ریڈیو کل آج اور کل

محمد عاطف شیخ  اتوار 12 فروری 2017
1926 ء میں ریڈیو اور زیادہ گھریلو زندگی کا حصہ بن گیا جب ریڈیو سننے کے لئے ہیڈ فون کی قید کو سپیکر نے ختم کردیا۔  فوٹو : فائل

1926 ء میں ریڈیو اور زیادہ گھریلو زندگی کا حصہ بن گیا جب ریڈیو سننے کے لئے ہیڈ فون کی قید کو سپیکر نے ختم کردیا۔ فوٹو : فائل

تاریخ ہے 13 اگست1947 ء اور رات کے12 بجنے کو ہیں۔ ہر کان منتظر ہے ایک اعلان کا ہر سماعت بے قرار ہے ایک صوت کی۔

“At the stoke of twelve midnight the independent sovereign state of Pakistan will come into existence this is Pakistan Broadcasting Service, Lahore. We now bring you a special programme on the dawn of Pakistan Independence”

’’ السلام علیکم۔ پاکستان براڈکاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں 13 اور 14 اگست سن 47 عیسوی کی درمیانی رات12 بجے ہیں طلوع صبح آزادی ۔۔۔۔ ‘‘

ظہور آذر اور مصطفی علی ہمدانی کی آوازوں میں پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے لاہور سٹیشن سے انگلش اور اردو میں نشر ہونے والے آزادی پاکستان کے یہ اعلانات ملک میں ریڈیو کے باقاعدہ آغاز کی نوید بنے۔ اسی طرح پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے پشاور سٹیشن سے آفتاب احمد خان اور ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے اے ایف کلیم اللہ کے پاکستان کی آزادی کے اعلانات نے ریڈیو کو ملکی شناخت عطا کی۔ پشاور، لاہور اور ڈھاکہ میں باقاعدہ ریڈیو سٹیشنز اگرچہ آزادی سے قبل ہی قائم ہو چکے تھے یعنی جنوری 1935 ء کو پشاور میں اُس وقت کی صوبائی حکومت نے ریڈیو سٹیشن قائم کرلیا تھا۔

اس کے علاوہ لاہور میںنشریات کی ابتداء ینگ مینز کرسچن ایسوسی ایشن YMCA) (کے تحت 1928 میں ہوئی جبکہ سرکاری ریڈیو سٹیشن نے لاہور میں دسمبر 1937 سے اپنی نشریات کا آغاز کیا۔اور دسمبر1939 میں ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن نے کام شروع کردیا تھا۔ لیکن یہ ریڈیو سٹیشنزآزادی سے قبل آل انڈیا ریڈیو کی شناخت کے ساتھ اپنی نشریات پیش کر رہے تھے۔آزادی وطن کے ساتھ ہی ان تینوں ریڈیو سٹیشنز نے پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے نمائندہ کے طور پر Onair ہونا شروع کر دیا۔

برصغیر پاک و ہند میں ریڈیو کی تاریخ9 عشروں پر محیط ہے یہاں ریڈیو کی ابتداء نجی طور پر قائم ریڈیو کلبس کے تحت ہوئی۔ ایک انڈین مصنف Kumar J Keval اپنی تصنیف’’ ماس کمیونیکیشن ان انڈیا ‘‘ میں رقم طراز ہیںکہ برصغیر میں سب سے پہلی ریڈیو براڈ کاسٹ ٹائمز آف انڈیا کی چھت سے20 اگست1921 ء کو کی گئی۔ اس کے بعد نومبر1923ء میں ریڈیو کلب کلکتہ نے اپنی نشریات کا آغاز کیا اور16 مئی1924 ء کو ریڈیو کلب مدراس نے ریڈیو نشریات پیش کرنا شروع کیں۔ جبکہ برصغیر میں پہلے ریڈیو سٹیشن کا قیام ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق 23 مارچ1927 ء کو ہوا جب انڈین براڈ کاسٹ کمپنی نامی ایک نجی ادارے نے بمبئی میں ریڈیو سٹیشن قائم کیا۔ اپریل1930 ء میں براڈ کاسٹنگ کو حکومتی تحویل میں لیتے ہوئے اسے انڈین اسٹیٹ براڈکاسٹنگ سروس کا نام دیا گیا جسے 8 جون1936 ء کو آل انڈیا ریڈیو کے نام سے بدل دیا گیا۔ بر صغیر میں ریڈیو کا آغاز برطانوی راج کے دوران ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب ریڈیو دنیا بھر میں اپنے ارتقاء کی منازل تیزی سے طے کر رہا تھا اور حکومتیں اس کا بھرپور استعمال اندرونِ اور بیرونِ ملک پروپیگنڈا اور پروپیگنڈے کے دفاع کے لئے کر رہی تھںو۔

