ٹرمپ کے اقدامات تضادات کا شکار

غلام محی الدین / حسان خالد  اتوار 12 فروری 2017
امریکہ میں صدر کوئی ایک فرد نہیں ہوتا، وہ ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

امریکہ میں صدر کوئی ایک فرد نہیں ہوتا، وہ ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ فوٹو : فائل

امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ صدارتی دوڑ میں شامل ہوتے ہی متنازعہ ہو گئے تھے۔

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ عوامی حیثیت کے حامل لوگ کوشش کرتے ہیں کہ سب کے لیے قابل قبول رہیں لیکن ٹرمپ نے ایسی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ٹرمپ کو ایک فائدہ یہ بھی رہا کہ انتخابی مہم کے دوران یہ تاثر روزبروز گہرا ہوتا گیا کہ ٹرمپ کی جیت کے امکانات معدوم ہیں۔

تمام سروے اور تجزیئے ان کی مدمقابل ہلیری کلنٹن کے حق میں رہے، یوں ٹرمپ کی متنازعہ حیثیت نے کسی اندیشے کا روپ نہیں دھارا۔ عمومی تاثر یہی رہا کہ جس امیدوار نے منتخب ہی نہیں ہونا اس پر زیادہ توانائیاں صرف کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے بھی عموماً امریکی انتخابات کے نتائج جائزوں اور تجزیوں سے زیادہ مختلف نہیں ہوا کرتے۔

ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد یہ تاثر عام تھا کہ وہ صدر منتخب ہو جانے کے بعد ماضی میں پیدا ہونے والے منفی تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ٹرمپ اپنی پرانی روش پر گامزن ہیں۔ امریکی سیاست اور طرز حکمرانی پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایک موثر حصے کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی سات مسلم ممالک کے لوگوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا جس پر دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ممالک میں ایران، لیبیا، عراق، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن شامل ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای نے ان اسلامی ممالک کے خلاف امریکی اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دوسری طرف امریکا کی وفاقی عدالت نے ٹرمپ کا یہ ایگزیکٹو آرڈر معطل کر دیا ہے جس پر امریکی صدر نے فیصلہ دینے والے جج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جج نے ملک کو خطرے میں ڈالا ہے۔ اگر کچھ ہوا تو وہی ذمہ دار ہوں گے۔

اسلامی دنیا میں امریکی صدر کے فیصلے پر ردعمل تو متوقع تھا لیکن سعودی عرب اور یور اے ای کی جانب سے اس فیصلے کی حمایت اسلامی دنیا کے لیے ٹرمپ کے حکم نامے سے بھی زیادہ غیرتموقع ثابت ہوئی۔

امریکا کے اندر ٹرمپ کے اس فیصلے پر انتہائی مدلل انداز میں اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے جہاں کچھ مسلم ممالک پر پابندیاں لگا دی ہیں وہیں وہ اور ان کا خاندان کچھ دوسرے مسلم ممالک سے کاروباری روابط رکھے ہوئے ہے۔ یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ 9/11 کے ہولناک حملوں کے ذمہ داروں میں ان ممالک کا ایک بھی فرد شامل نہ تھا۔ ان حملوں میں جو 11 دہشت گرد تھے ان کا تعلق سعودی عرب، مصر، لبنان اور متحدہ عرب امارات سے تھا۔

صدر ٹرمپ اور ان کے خاندان کے ترکی اور آذربائیجان کے ساتھ قریبی کاروباری روابط ہیں۔ انڈونیشیا اور دبئی میں ان کی جائیدادیں ہیں جبکہ کاروبار مصر اور سعودی عرب میں ہے۔ صدر ٹرمپ کی بیٹی ایونکا نے 2015ء میں کہا تھا کہ ان کی کمپنی مستقبل میں دبئی، ابوظہبی، قطر اور سعودی عرب میں اپنے کاروباری مفادات کو پھلتا پھولتا دیکھ رہی ہے۔ لوگ الزام لگا رہے ہیں کہ ٹرمپ فیصلہ سازی میں ذاتی مفادات کو اولیت دے رہے ہیں۔

