تھی اور وہ اب بضد تھا کہ میں ایک چکر انڈیا کا لگاؤں تاکہ ہم دونوں مل کر فلم کے حوالے سے کوئی مشترکہ کام کریں۔ میں اُسے اپنے خوف سے پہلے بھی کئی بار آگاہ کرچکا تھا مگر اِس بار اُس کی ضد شدت اختیار کرچکی تھی وہ میرے جہاز میں بیٹھنے کے خوف سے واقف تھا، لہذا اُس نے مجھے ٹرین سے انڈیا کے لئے سفر کرنے کا مشورہ دیا اور پھر کافی دیر بحث کے بعد میں ٹرین کے ذریعے سفر پر آمادگی ظاہر کرچکا تھا۔

انڈیا آئے ہوئے آج مجھے چوتھا روز تھا۔ اِن چار دنوں میں نجانے کتنی مشہور فلمی شخصیات سے مل چکا تھا اور اب مجھے افسوس ہورہا تھا کہ یوں ٹرین سے سفر کرنے کا خیال مجھے پہلے کیوں نہیں آیا۔ سدھارتھ اور میں ایک فلم کا منصوبہ بنا چُکے تھے اور فلم کے حوالے سے جو اسکرپٹ اُس نے مجھے دکھایا تھا وہ بھی بہت شاندار تھا۔ سدھارتھ کے ہمراہ ہم اُس جانب سفر کررہے تھے جہاں فلم کی عکسبندی کے حوالے سے جگہ پسند کرنا تھی۔ میری نظریں باہر گزرتے ہوئے مناظر پر لگی ہوئی تھیں۔ اِس سفر کی شروعات کے کچھ دیر بعد ہی مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ ہمارا واسطہ ایک دُشوار سفر سے ہونے جارہا ہے، گو چاروں جانب خوبصورت مناظر اور ہریالی تھی مگر سڑک کے دونوں جانب جگہ جگہ گہری کھائیاں تھیں۔ میرے ہونٹوں پر یہ سوچ کر ایک مسکان کھل رہی تھی کہ کم از کم دشوار سفر ہی سہی، میں جہاز کے سفر سے بچ گیا، ورنہ پتہ نہیں میرا وہ خواب کیا رنگ لاتا۔ ممکن ہے اب تک میرے چیتھڑے فضاء میں بکھر بھی چکے ہوتے اس خیال سے ہی مجھے ایک جُھرجُھری آگئی۔ ابھی اِس خوف کی کیفیت سے نکلا بھی نہیں تھا کہ شاید ہماری گاڑی کو کسی بڑے ٹرک نے پیچھے سے ٹکر ماردی تھی، سدھارتھ کا ڈرائیور گاڑی پر قابو نہیں رکھ سکا اور وہ کھائی کی جانب لُڑکھنے لگی اور ہم تینوں کو اب اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔

یقین مانیں اِس حالت سے گزرتے ہوئے میرے اندر برسوں سے چھُپا موت کا خوف ختم ہوچکا تھا اور کھائی کی گہرائی میں اُترتے ہوئے بھی میرے لبوں پر مسکان تھی، اپنے خوف کو شکت دینے کی، اُس خواب کو شکست دینے کی جس نے بچپن سے مجھے اِس خوف میں جکڑ رکھا کہ میری موت جہاز کے حادثے میں ہوگی اور اب کم از کم یہ حادثہ ثابت کرچکا تھا کہ میں تمام عمر ایک جھوٹے خواب کے خوف میں مبتلا رہا۔

چند لمحوں بعد ہی کھائی میں میری، سدھارتھ کی اور اُس کے ڈرائیور کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں اور پھر بلآخر اِس کھائی سے ہم تینوں کی لاشیں نکال لی گئیں۔ سدھارتھ اور اُس کے ڈرائیور کی لاشیں تو اُسی وقت اُن کے گھروں پر روانہ کردی گئیں۔ بدبختوں نے بعض قوانین کے تحت اور جانچ پڑتال کے لئے میری لاش کو ایک اسپتال کے سرد خانے میں رکھوادیا۔ دو دن بعد میری لاش اُس سرد خانے سے باہر نکالی گئی۔ اِرد گرد کے دو چار لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوا کہ اب یہ لوگ میرے مُردہ جسم کو بذریعہ جہاز پاکستان بھیج رہے ہیں، اگر میرے جسم میں جان ہوتی تو میں یہ سُن کر ہی خوف سے اُٹھ کر بیٹھ گیا ہوتا۔ مگر وائے رے مجبوری، اُسی وقت مجھے خیال آیا کہ میری موت تو ہوچکی ہے۔ اب جہاز کے سفر کا کیا خوف؟ میرے ہونٹ حرکت کرسکتے تو اس وقت میرا قہقہہ اسپتال کی دیواریں ہِلا دیتا۔

کچھ گھنٹوں بعد میرے مردہ جسم کو تابوت کی صورت جہاز میں رکھوا دیا گیا تھا اور اب جہاز پاکستان کی جانب پرواز کررہا تھا، مگر یہ کیا؟ ابھی جہاز کی پرواز کو کچھ دیر ہی گزری ہوگی کہ جہاز میں عجیب سی ایک گڑگڑاہٹ ہونا شروع ہوگئی، اُس کے چند سیکنڈ بعد ہی جہاز میں کسی فنی خرابی کا اعلان کیا جانے لگا اور ابھی اعلان ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ جہاز کے ہچکولوں میں شدت آچکی تھی، اُف! میرے خدا یہ دوہری موت کی اذیت۔۔۔ بھلا ایک انسان کو دو بار موت کیسے آسکتی ہے؟

مگر دو بار کیوں؟ میری تو یہ پہلی ہی موت تھی، وہ کار کا حادثہ، پھر کھائی میں گر کر مرنا، وہ سب تو چند کڑیاں تھیں وہ کڑیاں جنہیں ایک خواب کی تعبیر پورا کرنے میں حصہ لے کر میرے وجود کو جہاز تک پہنچانا تھا، تاکہ اُس منظر نامے میں حقیقت کا رنگ بھرا جاسکے جو مجھے برسوں سے دکھایا جارہا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