ریڈیو کی ایجاد سے ہی پروپیگنڈا اس کی ترقی کا ایک اہم محرک رہا ہے۔کیونکہ پہلی الیکٹرانک ابلاغی ٹیکنالوجی ٹیلی گراف کی ایجاد نے فاصلوں کو تو بے معنی کردیا اور فوری پیغام رسانی کی سہولت کی ابتداء کی لیکن یہ ٹیکنالوجی ایک مخصوص مقام سے دوسرے مخصوص مقام تک رابطہ مہیا کرتی تھی۔ اس کے بعد ٹیلی فون نے ایک فرد سے دوسرے فرد تک رابطے کی سہولت مہیا کی جب کہ ریڈیو کی ایجاد نے ( جسے ابتداء میں وائرلس کہا جاتا تھا) ابلاغ عام کی سہولت فراہم کی جو اس سے پہلے صرف پرنٹنگ پریس کے پاس تھی۔ ریڈیو کی ایجاد کو کسی فرد واحد کی مکمل کاوش کا نتیجہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ مختلف ممالک کی شخصیات کی کوششوں کا مجموعہ ہے۔

Julia A. Spiker نامی محققہ فرانس سے شائع ہونے والے مجلہ ’’ جرنلزم اینڈ کمیونیکیشن والیم 1 ‘‘ میں چھپنے والے اپنے تحقیقی مقالہ میں اس بارے میں لکھتی ہیں۔ ’’ ریڈیو ٹیکنالوجی کا آغاز 1864 ء میں ہوا جب ایک اسکاٹش ریاضی دان اور ماہر طبیعات James Clerk Maxwell نے یہ تھیوری پیش کی کہ جب برقی رو کسی تار سے گزرتی ہے تو خاص حالات میں اس سے نظر نہ آنے والی لہریں نکلتی ہیں۔ اس تھیوری کی ایک نوجوان جرمن سائنسدان Heinrich Hertz نے 1887 ء اور1888 ء میں توثیق کی۔ روسی سائنسدان پروفیسرPopov نے1895ء کے لگ بھگ وائرلس ٹرانسمیشن کے تجربات کئے۔

اطالوی سائنسدان Guglielmo Marconi نے 1895ء سے 1899 ء کے دوران اپنی ریڈیو ٹیلی گرافی تجربات کے ذریعے وائرلس سگنلز کی ٹرانسمیشن کے کامیاب تجربات کئے۔ مارکونی کی پہلی وائرلس ٹرانسمیشن دو میل کے فاصلہ پر محیط تھی جو اُنھوں نے اپنے والد کی اٹلی میں موجود جاگیر پر کی۔اور پھر یہ آٹھ میل یا اس سے زائد فاصلے کے درمیان کی گئی۔ اُس کے بعد انگلش چینل اور پھر بحر اوقیانوس کے پار سگنلز بھیجے گئے۔ جس میں کینیڈا کے علاقے نیو فاؤنڈ لینڈ سے برطانیہ انگلش کے حرف ایس کو مارس کوڈ کی صورت میں بھیجا گیا‘‘۔

ان ابتدائی تجربات کے بعد 24 دسمبر1906ء کی رات 9 بجے پہلی بار انسانی آواز اور موسیقی پر مبنی ریڈیو ٹرانسمیشن کی گئی۔ اس ٹرانسمیشن کا اعزازReginald A Fessenden کو حاصل ہے۔ جنہوں نے امریکن اسٹیٹMassachusetts سے کرسمس کے حوالے سے نشریات پیش کی۔ اور یوں ریڈیو کے باقاعدہ ابلاغ عام کے لئے استعمال کا آغاز ہوا۔ ریڈیو لوگوں کے نظریات، خیالات، عقائد اور رویہ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور طاقت کے ساتھ سامنے آیا تو مغرب میں اس امر کو محسوس کیا جانے لگا کہ اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے اگر ریڈیو کو ترقی دی جائے اور اس کو کنٹرول کیا جائے تو اس ایجاد سے بھرپور فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس خیال نے دو طرح کی براڈکاسٹنگ کی داغ بیل ڈالی۔

امریکہ میں 1927ء کے ریڈیو ایکٹ نے اسے ایک کمرشل انٹرپرائز کے طور پر ابھارا جسے اشتہارات کے ذریعے مالی وسائل مہیا ہوتے ہیں۔ جبکہ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن سرکاری سرپرستی میں ایک غیر منافع بخش پبلک براڈ کاسٹنگ کی صورت میں سامنے آئی۔ یوں امریکہ میں پہلا نجی کمرشل ریڈیو اسٹیشن2 نومبر1920 ء کو آن ائیر ہوا۔KDKA نامی اس پرائیویٹ ریڈیو اسٹیشن نے امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج سے اپنی نشریات کا آغاز کیا اور تب سے اس اسٹیشن کی نشریات با قاعدگی سے جاری ہیں۔ اسی طرح بی بی سی کا قیام 18 اکتوبر1922 کو ہوا اور اُس نے 14 نومبر 1922 ء سے اپنی نشریات کا آغاز کیا۔

