کوئلے سے توانائی۔۔۔۔ ایک کڑوا گھونٹ

شبینہ فراز  اتوار 12 فروری 2017
کہا جاتا ہے کہ کالا سونا تھر واسیو کی قسمت بدل سکتا ہے۔ فوٹو فائل

کہا جاتا ہے کہ کالا سونا تھر واسیو کی قسمت بدل سکتا ہے۔ فوٹو فائل

جنوری کی 28تاریخ کو اسلام کوٹ پریس کلب تھرپارکر کے باہر سڑک پر متاثرین کو بیٹھے پورے 100 دن ہوچکے تھے۔ مردوں کے ساتھ خواتین بھی موجود تھیں، یہ سب مظاہرین گورانو ڈیم کی تعمیر کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کررہے تھے، جس میں کوئلہ نکالنے کے لیے زیرزمین نکلنے والا پانی ذخیرہ کیا جائے گا۔ ان میں سے ایک خاتون سیتا نے بتایا کہ یہ لوگ یہاں تین ماہ سے زاید عرصے سے بیٹھے ہوئے ہیں اور آج پورے سو دن ہوچکے ہیں۔ ان سب متاثرین کا مطالبہ ہے کہ نمکین پانی کے ذخیرہ بنانے کے لیے انہیں تباہ کیا جارہا ہے۔ اس ڈیم کی جگہ تبدیل کی جائے۔

یہ ڈیم سب گورانو گاؤں کے لوگ ہیں جو مذکورہ ڈیم سے1.5 کلومیٹر دور ہے۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ زہریلا پانی زیرزمین پانی کے ذخائر کو خراب کردے گا اور زرعی زمینوں کو بنجر اور ویران کردے گا۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہماری بربادی کی قیمت پر ترقی نہیں ہونی چاہیے۔

سیتا کے نو بچے ہیں اور ان سب کا گزر بسر کھیتی باڑی اور مویشی بانی پر ہے۔ اس کا عمر رسیدہ شوہر اب کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔ سیتا نے کہا کہ ہمیں زبردستی گھر اور زمینیں چھوڑنے کو کہا جارہا ہے، لیکن ہم کسی صورت یہاں سے نہیں جائیں گے۔

اسلام کوٹ پریس کلب میں ہماری ملاقات مقامی صحافیوں غازی بجیر اور اشوک شرما سے بھی ہوئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم غیرجانب دارانہ رپورٹنگ کردیتے ہیں۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ ہے نہیں جتنا بنا دیا گیا ہے۔ یہاں ہماری ملاقات ممتاز علی سے بھی ہوئی جو عام آدمی اتحاد کی جانب سے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے گھوٹکی سے آئے ہوئے تھے۔ ان کا بھی کہنا یہی تھا کہ متاثرین کی بات سنی جائے۔

گورانو ڈیم کی سائٹ پر ہماری ملاقات لیلارام سے ہوئی جو وکیل ہیں اور ان کا گورانو گاؤں سے تعلق ہے۔ یہی احتجاجی مظاہروں کی سربراہی کرتے ہیں۔ لیلا رام کا کہنا ہے کہ ہم ترقی کو خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن ہماری بات سنی جائے کہ ہم کیوں چیخ رہے ہیں۔ ہم معاملات کو سائنس سے زیادہ سمجھتے ہیں، ہمارے پاس صدیوں کی معلومات ہیں۔ اگر صرف دو تین سال کے لیے ڈیم بنایا جارہا ہے تو زمین کیوں خریدی جارہی ہے لیز پر کیوں نہیں لی جارہی؟ ہماری زرعی زمینیں اس ڈیم میں آرہی ہیں۔ ہم غریب لوگ کہاں جائیں۔ ہمیں مال مویشی چَرانے کے لیے دوسری جگہ گاؤ چر (چراہ گاہ) دیا جارہا ہے، لیکن ہم زرعی زمینوں کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتے ۔

تھر میں زیرزمین کوئلے کے ذخائر دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں اور اب یہاں سی پیک پروگرام کے زیرانتظام کوئلے سے بجلی بنانے کا کام شروع ہوچکا ہے۔ بلاک نمبر2  ایک کمپنی کو الاٹ کیا گیا ہے، جسے معاہدے کے مطابق جون 2019 تک بجلی بنانی شروع کردینی ہے۔ یہ بلاک نمبر دو 100اسکوائر کلومیٹر کا ہے۔ اسی رقبے کے مزید 13 بلاکوں پر بھی کام ہوگا۔

