سمادھ مہاراجہ رنجیت سنگھ

مدثر بشیر  اتوار 12 فروری 2017
گرونانک کے وقت سے چلی لہر ان کے بعد میں آئے دس گرووں کے ہاتھوں سے ہوتی کئی کہانیاں اپنے اندر سموئے بیٹھی ہے۔ فوٹو : فائل

گرونانک کے وقت سے چلی لہر ان کے بعد میں آئے دس گرووں کے ہاتھوں سے ہوتی کئی کہانیاں اپنے اندر سموئے بیٹھی ہے۔ فوٹو : فائل

مہاراجہ رنجیت سنگھ سکھ دھرم اور پنجاب کی تاریخ میں انتہائی خاص مانا جاتا ہے۔ سکھ دھرم کے بانی گرونانک جی نے تمام عمر طبقات تقسیم کے خلاف گزاری، دھرتی پر آئے تمام انسان برابر ہیں اس فلسفے کا پرچار کرتے رہے۔ انہوں نے جس تحریک کا آغاز کیا اس کا اختتام رنجیت سنگھ کی حکومت کی شکل میں ہوا۔

گرونانک جی نے 1539ء میں انتقال کیا۔ مسلمانوں، ہندوؤں اور سکھوں میں یکساں مقبول گرونانک جی، ان کے ہاتھوں جنم لی ہوئی تحریک کی شکل تین سو برسوں میں یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی۔ سرکار، قلعے، راجواڑے، حویلیاں، دمن دولت یہ تمام خاصیتیں کسی بھی طور پر خالصہ تحریک سے میل نہیں کھاتیں۔ گرو جی کی زندگی کا ہر پل ان کی نفی میں گزرا تھا۔ اسی حوالے سے اقتباس ڈاکٹر مبارک علی کی تقریر میں سے درج کیا جا رہا ہے جو انہوں نے 17 مارچ 2002ء کو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں ہونے والی ایک کانفرنس میں کی تھی اور جس کا موضوع تھا ’’پنجاب اور سکھ تاریخ‘‘ ۔

’’پنجاب میں گرونانک (وفات 1539ء) کی تعلیمات اقتدار کے جدوجہد یا حصول کے لیے نہیں تھیں۔ وہ حکومت اور حکمران طبقوں سے ناخوش تھے۔ پنجاب میں سیاسی طور پر جو بدامنی تھی، اس کا شکار یہاں کے عام لوگ ہو رہے تھے، غیر مسلموں سے جزیہ لینا، زیارت گاہوں پر ٹیکس لگانا، زمیندار اور مقدموں کا اپنی رعیت کا استحصال کرنا، اس نے سیاسی طور پر اس عہد کو ’’کلیوگ‘‘ بنا دیا۔ لہٰذا ان کی تعلیمات سے جو متاثر ہوئے ان میں کھتری ذات کے لوگ تھے کہ جو تجارت وکاروبار کے پیشوں کو اپنائے ہوئے تھے۔ اس کے بعد دستکار و ہنرمند و کاریگر تھے۔ اور پھر جاٹ لوگ کہ جو کاشتکاری و زراعت میں مشغول تھے۔

مہاراشٹر کے برعکس جہاں دولت مند اور طاقتور طبقوں نے بھگتی تحریک کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ پنجاب میں نانک کے ماننے والے کمزور طبقے تھے۔ اس لیے انہوں نے مسلح جدوجہد کے بجائے امن و آشتی اور رواداری کی بات کی کہ جس کے سہارے یہ لوگ ظلم و استحصال کو برداشت کرسکیں۔ لیکن یہ ضرور کیا کہ ذات پات کی قیود توڑ کر اور مہنگی رسومات سے ان کو چھٹکارا دلایا تاکہ وہ سماجی اور معاشی طور پر آزاد ہوسکیں اور ان میں مساوات بھی قائم ہوسکے۔‘‘