ابتدا میں ریڈیو سیٹ نے صرف فردِ واحد کو لسننگ کی سہولت مہیا کی کیونکہ اس میں مرکزی سپیکر کی بجائے ہیڈ فون استعمال ہوتا تھا۔ جو ایک تار کی مدد سے ریڈیو ریسیور کے ساتھ جڑا ہوتا تھا۔اس لئے اس کے سامعین محدود اور زیادہ تر مرد حضرات پر مشتمل تھے۔ 1926 ء میں ریڈیو اور زیادہ گھریلو زندگی کا حصہ بن گیا جب ریڈیو سننے کے لئے ہیڈ فون کی قید کو سپیکر نے ختم کردیا۔ جس سے ریڈیو کے سامعین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 1947 ء میں ٹرانسسٹر کی ایجاد نے ریڈیو کو گھروں، بازاروں، دکانوں، دفاتر، کھیت کھلیانوں اور فیکٹریوں یعنی ہرطرف پھیلا دیا۔ اور بجلی کے بغیر سیل کی مدد سے چلنے والے ریڈیو سیٹس ہر سو نظر آنے لگے۔ ریڈیو کی اس تمام تر ترقی کے پس منظر میں محرک بنیادی قوت حکومتوں اور بڑی کارپوریشنوں کی تھی ۔

حکومتوںنے ریڈیو کو فروغ پروپیگنڈا اور اپنی تشہیر کے لئے دیا جبکہ کارپوریشنز نے اسے تفریح، معلومات اور اطلاعات کا ایک موثر ذریعہ بنانے پر کام کیا۔اور اسے روزمرہ زندگی کی ایک ضرورت کے طور پر ابھارا تاکہ ریڈیو کے کمرشل پہلو کے فوائد حاصل کئے جاسکیں۔ یہی دونوں مقاصد ریڈیو کو برصغیر پاک و ہند کی سرزمین پر لائے ایک برطانوی کالونی ہونے کے ناطے جلد ہی پبلک براڈکاسٹنگ نے یہاں نجی براڈ کاسٹنگ کے نظام کو ختم کرتے ہوئے غلبہ حاصل کر لیا۔ یوں بی بی سی کی طرح متعارف کردہ پبلک براڈکاسٹنگ کے نظام نے اس خطے میں اپنے قدم مضبوط کر لئے۔

تقسیم کے بعد پاکستان میں ریڈیو 48 سال تک سرکاری سرپرستی میں رہا۔ اور ملک میں ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد اس عرصہ کے دوران3 سے بڑھ کر 21 ہوئی یوں 1947 ء سے1995 ء تک ملک میں ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں 600 فیصد اضافہ ہوا۔ 1947ء میں ملک کا صرف6.6 فیصد رقبہ ریڈیو سگنلز کی پہنچ میں تھا جو 1997ء تک بڑھ کر 75 فیصد ہو گیا اسی طرح آزادی کے وقت ملک کی16.8فیصد آبادی تک ریڈیو کے سگنلز پہنچتے تھے۔ جو 1997 ء تک بڑھ کر 95 فیصد ہوگئی۔

آزادی کے پہلے دو عشروں تک ملک کے الیکٹرانک میڈیا پر صرف اور صرف ریڈیو کی حکمرانی تھی۔ جس میں 26 نومبر 1964 سے ٹی وی نے حصہ داری کرنا شروع کی اور بیسویں صدی کے اختتام تک یہ حصہ داری بہت واضح طور پر ٹی وی کی طرف ہوگئی اور ریڈیو کے بارے میں یہ تاثر ابھرنے لگا کہ ملک میں ریڈیو اب صرف دیہات میں ہی سنا جاتا ہے۔ اس تاثر کو ایف ایم نشریات کے آغاز نے کافی حد تک زائل کردیا۔ 23 مارچ 1995 ملک میں ریڈیو کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے۔ اس روز نجی شعبہ نے ریڈیو براڈکاسٹنگ میں قدم رکھا۔اور ملک کے پہلے پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کا آغاز ہوا۔ ملک میں ایف ایم نشریات کا آغاز اگرچہ ریڈیو پاکستان نے اپریل1993 میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد سے موسیقی کے ایک چینل کی صورت میں کردیا تھا۔ لیکن سرکاری ریڈیو کے ایف ایم اسٹیشن کا باقاعدہ آغاز یکم اکتوبر1998ء کو ہوا۔ ملک میں ایف ایم طرز کی نشریات نے اپنے متعارف ہونے کے ساتھ ہی مقبولیت حاصل کرلی۔

گھروں، بازاروں، دفتروں اورگاڑیوں میں جابجا ایف ایم سننے کو ملنے لگا ۔لیکن ابتداء میں یہ سہولت ملک کے صرف تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دستیاب تھی جسے ملک کے طول و عرض میں فراہم کرنے کی ضرورت تھی۔اس ضرورت کو کافی حد تک پیمرا نے پورا کیا۔ مارچ2002 ء میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی پیمرا کا قیام عمل میں آیا۔اور ملک کی الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری میں نجی شعبے کی شمولیت کے دروازے باقاعدہ طور پر کھل گئے۔

ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے اس کی مانگ میں اضافہ کیا اور پیمرا نے اپنے آغاز کے پہلے سال کے دوران 22 پرائیویٹ ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے لائسنس جاری کئے۔اور یوں ملک بھر میں ایف ایم ریڈیو کی نشریات پھیلتی گئی۔اور گزشتہ عشرے کے دوران پیمرا نے ملک بھر میں 138 ایف ایم لائسنسز کا اجراء کیا جس میں سے115 نے اس عرصہ میں باقاعدہ طور پر اپنی نشریات کا آغازکیا۔ دوسری طرف سرکاری ریڈیو نے بھی اپنے ایف ایم اسٹیشنز کے نیٹ ورک میں وسعت دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور گزشتہ عشرے کے دوران 29 نئے ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز قائم کئے۔

ایک طرف ملک میں ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں اضافے کا عمل جاری ہے اور دوسری طرف ریڈیو اور اُس کے سامعین کے بارے میں مصدقہ اعدادوشمار کا فقدان اور دستیاب اعداوشمار کی مناسب انداز میں تشہیر کی کمی نے ریڈیو کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں پیدا کردی ہیں۔کیونکہ اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ پاکستان میں ریڈیو کتنا سنا جاتا ہے؟۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان اعداد وشمار اور رجحانات کو ایک مربوط حکمت عملی کے تحت سامنے لایا جائے۔ تاکہ ملک میں ریڈیو کی مسّلمہ اہیتن اور افادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے میڈیا کے اس شعبے کے بارے میں طرز عمل کو ہر سطح پر بدلا جاسکے۔

پاکستان میں ریڈیو کے ملک گیر اعدادوشمار کے حصول کی پہلی باقاعدہ کوشش 1998 ء میں ہونے والی پانچویں مردم شماری میں کی گئی۔ جس کے مطابق پاکستان کے 23.94 فیصد گھرانوںمیں ریڈیو کو بطور Source of Information استعمال کیا جاتا تھا۔ یعنی پاکستان کے 45 لاکھ 99 ہزار2 سو90 گھرانوں میں ریڈیو سناجاتا تھا۔ مردم شماری کے نتائج کے مطابق پاکستان کے ایک گھرانے میں اوسطً 6.8 افراد رہائش پذیر تھے یوں ملک میں ریڈیو سامعین کی تعداد تقریباً 3 کروڑ 12 لاکھ75 ہزار سے زائد تھی۔ جو اُس وقت ملک کی آبادی کا 23.63 فیصد تھی۔ اسی طرح اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے ثقافت کی ورلڈ کلچرل رپورٹ کے مطابق1980 سے1997 تک پاکستان میں ریڈیو سیٹس کی تعداد میں 3.1 فیصد سالانہ اضافہ ہوا۔ 1980ء میں ملک میں ایک ہزار افراد کے لئے64 ریڈیو سیٹس موجود تھے۔ جو 1997 ء تک بڑھ کر 94 ریڈیو سیٹس فی ہزار آبادی تک پہنچ گئے۔

تقریباً10سال بعد 2006-07 کے دوران ہونے والے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے اعداد وشمار بھی 1998ء کی مردم شماری کے نتائج سے ملتے جلتے اور کسی حد تک حوصلہ افزاء بھی تھے۔ سروے کے مطابق پاکستان کے31.7 فیصد گھرانوں میں ریڈیو موجود تھا اور ملک کی 33.5 فیصد آبادی کو ریڈیو سیٹ کی سہولت حاصل تھی۔ ملک کے دیہی علاقوں کے 33.2 فیصد اور شہری علاقوں کے 28.8 فیصد گھروں میں ریڈیوسیٹ دستیاب تھے جبکہ پاکستان کی 35.6 فیصد دیہی اور 29.5فیصد شہری آبادی کے پاس ریڈیو سیٹ موجود تھا۔ ایک سال بعد 2008 ء میں برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن جسے عام طور پر بی بی سی کہا جاتا ہے اُس کی جانب سے پاکستان میں ریڈیو سننے کے رجحانات کو جانچنے کے لئے ملک میں 15 سال اور اُس سے زائد عمر کے افراد کا ایک سروے کیا گیا۔ سروے کے مطابق پاکستان کے28 فیصد شہری اور 31 فیصد دیہی بالغ افراد ریڈیو سنتے تھے۔

ملک میں ریڈیو کی اہمیت اور اس کے سامعین کی موجودگی کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ پہلو ملک میں ماضی قریب میںموجود غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشنزتھے۔جن کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ ریڈیو آج بھی پاکستانی معاشرے میں اپنا اثر رکھتا ہے اور سنا جاتا ہے۔ پیمرا نے دیگر حکومتی اداروں کے تعاون سے اب تک 100سے زائدغیر قانونی ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کو بند کیا ہے۔ان غیر قانونی ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کی موجودگی اور پھر اُن کی بندش نے اس خیال کو تقویت دی کہ ملک کے کونے کونے میںقانونی ریڈیو سٹیشنز کا جال پھلا دیا جائے تاکہ لو گوں کی ابلاغی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔

اس مقصد کے لئے سرکاری اور نجی شعبے کو متحرک کیا گاک۔ یوں ملک میں ریڈیو سٹیشنز کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ جس میں پرائیویٹ سیکٹر کا حصہ قابلِ ذکر ہے۔ نجی شعبے میں ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک وجہ وہ کشش بھی ہے جو پاکستان کے اشتہارات کی مارکیٹ کی صورت میں موجود ہے جس نے ملک میں ریڈیو کو ایک منافع بخش کاروبار کی صورت دی ہے۔ گیلپ پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق 2013-14 میں ملک میںریڈیو انڈسٹری کو1.57ارب روپے کے اشتہارات ملے جو ملکی اشتہارات کی مارکیٹ کا تقریباً 4 فیصد تھے۔ اور 2012-13 کے مقابلے میںریڈیو کو 11 فیصد زائد مالیت کے اشتہارات ملے۔ یقیناً آنے والے سالوںمیں یہ حصہ کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ کیونکہ آج ملک بھر میں 62 سرکاری ریڈیو سٹیشن فعال ہیں۔جبکہ نجی شعبے میں 143 کمرشل ایف ایم لائسنسز کا اجراء ہو چکا ہے اور 45 لائسنسز ملک کے تعلیمی اداروں کو جاری کئے گئے ہیں۔

یوں ملک میں کام کرنے والے ریڈیو سٹیشنز کا 57 فیصد نجی شعبہ میں کام کر رہا ہے۔اور25 فیصد ریڈیو سٹیشنز سرکاری حیثیت میں آن ائیر ہیں۔ جبکہ 18فیصد ادارتی سرپرستی میں بطور نان کمرشل ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کی صورت میں متحرک ہیں۔ اس وقت ملک کے100 چھوٹے بڑے شہروں میں ریڈیو سٹیشن موجود ہیں (یا اُن شہروں کے لئے ریڈیو سٹیشن کا لائسنس پیمرا نے جاری کیا ہوا ہے)۔ اسلام آباد سب سے زیادہ ریڈیو سٹیشنز کی تعداد کے ساتھ سر فہرست ہے جہاں 26 ریڈیو سٹیشنز سرکاری، نجی اور ادارتی حیثیت میں موجود ہیں۔ 23 کی تعداد کے ساتھ کراچی دوسرے اور 22 ریڈیو سٹیشنوں کے ساتھ لاہور تیسرے نمبر پر ہے۔

نجی کمرشل ایف ایم کی سب سے زیادہ تعداد اس وقت کراچی میں موجود ہے جہاں10ایسے سٹیشنز کام کر رہے ہیں۔ اسلام آباد8 کی تعداد کے ساتھ دوسرے اور لاہور میں7 کمرشل ایف ایم فعال ہیں جس کے باعث وہ تیسرے نمبر پر ہے۔ تعلیمی اور تربیتی مقاصد کے لئے جاری نان کمرشل ایف ایم لائسنسز کی سب سے زیادہ تعداد اسلام آباد میں ہے جہاں ایسے 12ریڈیو سٹیشنز کے لائسنس موجود ہیں۔ جبکہ 9 کی تعداد کے ساتھ لاہور دوسرے اور 6 کے ساتھ کراچی تیسر ے نمبر پر ہے۔جدید ٹیکنالوجی (انٹرنیٹ، سیٹلائیٹ اور موبائل ) نے ریڈیوکی پہنچ اور سامعین کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے اسے مزید کم خرچ کا حامل ذریعہ ابلاغ بنا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں روایتی اور غیر روایتی ریڈیو سٹیشنز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف دی نیشنز میں سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک کے اعداد و شمار سے مرتب کردہ حقائق کے مطابق دنیا میں اس وقت66 ہزار 5 سو 31 سے زائد ریڈیو سٹیشنزکام کر رہے ہیں۔ یعنی دنیا میں اوسطً ایک لاکھ10 ہزار افراد کے لئے ایک ریڈیو سٹیشن موجود ہے۔ جبکہ ویب ریڈیو سٹیشنز کی تعداد بھی اب ہزاروں میں ہے۔ ریڈیو کی نشریات اس وقت دنیا کی 95 فیصدآبادی تک پہنچ رہی ہے۔ جبکہ ریڈیو سامعین کی تعداد 4.2 ارب ہے۔ علاوہ ازیںاس وقت دنیا بھر میں ریڈیو سیٹس کی تعداد 4 ارب ہے۔اسی طرح دنیا کے اوسطً ہر دوسرے فرد کے پاس ریڈیو سیٹ موجود ہے۔ امریکا میں سب سے زیادہ ریڈیو سیٹس موجود ہیں جو عالمی تعداد کا 23 فیصد ہیں۔