اس پروجیکٹ پر کام کرنے والی کمپنی کے سی ای او شمس الدین شیخ کے مطابق اللہ تعالی نے تھر کو کوئلے کی بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے۔ ان کے مطابق ایران اور سعودی عرب کے تیل کے ذخائر جتنی توانائی پیدا کرسکتے ہیں اس سے زیادہ توانائی تھر کے کوئلے سے پیدا ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں پاور پلانٹ کے لیے اچھا ماحول ہے۔ پہلی بار کان کنی ہورہی ہے اور اس کے لیے اوپن پٹ مائننگ ہوگی۔ کان کنی دنیا بھر میں عموماً حکومتیں کرتی ہیں، لیکن یہ پہلی اور انفرادی مثال ہے کہ ایک پرائیویٹ کمپنی یہ کام کررہی ہے۔

کمپنی کے حکام سے جب گورانو ڈیم اور ان کے متاثرین کی بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم صرف دو سال کے لیے یہ ذخیرہ گاہ کا پانی استعمال کریں گے اور چند سال بعد ڈیم کا پانی آبی بخارات کی صورت میں اُڑ جائے گا۔ یہ پانی زہریلا نہیں بل کہ نمکین ہے اور اس کی آلودگی صرف 5000ppm ہے، جسے ہر گز زہریلا نہیں کہا جاسکتا۔ دو سال کے بعد LBOD کا پانی پاور پلانٹ کو چلانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تھر کی بجلی کو مٹیاری سے منسلک کیا جائے گا، جہاں سے یہ نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے گی۔

بجلی کی قیمت کے حوالے سے شمس الدین شیخ کا کہنا ہے کہ کسی بھی دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت سے یہ کم قیمت ہوگی۔ اس منصوبے پر 70 فی صد پاکستانی کام کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کالا سونا تھر واسیو کی قسمت بدل سکتا ہے۔ پاکستان کے ارضیاتی مطالعے کے مطابق تھر میں کوئلے کے ذخائر تقریباً 175 بلین ٹن ہیں، جو اسے دنیا بھر میں سب سے بڑا بھورے کوئلے کا ذخیرہ بناتے ہیں۔ پاکستان موجودہ دور میں سنگین توانائی کے بحران سے دوچار ہے۔ توانائی کا خسارہ6000 میگاواٹ سے تجاوز کرگیا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ سے توانائی کے یک دم بڑھتے تقاضے اور شدید صنعت کاری نے بحران میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے صحرائے تھر میں دنیا کے سب سے بڑے غیرترقی یافتہ کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان میں کوئلے کے سالانہ تقاضوں کی فراہمی بڑھتی ہے، اسی لیے پاکستان اپنی طلب کو پورا کرنے کے لیے درآمدشدہ کوئلے پر انحصار کرتا ہے۔ خاص طور پر صنعتی استعمال کے لیے۔ تھر میں کوئلے کے ذخائر کی ترقی کا اصل مقصد ملک کے کوئلے کے وسائل سے بجلی پیدا کرنا ہے، تاکہ ملک کا درآمدشدہ کوئلے پر انحصار کم کیا جائے اور بجلی کی فراہمی اور تقاضوں کے درمیان فاصلے کو ختم کیا جائے۔

تھر کول پروجیکٹ پر کام کرنے والی کمپنی نے پاکستان بھر میں توانائی کی کمی سے نمٹنے کے لیے تھر کول فیلڈ، بلاک ٹْو سے کوئلہ حاصل کرنے کے لیے کان کنی کے آپریشنز پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد تین حصوں میں کیا جائے گا۔ پروجیکٹ کا پہلا حصہ ابھی رواں ہے، جس میں 330 میگاواٹ کے دو بڑے نازک پلانٹس تعمیر کیے جائیں گے۔

تھرپارکر پاکستان کا سب سے بڑا صحرائی قطعۂ زمین ہے۔ تھرپارکر کا ریگستان دنیا بھر کے دوسرے صحراؤں کی طرح خشک اور بنجر نہیں، اس کے مخصوص پودے مون سون کے موسم میں پھلتے پھولتے ہیں اور ریگستانی ریت کے ٹیلوں کو سرسبز وادی میں بدل دیتے ہیں۔ یہ ضلع صوبائی سماجی اقتصادی انڈیکس میں سب سے نچلے درجے پر آتا ہے، اور قومی موازنے میں بتیسویں درجے پر۔تھر میں کوئلے کے تیرہ بلاک ہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو تجربے کے لیے دیا گیا جب کہ دوسرا بلاک نمبر 2 مذکورہ کمپنی کے پاس ہے۔