ادھر امریکا کے ممتاز تھنک ٹینک دی انسٹی ٹیوف فار پالیسی سٹڈیز کا کہنا ہے کہ ’’ٹرمپ امریکا کی خارجہ پالیسی پر کارپٹ بامبنگ کر رہا ہے (یعنی تباہ و برباد کر رہا ہے) 9/11 کے حملوں کے کم و بیش تمام ذمہ داروں کا تعلق مصر اور سعودی عرب سے تھا۔ مصر وہ ملک ہے جو داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو اسے اپنی جابرانہ پالیسیوں کے باعث اپنی ہی سرزمین پر دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کی پالیسی کو کس نظر سے دیکھا جائے کہ وہ کچھ ملکوں کو نظرانداز کر رہے ہیں اور کچھ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کہیں یہ ذاتی مفادات کا معاملہ تو نہیں۔‘‘

جہاں تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا تعلق ہے تو انہوں نے پرجوش انداز میں امریکی فیصلے کی حمایت اس لیے کی کہ پابندی کا نشانہ بننے والے ملکوں میں ایران بھی شامل ہے اور سعودی عرب کا دعویٰ ہے کہ یمن اور دیگر عرب علاقوں میں جاری بدامنی میں ایران کا بھی ہاتھ ہے۔ عالمی تعلقات میں حالیہ بحران سے ایک مرتبہ پھر یہ بات نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ اپنی غیرمعمولی اہمیت اور حیثیت کے باوجود اسلامی دنیا بری طرح سے انتشار کا شکار ہے۔ عالمی فیصلہ سازی میں مسلم دنیا اس وقت تک اپنا حقیقی مقام حاصل نہیں کر پائے گی جب تک باہمی اتحاد اور تعاون کو اولیت نہیں دی جاتی۔

سعودی حمایت پر حیرانی کی ضرورت نہیں
عرب اپنا اقتدار بچانے کے لیے امریکی حمایت پر مجبور ہیں: سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان
سابق سیکرٹری خارجہ و معروف تجزیہ نگار شمشاد احمد خان نے سعودی عرب کی طرف سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی حمایت پر ’’ایکسپریس‘‘ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ صرف سعودیہ کا نہیں تمام عرب ریاستوں کا ہے، کوئی عرب ریاست امریکہ کے خلاف نہیں جا سکتی، کیوں کہ یہ سب ریاستیں تو اپنی بقاء کے لئے کام کر رہی ہیں، عرب ریاستوں کو اپنے اقتدار کے لالے پڑے ہیں اور ان کے اقتدار کا انحصار ہی بڑی حد تک امریکہ سے اچھے تعلقات پر ہے۔

اس لئے میرے خیال میں سعودیہ یا دیگر عرب ممالک کی طرف سے امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کی حمایت پر کسی کو حیرت کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں، یہ کوئی حیران ہونے والی بات نہیں۔ پھر یہ صرف عرب ریاستوں کا ہی معاملہ نہیں، پوری مسلم امہ کا ہے، مجھے بتائیں کہ ٹرمپ کے اسلام مخالف بیانات پر کسی بھی اسلامی ریاست نے آواز اٹھائی ہے؟ مسلم امہ وہ جہاز ہے، جو خزانے سے بھرا ہونے کے باوجود ادھر ادھر بھٹکنے سے تباہ ہو رہا ہے۔ دنیا میں 57 اسلامی ممالک ہیں، جن کے پاس 70 فیصد توانائی کے وسائل اور 50 فیصد وہ خام مال ہے، جس سے مغرب کی انڈسٹری چل رہی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کا جی ڈی پی صرف 5 فیصد ہے۔

سعودی حمایت کی وجہ کیا امریکی صدر کی طرف سے پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک میں ایران کا نام شامل ہونا تو نہیں، کا جواب دیتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ظاہر ہے یہ بات بھی اہم ہے، لیکن آپ کے لئے یہ اہم نہیں کہ سعودی عرب امریکہ تعلقات کیسے ہیں؟