برطانیہ کے ایک ادارے کی 2015 میں شائع ہونے والی رپورٹ ’’کلچرل ٹائمز دی فرسٹ گلوبل میپ آف کلچرل اینڈ کریٹیو انڈسٹریز ‘‘کے مطابق 2012 ء میں دنیا بھر میں ریڈیو نے 46 ارب ڈالر کا ریونیو پیدا کیا اور 5 لاکھ 2 ہزار افراد کو ملازمتیں مہیا کیں۔ مذکورہ سال سب سے زیادہ ریڈیو ریونیو امریکہ میں حاصل ہوا جو عالمی ریونیو کا 45 فیصد تھا۔ جبکہ سب سے زیادہ ریڈیو ملازمتوں کے مواقع ایشیا میں پیدا ہوئے جو 35 فیصد تھیں۔ یونیسکو کی 2015ء میں شائع ہونے والی رپورٹ’’ ری شیپنگ کلچرل پالیسیز‘‘ دنیا میں ریڈیو لسننگ کے حوالے سے بتاتی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے43 فیصد اور ترقی یافتہ مما لک کے 56 فیصد افراد روزانہ ریڈیو کے ذریعے خبریں سنتے ہیں۔

اسی طرح ورلڈ ویلیوز سروے کی ویو 6 کے مطابق دنیا کے43.2 فیصد افراد ریڈیو کے ذریعے باخبر رہتے ہیں۔ امریکہ کی ہی مثال کو لے لیجئے جہاں ریڈیو سامعین کی تعداد 24 کروڑ 42 لاکھ ہے۔ اور ایک امریکی سامع اوسطاً روزانہ اڑھائی گھنٹے ریڈیو سنتا ہے۔ جبکہ برطانیہ میں ریڈیو کے بالغ سامعنث کی تعداد 4 کروڑ 80 لاکھ ہے۔ اور اوسطاً ایک برطانوی سامع ہفتہ میں21 گھنٹے ریڈیو سنتا ہے۔ فرانس میں15 سے34 سال کی 20 فیصد خواتین اور 42 فیصد مرد کام کے دوران ریڈیو سنتے ہیں۔

اعداد وشمار کی یہ جھلک اُس دنیا کی ہے۔ جہاں ذرائع ابلاغ کی ہر جدید صورت ناصرف موجود ہے بلکہ اس سے مستفید ہونے کے لئے دیگر تمام ذرائع/ وسائل بھی دستیاب ہیں۔ یعنی بجلی ہروقت اور سب کو دستیاب ہے، قوتِ خرید بھی موجود ہے اور خواندگی بھی 100 فیصد۔ لیکن پھر بھی وہ ریڈیو سے اتنا کیوں جڑے ہوئے ہیں؟ اس کا واضح جواب اس حقیقت کا ادراک ہے۔ جو ریڈیو کی بطور ذریعہ ابلاغ بے شمار خوبیوں میں پنہاں ہے۔ اور یہی ادراک امریکی صدر کو ہر ہفتہ ریڈیو کے ذریعے امریکی قوم سے خطاب کی روایت کے احیاء اور اسے برقرار رکھنے کا موجب ہے۔

ریڈیو کی وہ بے شمار خوبیاں جو اس کی لسننگ کی سہولت، اُس کی پہنچ کی وسعت، اُس کے کم خرچ ہونے اور اس سے نشر ہونے والے مندرجات کے تنوع سے جڑی ہوئی ہیں اسے اطلاعات، معلومات، مکالمہ اور تفریح کا ایک بہترین ذریعہ ابلاغ بنادیتی ہیں۔ اور ترقی پذیر معاشروںمیں جہاں بے شمار طبعی، سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل ابلاغِ عام کی راہ میں حائل ہیں وہاںریڈیو اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ اُن لوگوں تک پہنچتا ہے۔ جو مسائل کی وجہ سے ترقی کی شاہراہ کے کہیں آخر میں ہیں۔

ریڈیو کی کثیر الجہت خوبیوں کے اعتراف میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18 دسمبر 2012 ء کو 13 فروری کے روز کو ریڈیو کے عالمی دن کے طور پر منانے کی منظوری دی ( 13 فروری کی تاریخ کا انتخاب اس وجہ سے کیا گیا کہ 13 فروری 1946ء کو اقوامِ متحدہ کے ریڈیو کا آغاز ہوا) ۔اس دن کو منانے کا مقصد عوام اور میڈیا میں ریڈیو کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنا، فیصلہ سازوں کو ریڈیو کے ذریعے اطلاعات/ معلومات تک رسائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اہتمام کے حوالے سے قائل کرنااور براڈ کاسٹرز کے باہمی روابط اور تعاون کو فروغ دینا ہے۔