بلاک نمبر 2 میں اس وقت کوئلے تک رسائی کے لیے تیزی کے ساتھ کھدائی کا کام جاری ہے اور اس تیزی کی وجہ جون 2019 تک اس منصوبے سے بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کا ہدف ہے۔ یہ منصوبہ حکومت سندھ اور مذکورہ کمپنی کا مشترکہ ہے لیکن اس میں فیصلہ سازی کا اختیار کمپنی کو حاصل ہے۔

کمپنی کے سی او اے شمس الدین شیخ کے مطابق ہمارے دائرہ کار کا رقبہ یعنی بلاک 2 کوئلے کے ذخائر کا صرف 1 فی صد ہے اور بلاک دو کا کوئلہ پچاس سال تک 5000 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے۔ 330 میگاواٹ کے دو پلانٹ ابتدائی طور پر اپنا کام کریں گے۔ پھر بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ڈبل ہوتی چلی جائے گی۔ 2019 میں کان کنی مکمل کرلیں گے۔ پھر ہر سال 3.8 ملین ٹن کوئلہ نکالیں گے۔ انشاء اللہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات یہیں سے پوری ہوجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کوئلے سے نہیں بل کہ پرانے پاور پلانٹ سے ہٹ رہی ہے۔ ہم جدید ترین پاور پلانٹ لگا رہے ہیں۔ 3 جون 2019 کو رات 12 تک کام مکمل کرنا ہے۔ اسی وقت بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی اور بجلی قومی سسٹم یعنی نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے گی۔

گرین انرجی کے حوالے سے شمس الدین شیخ کا کہنا ہے کہ گرین انرجی بہت اچھی ہے لیکن آپ کو اپنا بیس لوڈ دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ گرین انرجی سال کے 365 دن میسر نہیں ہوتی ہے۔ سارا سال ہائیڈرو بھی نہیں چلتا گرمیوں میں پانی کم ہوتا ہے، تو پانی سے بجلی نہیں بن سکتی۔ دنیا بھر میں بیس لوڈ کے لیے فوسل فیول کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم بھی اپنی 67 فی صد بجلی فوسل فیول پر بناتے ہیں اور اس کے لیے فیول امپورٹ کرتے ہیں جو بہت منہگا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اس کے لیے صرف کوئلہ ہی میسر ہے۔ دنیا کوئلے سے نہیں پرانے پلانٹ سے ہٹ رہی ہے۔ چین اور انڈیا پرانے پلانٹ بند کررہے ہیں۔ دوسری طرف جاپان کو دیکھیے۔ وہ دو لاکھ میگاواٹ کوئلے سے پیدا کررہے ہیں۔ ہمارے بوائلر سب سے جدید GE کمپنی کے ہیں۔

ابوالفضل رضوی جو ماحولیاتی انجینئر ہیں، نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ کوئلے کی کئی اقسام ہیں اور سب سے خراب معیار کا کوئلہ لیگنائٹ سمجھا جاتا ہے۔ انتھراسائٹ سب سے اچھا کوئلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کان کنی کے عمل کے دوران جو راکھ نکلے گی اسے الگ ذخیرہ کیا جائے گا اور اوپری سطح کی زرخیز مٹی کو الگ رکھا جائے گا۔ جب گڑھے سے سارا کوئلہ نکل جائے گا تو پھر یہ مٹی اسی گڑھے میں دوبارہ بھر دی جائے گی۔

کوئلے تک رسائی سے قبل پانی کے تین سطحوں سے گزرنا ہے، تیسری سطح ہی سب سے بڑا چیلینج ہے۔ یہاں پانی کسی دریا کے بہاؤ کی صورت موجود ہے اور اس سے گزر کر ہی کوئلہ نکالا جاسکتا ہے۔ تینوں سطحوں کا جو پانی نکلے گا اس کی TDS 5000 ہوگی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے جرمن ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ متعلقہ حکام کے مطابق یہ پانی 35 کیوسکس یومیہ خارج کیا جائے گا۔ اس پانی کا پہلے نمکین پانی کی جھیلوں یا لون کھان میں نکاسی کا فیصلہ ہوا تھا، لیکن یہ رن آف کچھ بین الاقوامی اہمیت کی حامل رامسر سائٹ ہونے کی وجہ سے وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے این او سی نہیں دی۔