ہمیں اپنے تعلقات کے بارے میں سوچنا ہے، امریکہ ایک سپرپاور ہے، جس سے ہم نے اپنے تعلقات اچھے رکھنے ہیں، اور امریکہ سے تعلقات میں دراڑ کی ایک بنیادی وجہ اسرائیل ہے۔ ہم جن کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں وہ عرب ممالک تو اسرائیل سے میل جول رکھے ہوئے ہیں، لہذا ہمیں اب سوچنا ہو گا، 70 سال بعد اب وہ وقت آ گیا ہے کہ جب ہمیں اپنے مفاد، خوشحالی، ترقی اور استحکام کے لئے کچھ کرنا ہے، ابھی تک ہم دوسروں کے لئے بہت کچھ کرتے آ رہے ہیں۔ اس سے میری مراد یہ بھی نہیں کہ ہم اسرائیل کو قبول کر لیں، میں تو بس یہ کہتا ہوں کہ اب آپ اپنے قومی مفادات کو ترجیح دیں۔

شمشاد احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کے حوالے سے سعودی عرب کی حالیہ پالیسی ٹرمپ کی سعودیہ سے تیل نہ خریدنے کی دھمکی کا نتیجہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے تو ابھی کھل کر اپنی پالیسی یا ایجنڈا پیش ہی نہیں کیا، امریکی صدر کی اصل شکل آئندہ چند ماہ میں سامنے آئے گی، کیوں کہ امریکہ میں کوئی ایک شخص فیصلے نہیں کر سکتا، دھمکی والا بیان انتخابی مہم کے دوران دیا گیا تھا، لیکن منتخب ہونے کے بعد انہیں قومی مفاد میں پرکھا جاتا ہے۔

امریکہ میں صدر کوئی ایک فرد نہیں ہوتا، وہ ایک ادارہ بن جاتا ہے، جس سے دوسرے ادارے منسلک ہوتے ہیں، اور ان کی سوچ ہماری طرح اپنا بنک بیلنس بڑھانا نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ امریکہ کو عظیم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اب عرب کے بارے میں سوچنا چھوڑ کر اپنی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ناول 1984ء کی یاد دلا دی
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اپنی منفرد پالیسیوں کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ چھائے ہوئے ہیں۔ ان کے اقدامات بالواسطہ کہاں کہاں اثرانداز ہو رہے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکیوں کو جارج اورویل کے 70 سال پرانے ناول ’’نائنٹین ایٹی فور‘‘ کی یاد دلا دی ہے۔

پچھلے مہینے کے دوران یہ ناول ایمیزون کی بیسٹ سیلرز کتابوں میں پہلے نمبر پر رہا۔ ٹرمپ حکومت کے کچھ اقدامات نے حیرت انگیز طور پر وہ ماحول پیدا کر دیا ہے، جس کا ذکر ناول “1984” میں ملتا ہے۔ ان دلچسپ مماثلتوں پر بات کرنے سے پہلے جارج اورویل کے اس ناول کا تعارف کرانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

جارج اورویل کا ناول ’’نائنٹین ایٹی فور‘‘ 1949ء میں شائع ہوا۔ انگریزی ادب میں اس ناول کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے اور اس میں بیان کردہ بہت سے تصورات اور اصطلاحات (مثلاً بگ برادر، منسٹری آف ٹروتھ، تھاؤٹ کرائم وغیرہ) ضرب المثل بن چکے ہیں۔ ناول میں ایک فرضی علاقے “Oceania” کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں حکومت کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں، حکومت نہ صرف اپنے شہریوں کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتی ہے، بلکہ اسے لوگوں کی سوچوں کو کنٹرول کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے ایک ’’منسٹری آف ٹروتھ‘‘ قائم کر رکھی ہے۔ جارج اورویل کے اس ناول کو قارئین اور ناقدین نے ماضی میں ہونے والے مختلف سرویز میں بہترین ناولوں میں شمار کیا ہے۔