21 ویں صدی کے آغاز سے موبائل فونز کی عام پاکستانی کی پہنچ میں آنے اور خاص کر موبائل فونز پر ایف ایم ریڈیو سننے کی اضافی سہولت نے ملک میں ریڈیو لسننگ کو ایک نئی جہت دی۔ اور پیمرا کی رپورٹ کے مطابق ’’ ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن اور براڈکاسٹنگ سہولیات کے درمیان ٹیکنالوجی کے انضمام کا نظریہ مضبوطی سے اپنی جڑیں پکڑ رہا ہے‘‘۔ اور یہ ایک حقیقت ہے جس کی تائید پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے یہ اعدادوشمار بھی کر رہے ہیں۔ سروے کے مطابق اس وقت ملک کے87 فیصد گھرانوں کے پاس موبائل سیٹس موجود ہیں۔ دیہات میں موبائل فون کے حامل گھرانوں کا تناسب83 فیصد اور شہروں میں 95 فیصد ہے۔ جبکہ ریڈیو سیٹس کی موجودگی کے بارے میں سروے کے اعداوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اب صرف 10.9 فیصد پاکستانی گھرانوں کے پاس ریڈیو سیٹس ہیں۔ شہروں میں یہ تناسب 10.7 فیصد اور دیہات میں 11 فیصد ہے۔

اس سے قبل 2006-07 ء میں پاکستان کے31.7 فیصد گھروںمیں ریڈیو سیٹ موجود تھا۔ گھروں میں ریڈیو سیٹس کی موجودگی میں کمی ایک عالمی رجحان ہے۔ انٹرنشنلظ ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی رپورٹ ’’ ڈبلیو ایس آئی ایس ٹارگٹس ریویو اچیومنٹس چیلنجز اینڈ دی وے فارورڈ ‘‘ کے مطابق’’ عالمی سطح پر گھروں میں ریڈیو سیٹس کی موجودگی میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اس کی بنیادی وجہ نئے ابلاغی ذرائع کا پھیلاؤ ہے‘‘۔ اوران نئے ابلاغی ذرائع میں موبائل فون سر فہرست ہے۔ کیونکہ دنیا کے اکثر ممالک میں موبائل پر ریڈیو سننے کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ مثلاً بھارت میں سامعین کی اکثریت روایتی ریڈیو سیٹس پر ریڈیو سننے کی بجائے اپنے موبائل سیٹ پر ریڈیو سنتی ہے۔ اسی طرح اسپین کے76 فیصد یونیورسٹی طالب علم موبائل ڈیوائسز کے ذریعے ریڈیو سنتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں بی بی سی کے سروے کے مطابق30 فیصد بالغ مرد اور 20 فیصد بالغ خواتین موبائل فون پر ریڈیو سنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں ریڈیو سننے کا مجموعی تناسب گیلپ سروے کے مطابق 40 فیصد ہے۔

لیکن اس کے باوجود کہنے والے بڑی سادگی سے کہہ دیتے ہیں کہ اب کون ریڈیو سنتا ہے؟ یہ گئے وقتوں کی بات تھی۔ ریڈیو کے حوالے سے موجود اس مفروضہ کی ایک بڑی وجہ شاید ملک میں نجی شعبے میں ریڈیو کے تعمیری مقاصد کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے زیادہ ترتفریحی(موسیقی) مقاصد تک محدود کر دینا ہے۔ کیونکہ ملک میں کمرشل ایف ایم اپنا 70 فیصد وقت میوزک نشر کرتے ہیں۔ 10فیصد وقت ٹاک شوز اور 10فیصد اشتہارات کے لئے مختص ہے۔ جبکہ 5 فیصد وقت خبروں پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس کے برعکس پرائیویٹ ٹی وی چینلزکو تفریح کے ساتھ ساتھ اطلاعات و معلومات کی ترسیل کی بھی اجازت دی گئی جس کی وجہ سے پرائیویٹ ٹی وی چینلزاپنے تفریحی پروگراموں کے ساتھ ساتھ اپنی نیوز،حالاتِ حاضرہ اور عوامی مسائل پر مبنی پروگراموںکی پیشکش کی وجہ سے عوام کی زیادہ توجہ حاصل کر پائے۔ دوسری طرف سرکاری ریڈیو کافی عرصے سے معاشی گرداب کا شکار ہو کر اپنے ٹرانسمیٹرز کے نشریاتی سگنلز کے معیار اور ہمہ وقت سگنلز کے تسلسل کوبرقرارکھنے میںمشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔

ملک میں ریڈیو سے عوامی دوستی کی اس صورتحال کو کمیونٹی ریڈیو کے ذریعے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ابلاغی سہولیات سے محروم افراد کی ابلاغی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔کیونکہ ایک طرف نجی کمرشل ایف ایم جن کے پیش نظر صرف آمدن کا حصول اور دوسری طرف سرکاری ریڈیو جس پر اپنی آمدن بڑھانے کے لئے ذرائع تلاش کرنے کا دباؤ اور حکومتی اقدامات کی کوریج اور تشہیرکی ذمہ داریاں ہیں۔ ایسے میں کمیونٹی کی سطح کے عوامی مسائل، انسانی ترقی کے مواقع، امن اور بھائی چارہ کا فروغ، مقامی کلچر اور کمیونٹی کے دیگر اُمور پر ریڈیو پروگرامزکا سکڑتاحجم اور ان پروگراموں میں عوامی شرکت کا کم ہوتا تناسب کمیونٹی کی سطح پر ایک ابلاغی خلیج پیدا کر رہا ہے۔ جسے صرف کمیونٹی براڈکاسٹنگ/ کمیونٹی ریڈیو سٹیشن ہی پُر کرسکتے ہیں۔

دنیا کے کئی ایک ترقی یافتہ اور ترقی پذیرممالک میںایسے ریڈیو سٹیشنزاپنا بھر پور مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ جس کا اندازہ یو نیسکو کے ان اعدادوشمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2000 ء سے 2006 ء کے دوران افریقہ کے11ممالک میں کئے جانے والے سروے کے مطابق کمرشل ریڈیو سٹیشنز کی تعداد میں 360 فیصد جبکہ کمیونٹی ریڈیوز کی تعداد میں اس عرصہ کے دوران ان ممالک میں1386 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

پاکستان میں کمیونٹی ریڈیو سٹیشن کی موجودہ دستیاب صورت صرف جامعات میںموجود نان کمرشل ایف ایم کے طور پر ملتی ہے۔ جس کا آغاز 17 جنوری 2004 ء کو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے تحت قائم ہونے والے کیمپس ریڈیو سے ہوا۔ اور اس وقت ملک کی 26 جامعات اور کالجز میں ایف ایم ریڈیو سٹیشنز کام کر رہے ہیں جو ملک کی ریڈیو صنعت کو تربیت یافتہ افرادی قوت مہیا کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

ملک کے کئی ایک زمینی حقائق اس پہلو کی واضح نشاندہی کررہے ہیں کے ہمارے یہاں بھی ریڈیو ایک موثر ذریعہ ابلاغ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بجلی سے محروم ملک کی 5 کروڑ 10لاکھ آبادی اور طویل لوڈشیڈنگ کا شکار ملک کی دیگر آبادی سے تسلسل کے ساتھ ابلاغ کرنا ریڈیو کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ ملک کے 10سال اور اس سے زیادہ عمر کے 40 فیصد ناخواندہ افراد سے رابطہ کا اہم ذریعہ صرف ریڈیو ہی ہے۔کم خرچ ہونے کی وجہ سے خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 5 کروڑ 50 لاکھ پاکستانیوں سے تعلق ریڈیو ہی جوڑ سکتا ہے۔

دیہی علاقوں میں سہولیات کی محرومی اور شہری علاقوں میں زندگی کی تیزی ریڈیو کی ضرورت کو دوچند کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں رونما ہونے والے حادثات اور قدرتی آفات میں ریڈیو کا کردار تو آفاقی اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ گزشتہ 20 برس کے دوران قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثرہ آبادی کے حامل ممالک میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ اور اس کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جو قدرتی آفات سے زیادہ متاثر ہو سکنے کے خدشات کے حامل ہیں۔ یہ تمام حقائق ملک میں ریڈیو کی بھرپور ضرورت کی وکالت کرتے ہوئے اس کے روشن مستقبل کی عکاسی کر رہے ہیں۔

نومبر 2016 ء میں پیمرا کی جانب سے فیز 9 کے تحت مزید 67 نئے ریڈیو سٹیشنز کے لائسنسز کے اجراء کے لئے بولیوں کا انعقاد مستقبل کے اُس منظر نامہ کی ایک جھلک ہے جس میں ملک کے ہر ضلع میں کم از کم ایک ریڈیو سٹیشن کی موجودگی کو یقینی بنانا ہے۔اوریہ تمام عمل اُس وقت ہی با ثمر ہو سکے گا جب حکومتی ترجیحات میں ریڈیو کو اُتنی ہی اہمیت حاصل ہو جتنی ٹی وی کو حاصل ہے۔ کیونکہ Bruce Girard اپنی تصنیف ’’ اے پیشن فار ریڈیو‘‘ میں رقم طراز ہیں۔ ’’ ریڈیو پر پبلک پالیسی کے مباحثوں میں توجہ نہیں دی جاتی اور اکثر اسے سرکاری براڈکاسٹنگ نیٹ ورکس اور میڈیا کارپوریشنز کے منصوبوں اور بجٹ میں نظر انداز کردیا جاتا ہے‘‘۔ اس کے علاوہ ریڈیو کے تینوں بنیادی مقاصد اطلاعات، معلومات اور تفریح پر یکساں طور پر توجہ دی جائے ناکہ ریڈیو کو صرف تفریح (موسیقی ) ہی کا ایک ذریعہ بنا دیا جائے اور اس کے دیگر دو مقاصد کو صرف نظر کر دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