رامسر سائٹ یا رامسر آب گاہیں عالمی طور پر تحفظ یافتہ ہیں اور وہاں موجود تمام حیاتی انواع بین الاقوامی تحفظ کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ چوںکہ یہ علاقہ بھارت کی سرحد کے ساتھ ہے، اس لیے یہاں پانی ذخیرہ کرنے کے فیصلے کو منسوخ کردیا گیا۔ اس کے بعد ماہرین کی نگاہ انتخاب گورانو گاؤں کے قریب پیالہ نما وادی پر پڑی۔ یہ وادی قدرتی طور پر پیالہ نما ہے اس کے اطراف ریت کے ٹیلے اور پہاڑ ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ گورانو ڈیم بنانے کے لیے صرف 1400 ایکڑ زمین استعمال کی جارہی ہے، جب کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ 2700 ایکڑ زمین ہے۔ گورانو ڈیم جس کا دورہ ہم نے خود کیا، اس کے اندر کوئی گاؤں نہیں آتا ہے اور قریب ترین گورانو گاؤں ڈیڑھ کلو میٹر دور ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ گورانو کے اندر چند میٹھے پانی کے کنوئیں ہیں جو ختم ہوجائیں گے۔ مقامی افراد کی صرف 500 ایکڑ زمین ہے جو زیرآب آئے گی، بقیہ زمین حکومت سندھ کی ہے۔ اس پانچ سو ایکڑ میں سے بھی بہت سے لوگوں نے اپنی زمینوں اور گھر کی اراضی کے پیسے لے لیے ہیں۔ ابوالفضل کا کہنا ہے کہ گورانو کے باہر کے کنوؤں کا پانی خراب ہونے میں 14سال لگیں گے۔ اگر پانی مسلسل ڈالا جائے تب خرابی پیدا ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پانی صرف دو سال استعمال ہوگا۔ پھر چند سالوں میں یہ آبی بخارات بن کر اڑ جائے گا۔

مقامی آبادی کے تحفظات کے حوالے سے کمپنی کے حکام کا کہنا ہے کہ بہت ہی کم تعداد میں لوگوں کے گھر اور زمینیں متاثر ہورہی ہیں، جب کہ دوسری طرف ہم یہاں اسکول بنا رہے ہیں، انڈس اسپتال سے مل کر اسپتال بنا رہے ہیں، مقامی افراد کو زیادہ سے زیادہ نوکریاں دی جارہی ہیں۔ ان کے لیے مختلف اقسام کے تربیتی کورس منعقد کیے جارہے ہیں، کاروبار کے حوالے سے بھی تربیت دی جارہی ہے، جو لوگ بے گھر ہورہے ہیں انہیں گھر دیے جارہے ہیں، ہر شادی شدہ جوڑے کو 1200 مربع گز پر گھر تعمیر کرکے دیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ماڈل ہاؤس تعمیر ہوچکا ہے۔ زرعی زمین کے بدلے زمین دی جارہی ہے۔

ہوائی آلودگی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ پاور پلانٹ کی چمنی دنیا بھر میں 110میٹر کی ہوتی ہے ہم نے اسے اور زیادہ بلند کردیا ہے، تاکہ آلودگی زمین کے قریب نہ ہو ۔

یہ حقیقت ہے کہ چمنی چاہے جتنی بلند ہو آلودگی تو ہر صورت میں ہوگی اور حکومت کے فیصلوں کے مطابق کوئلے سے توانائی کے منصوبوں پر ہر صورت عمل درآمد ہوگا، لہٰذا اب بہتری کی صرف یہی صورت ہوسکتی ہے کہ احتیاطی تدابیر بہتر انداز میں اختیار کی جائیں ۔

اس وقت تک صرف ایک کمپنی یہاں کام کررہی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کام کے معیارات بہت بہتر ہیں ان کا CSR (سماجی خدمات) کا شعبہ بھی مثالی ہے، لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سی دیگر کمپنیاں یہاں آئیں گی لہذا سب کی نظریں اسی کمپنی پر جمی ہیں۔ وہ اس علاقے میں اپنے کام سے جو مثال قائم کردے گی دوسرے بھی اسی راہ پر چلیں گے۔ کمپنیاں تھر کو صرف دودھ دینے والی گائے نہ سمجھیں۔

ایک اہم مسئلہ متاثرین کا احتجاج ہے، جسے ہر صورت میں اہمیت دینی چاہیے۔ تھر سے نکلنے والے کوئلے کے مالک یہی تھر کے غریب لوگ ہیں، ان کے تحفظات ہر صورت میں دور ہونے چاہییں۔ اس وقت وزیراعلیٰ سندھ نے اس تنازعے کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی ہے جو شمس الحق میمن، آصف حیدر شاہ، فضل الحق اور احسن صدیقی پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ مقامی افراد نے کمپنی پر سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی کیا ہوا ہے۔ معاملہ اب عدالت میں ہے اور کمیٹی بھی موجود ہے، ہمارا صرف اتنا ہی کہنا ہے متاثرین کو سنا جائے اور ماحولیات کا ہر ممکن خیال رکھا جائے تو شاید نقصان کم سے کم ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