اب آتے ہیں ٹرمپ انتظامیہ کے کارناموں کی طرف۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری کے بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان سین سپائسر (Sean Spicer) نے کہا تھا کہ یہ امریکی تاریخ میں سب سے بڑی تقریب حلف برداری تھی۔ ذرائع ابلاغ نے اس دعوے کو غلط قرار دیا اور اعداد و شمار کے جائزے سے بتایا کہ اس سے زیادہ لوگ تو 2009ء اور 2013ء میں صدر اوباما کی حلف برداری کی تقاریب میں آئے تھے۔

اس دعوے کو غلط تسلیم کرنے کے بجائے صدر ٹرمپ کی مشیر کیلی آن کانوے نے نہ صرف وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا دفاع کیا بلکہ اس کے بیان کی نئی تاویل بھی پیش کر دی۔ کیلی آن کا کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے میڈیا کے سامنے صرف ’’متبادل حقائق‘‘ رکھے تھے، جن کو میڈیا پہلے نظرانداز کر رہا تھا۔ حیرت انگیز طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی ’’متبادل حقائق‘‘ کی اس ترکیب اور ناول نائنٹین ایٹی فور میں منسٹری آف ٹروتھ کی متعارف کرائی گئی ’’رئیلیٹی کنٹرول‘‘ کی ترکیب میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔

جارج اورویل نے ناول میں لکھا: ’’حکومتی پارٹی نے اپنے فلسفے سے یہ باور کرا دیا تھا کہ کوئی بیرونی حقیقت سرے سے موجود ہی نہیں۔ بگ برادر کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں اور حکومتی پارٹی سے کبھی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔‘‘ ناول کے مرکزی کردار ونسٹن سمتھ کے الفاظ میں: ’’حکومتی پارٹی نے لوگوں کو بتایا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں اور کانوں پر کبھی اعتبار نہ کریں۔‘‘ ونسٹن سمتھ سوچا کرتا تھا کہ دو جمع دو کو چار کہنا ہی آزادی ہے، چاہے حکومت دو جمع دو کو پانچ کہنے پر مصر ہو۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں ادب کی نقاد مچیکو کیکوٹانی لکھتی ہیں، ’’ایک ایسی دنیا میں جہاں بگ برادر یا دوسرے الفاظ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی ہر وقت آپ کی گفتگو سن رہی ہو، لوگوں کے گھروں میں جاسوسی کے خفیہ آلات نصب کیے جائیں، جہاں غیرملکیوں کے خلاف نفرت اور خوف کی باتوں کو بڑھاوا دیا جا رہا ہو اور حکومت مصر ہو کہ جسے وہ سچ کہے، بلاچون و چرا اسے ہی حقیقت تسلیم کیا جائے۔۔۔۔۔ ان حالات میں اچانک جارج اورویل کا 70 سال پرانا ناول ’’نائنٹین ایٹی فور‘‘ جانا پہچانا سا لگنا شروع ہو گیا ہے۔‘‘

آگے چل کر وہ لکھتی ہیں، ’’اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اب ناول کے قارئین اس ذہنی انتشار کا شکار ہیں جو موجودہ ’’پوسٹ ٹروتھ‘‘ عہد کی دین ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے جس میں غلط اور جھوٹی خبروں کی انٹرنیٹ پر بھرمار ہے۔ اور ان میں حکومت اپنے حصے کے جھوٹ اور غلط دعوے بھی شامل کر دیتی ہے۔ ہمارے ہاں خبروں، تردیدوں اور پھر ان تردیدوں کی تردیدوں کی بھرمار ہے، جس نے معاملات کو الجھا دیا ہے۔ جارج اورویل خوب سمجھتے تھے کہ یہ الجھاؤ اور ذہنی انتشار، طاقت کے کھیل میں شامل افراد کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