گرونانک کے وقت سے چلی لہر ان کے بعد میں آئے دس گرووں کے ہاتھوں سے ہوتی کئی کہانیاں اپنے اندر سموئے بیٹھی ہے۔ تعلیمات کا سلسلہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری برسوں تک چلتا رہا۔ انہی دنوں میں رنجیت سنگھ کا جنم ہوا۔ مؤرخین کے ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ وہ جٹ (گوت) قبیلے میں پیدا ہوا جبکہ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ وہ سانسی (گوت) قبیلے میں پیدا ہوا۔ یہ روایت زیادہ مستند ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ سانسی وہ لوگ ہوتے جو ہر قسم کا جانور زندہ، مردہ کھالیتے ہیں۔ ایسے جانور بھی جوعام لوگ نہیں کھاتے جیسا کہ کتے، بلیاں، چوہے، سانپ وغیرہ۔

رنجیت سنگھ کے آباؤ اجداد سکھوں کی بارہویں مثل ’’سکرچکیوں‘‘ میں سے تھے۔ اس مثل کی بنیاد سردار جڑت سنگھ نے رکھی تھی جوکہ سکرچک میں رہتا تھا۔ اس کے باپ کا نودھا قوم جاٹ اور گوت سانسی تھی۔ اس قبیلے کے افراد زیادہ گوجرانوالہ (مشترکہ پنجاب) کے رہنے والے تھے۔ جن کی زندگی انتہائی برے حالات میں تھی۔ اکثریت افراد کا گزارہ زراعت پر تھا۔ اس مثل کا پہلا معروف نام بدھ سنگھ ڈاکو کا ہے۔ تقسیم سے قبل تک بدھ سنگھ اوراس کی گھوڑی ’’دیساں‘‘ کی کہانیاں دیہاتوں میں عام تھیں۔ وہ اپنی گھوڑی پر جہلم، راوی اور چناب کو پچاس میل تک تیر کر پار کرلیتا تھا۔

بدھ سنگھ پہلا شخص تھا جوکہ گروگوبند جی کے ہاتھوں خالصہ ہوا تھا۔ بدھ سنگھ کی موت بھی افسانوی تھی۔ جس کے ساتھ ہزارہا کہانیاں منسوب ہیں۔ بدھ سنگھ کے بعد نودھ سنگھ نے ایک جتھا بنالیا اور افغان پٹھانوں سے لڑائی کے بعد راوی اور جہلم کے درمیان حصے میں کچھ علاقے اپنے قبضے میں کرلیے۔ نودھ سنگھ کے نام کے ساتھ سکر چکیہ مشہور ہوگیا۔ اس کے عہد میں سکر چکیہ ایک طاقتور مثل بن گئی۔

اس تمام عرصے میں افغان پٹھانوں کے ساتھ لڑائیاں جاری رہیں۔ ان لڑائیوں میں 1752ء کو نودھ سنگھ مارا گیا۔ اس کے چار بیٹوں میں سب سے بڑا چارہت سنگھ تھا جس نے اپنی سرکار کو سکرچک سے اٹھا کر گوجرانوالہ منتقل کردیا۔ اس کی بھی تمام زندگی پٹھانوں اور دیگر سکھ مثلوں کے ساتھ لڑای میں گزرگئی۔ اکثر لڑائیوں میں اس نے شکست کھائی اور پھر ایک لڑائی میں اپنی ہی توڑے دار بندوق پھٹنے سے مارا گیا۔

اس کے بعد اس کے جتھے کی باگ دوڑ اس کے بیٹے مہاسنگھ کے ہاتھ آئی۔ جس کی شادی جند کے سردار، سردار گجیت سنگھ کی بیٹی سے ہوئی۔ جس کا اصل نام راج کور تھا اور وہ سکھوں میں مائی ملوائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ مہاسنگھ کے گھر ہی رنجیت سنگھ کا جنم ہوا۔ مہاسنگھ کی زندگی اور رنجیت سنگھ کے ابتدائی ایام کے حوالے سے اقتباس خوشونت سنگھ کی کتاب ’’رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔22) سے درج ذیل ہے۔

’’چارہت سنگھ کا بیالیس سالہ بیٹا مہاسنگھ اپنے باپ ہی کی طرح نہایت دلیر جنگجو تھا۔ اس نے جند کے سردار گجیت سنگھ کی بیٹی سے شادی کی تھی۔ اس کے بعد مثل داروں میں اس کی حیثیت بہت مضبوط ہوگئی تھی۔ گوجرانوالہ کی فصیل کے اندر اس نے ایک قلعہ تعمیر کروایا جس کا نام اس نے اپنے نام پر گڑھی مہاسنگھ رکھا۔ اس نے اپنی فوج میں بھی اضافہ کیا۔ اس کے بعد شہسواروں کی تعداد 6000 ہوگئی اور اس نے اپنے آباؤ اجداد کے مقبوضہ علاقوں پر دوبارہ تسلط قائم کیا۔اس نے رسول نگر کو ایک مسلمان قبیلے چٹھہ سے چھین لیا۔ وہ علی پور، پنڈی بھٹیاں، ساہیوال، عیسیٰ خیل اور سیالکوٹ پر قابض ہوگیا۔ اس کے بعد وہ اپنے باپ کی طرح جموں کی طرف بڑھا۔ جموں کا ہندو ڈوگرا حکمران اس دولت مند شہر کو بے رحم سکرچاکیوں کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ مہاسنگھ نے جموں کو فتح کرکے سکرچاکیہ مثل کو نسبتاً گمنامی سے نکال کر نمایاں ترین مقام پر پہنچا دیا۔ کہنیا جوکہ بھنگیوں کی جگہ سب سے طاقتور مثل بن گئے تھے، جموں پر قبضہ کرنے کے لیے مہاسنگھ سے نبردآزما ہوگئے۔ دونوںمثلوں میں متعدد مرتبہ لڑائیاں ہوئیں۔ ایک لڑائی میں کہنیاؤں کے سردار کا اکلوتا بیٹا گربخش سنگھ ہلاک ہوگیا۔ اب کہنیا سردار کا فخر مٹ چکا تھا۔ اس نے اطاعت قبول کی اور اپنی سب سے بڑی بیٹی مہتاب کور کی شادی مہاسنگھ کے بیٹے رنجیت سنگھ سے کردی۔ کہنیا سردار تھوڑے عرصے بعد فوت ہوگیا۔ اس کے مقبوضہ علاقوں کی باگ ڈور اس کی بیوہ سداکور کے ہاتھ آگئی۔‘‘

رنجیت سنگھ کی پیدائش کے بارے میں خوشونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔23) پر کچھ اس طرح تحریر کیا ہے۔

’’رنجیت سنگھ 13 نومبر 1780ء کو منگل کے دن پیدا ہوا۔ قیاس ہے کہ اس کی پیدائش گوجرانوالہ میں ہوئی تھی۔ رنجیت سنگھ کی پیدائش کی تاریخ اور مقام کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ گوجرانوالہ میں دو کمروں والے ایک پرانے مکان پر دو تختیاں نصب ہیں۔ ایک کمرے کے باہر نصب تختی پر لکھا گیا ہے کہ یہاں رنجیت سنگھ 2 نومبر 1780ء کو پیدا ہوا تھا۔ میک گریگور، گریفن، پریم سنگھ اور ڈاکٹر گنڈا سنگھ سمیت بہت سے تاریخ دان اب گوجرانوالہ کو رنجیت سنگھ کی جائے پیدائش تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم 13 نومبر 1780ء ہی کو اس کی مصدقہ تاریخ پیدائش مانا جاتا ہے۔ بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ ایک چھوٹے عسکری شہر بدرکھان میں پیدا ہوا تھا جو سندھ کے قریب واقع ہے اور رنجیت سنگھ کی ماں راج کور کا تعلق اسی شہر سے تھا۔ راج کور جند کے راجہ گجپت سنگھ کی بیٹی تھی۔ اسے اپنے شوہر کے گھرانے میں مائی ملوائن یعنی مالوہ کی خاتون کہا جاتا تھا۔ مؤرخوں کا کہنا ہے کہ روایت کے مطابق اس کے پہلے بچے کی پیدائش اس کے میکے میں ہوئی تھی۔ بچہ پیدا ہوا تو اس کا نام بدھ سنگھ رکھا گیا۔ جب مہاسنگھ کو اپنے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی خوش خبری ملی تو اس وقت وہ چٹھوں کو دریائے جہلم کے قریب ایک معرکے میں شکست دے کر واپس آرہا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کا نام بدھ سنگھ۔۔۔۔ یعنی ذہین انسان۔۔۔۔ کی بجائے رنجیت سنگھ۔۔۔ یعنی میدان جنگ میں فاتح۔۔ رکھا۔ یہ ایک طرح سے بچے کے مستقبل کی پیش گوئی تھی۔ (رنجیت سنگھ بالکل ان پڑھ رہا۔ لیکن اس نے بیشتر جنگوں میں فتح پائی)۔‘‘

بچپن ہی میں رنجیت سنگھ کی بائیں آنکھ چیچک کے باعث ضائع ہوگئی۔ وہ ابھی محض بارہ برس کا نو عمر لڑکا تھا کہ اسے اپنے باپ کے بعد اپنی مثل کا سردار بنا دیا گیا۔ تیرہ برس کی عمر میں حشمت خاں نامی ایک طاقتور سردار کو جنگل میں قتل کیا۔ رنجیت سنگھ کی زندگی میں خواتین کا ایک گہرا اثر رہا۔ اس کی پہلی شادی مہتاب کور کے ساتھ ہوئی جس کا باپ رنجیت سنگھ کے باپ کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ رنجیت سنگھ کی ساس سدا کور کا رنجیت سنگھ کی تمام کامیابیوں کے پیچھے ایک گہرا ہاتھ تھا۔

روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ سدا کور کے کہنے ہی پر رنجیت سنگھ نے اپنی سگی ماں کا اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور دیوان لکھپت رائے کو بھی ایک سازش کے تحت مروایا گیا۔ دیوان لکھپت رائے اور مائی ملوائن کے بارے میں اب تک کئی کہانیاں لوگوں کی زبان پر ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رنجیت سنگھ نے دوسری مثلوں کو اپنے ساتھ ملایا اور کچھ پر طاقت کے زور سے قبضہ کرلیا۔

رنجیت سنگھ نے 1799ء میں بھنگی مثل کو لاہور جاکر شکست دی۔ اس وقت لاہور پر سرحاکمان گوجر سنگھ، لہنا سنگھ اور سوبھا سنگھ کی حکومت تھی۔ اس وقت لاہور کے تمام دروازوں کو پکی اینٹوں کے ساتھ بند کردیا گیا تھا۔ صرف تین دروازے دہلی، روشنائی اور لوہاری کھلے تھے۔ رنجیت سنگھ نے لوہاری دروازے کے محافظ محکم دین کو ساتھ ملایا اور دیگر درباریوں نے دھوکے سے فوج کو دہلی دروازے کی جانب بھیج دیا اور رنجیت سنگھ نے باآسانی لوہاری دروازے سے داخل ہوکر شہر پر قبضہ کرلیا۔

12 اپریل 1801ء میں تمام پنجاب پر سکھ سرکار بن گئی اور پنجاب پر سکھ حکومت رنجیت سنگھ کے آخری سانس تک جاری رہی۔ اس وقت پنجاب کی حدود ستلج سے جہلم تک کے وسیع علاقے تک پھیل چکی تھیں۔ ان ہی برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب کے علاوہ ہندوستان کے کم و بیش تمام علاقوں پر بلاواسطہ اور بالواسطہ سرکار قائم کرچکی تھی۔ کمپنی کی حکومت کو سکھوں کی بڑھتی طاقت اور دوسری جانب افغان حملہ آوروں کے حملوں کی بھی مکمل سمجھ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں حکومتیں وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے کرتی رہیں۔

1839ء میں رنجیت سنگھ نے وفات پائی تو 1844ء سے 1849ء تک کے عرصہ میں انگریز پورے پنجاب پر مکمل قبضہ حاصل کرچکے تھے۔ رنجیت سنگھ کی تمام عمر میدان جنگ اور خواتین کی سنگت میں گزری اور اس کے ساتھ ساتھ لاتعداد کہانیاں بھی جنم لیتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی زندگی اور اس کے بعد بھی کئی کتب تحریر ہوئیں۔ شاہ شجاع سے کوہ نور ہیرے کا لینا، آٹھ بیٹوں کا باپ ہونا، لیکن صرف دو بیٹے حقیقی تسلیم کیے گئے۔ جن کے نام کھڑک سنگھ اور دلیب سنگھ تھے۔ باقی چھ بیٹوں کے نام ایشر سنگھ، پشودا سنگھ، تارا سنگھ، شیر سنگھ، ملتانہ سنگھ اور کشمیرا سنگھ تھے۔ اب ہم رنجیت سنگھ کی سمادھ کی جانب آتے ہیں۔

سمادھ کا تذکرہ کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب تاریخ لاہور (ص۔227) پر اس طرح کیا ہے۔ ’’یہ عالی شان مکان سمادھ کا روشنائی دروازے سے باہر، فصیل کے ملحق، دیوادبہ دیوار مسجد بادشاہی کے بہ جانب شمال واقع ہے۔ دروازہ آمدورفت مشرق کی سمت کو ہے۔ دیوار مشرقی اس مکان کی پختہ ریختہ کار ہے۔ خاص دروازے کے نیچے اوپر اور راست و چپ بہت سی دیوار سنگ سرخ کی بنی ہے۔ پانچ زینے چڑھ کر دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ زینہ اور چوکھٹ بھی سنگ سرخ کی بنی ہے۔ دروازہ عالی شان مقطع تھڑے دار بنا ہوا ہے اوپر دروازے کے تین مورتیں منوتی شوجی و گنیش جی و برہما کی پتھر میں بناکر نصب کی گئی ہیں۔ اس مشرقی دیوار کی پہلی منزل میں جو حجرے ہیں ان میں دکاندار دکان کرتے ہیں اور اوپر کی منزل کی نشست گاہوں کے اس طرف دریچے و بخارچے ہیں۔ ان کی چوکھٹیں بھی سنگ سرخ کی ہیں اوردروازے چوبی۔

دروازے سے داخل ہوکر ڈیوڑھی کے شمال کی سمت زینہ سنگ سرخ کا اوپر جانے کے لیے اور جنوبی کی سمت ایک کوٹھری اور ایک زینہ قالبوتی خشتی بنا ہے۔ یہ زینہ اوپر صحن میں جاکر کھلتا ہے اور سنگین چوکھٹ لگی ہے۔ اس دروازے کے جنوب و شمال نشست گاہیں بنی ہیں جس کے دروازے تو صحن کی سمت ہیں اور دریچے باہر کی سمت نہایت مقطع و سنگین ہیں۔ انہی مکانات میں سے ایک میں سنگ مرمر کی بن دیوی کی نہایت ادب کے ساتھ رکھی ہے۔ دیوی جی کا تخت اور بنگلہ سنگ مر مر کا ہے۔ بنگلے کی چھت بھی سنگ مر مر کے ایک تختے کی ہے۔

یہ بنگلہ نہایت خوبصورت قابل دید ہے۔ جس کے دیکھنے سے طبیعت میں فرحت آتی ہے۔ دیوی جی کی سواری سنگ مر مر کے شیر پر ہے۔ یہ تصویر دیوی جی کی رانی جنداں والدہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کے پاس مثمن برج میں رکھی ہے۔ جب اس کو جلا وطن کیا گیا تو اس نے سمادھ پر مورت بجھوا دی، تب سے اسی جگہ پر رکھی ہے اور پجاری علیحدہ مقرر ہے۔

دیوی جی کے مکان کے مماذی صحن کا فاصلہ چھوڑ کر زینہ سمادھ ہے۔ یہ عالیشان سمادھ ایک عالیشان چبوترے پر ہے جس کا ارتضاع پانچ فٹ کے قریب ہوگا۔ جانب مشرق وسط میں چبوترے کی سیڑھی ہے۔ چبوترے کے سر پر سنگ مر مر کی سلیں بہ سمت مشرق و شمال لگائی گئی ہیں۔ مگر جنوب اور غرب کی سمت خشتی بند لگایا گیا ہے۔ اس چبوترے کے نیچے کا مکان بطور تہہ خانے کے پولا ہے۔ چبوترے کے وسط میں لاثانی مکان سمادھ کا بنا ہے۔ جس کے تین تین دروازے چاروں طرف رکھے ہوئے ہیں۔ ہر ایک دروازے کی چوکھٹ سنگ مرمر کی اور جوڑیاں چوبی ہیں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک درمیانی دروازہ کلاں اور بغلوں کے چھوٹے ہیں۔ مشرقی دروازہ درمیانی آمدورفت کے لیے کھلا رہتا ہے۔

اس دروازے کا زینہ سنگ مرمر کا ہے اور دروازے کے آگے ایک سیاہ پتھر کی بڑی سل نصب ہے۔ اس دروازے کے اندر جائیں تو بڑا وسیع مکان مسقف آتا ہے۔ اس کے وسط میں ایک بارہ دری عالیشان اس بارہ دری کے آٹھ ستون سنگ مرمر کے تھے۔ چونکہ ستون نازک اور اوپر ہوگئے، جابجا درزیں آگئیں۔ قریب تھا کہ وہ لاثانی عمارت گرجائے، جب عمارت کا ایسا حال صاحبان عالی شان نے دیکھا، مؤلف کتاب کو کہ ایگزیکٹو انجینئر و مہتمم عمارت ڈویژن لاہور تھا۔ حکم دیا کہ اس کے استحکام کی تدبیر کرنی چاہیے۔ چناں چہ مؤلف اس کام میں بہ دل و جان مصروف ہوا اور ان آٹھ ستونوں کے ساتھ آٹھ ستون خشتی اور بڑھادیئے۔ جب گبند کی عمارت کے نیچے بجائے آٹھ کے سولہ ستون ہوگئے اور پہلے شق شدہ ستون نہایت مضبوط آہنی حلقے ڈال کر مستحکم کیے گئے تو اندیشہ ان کے گرنے کا رفع ہوگیا۔

اس بارہ دری کی عمارت نہایت عمدہ منقش و مطلا ہے اور وسط میں ایک عالیشان بنگلہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے جس کے چار در ہیں۔ دروں کے ستون وغیرہ متعلقہ سنگ مرمر کے ہیں مگر اوپر کا گنبد خشتی ہے۔ اس بنگلے کا گنبد بڑے گنبد کے نیچے نہایت خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ بنگلے کے بیچ میں ایک چبوترہ سنگ مر مر کا، اس پر سمادھ سنگین مہاراجہ رنجیت سنگھ کی، وسط میں بنی ہوئی اور گیارہ سمادھیں اور گیارہ رانیوں کی ہیں جو مہاراجہ کے ساتھ ستی ہوئی تھیں اور دو سمادھ ان دو کبوتروں کی ہیں جو بہ وقت داغ دینے کے نعش کے چتا کے اندر اڑتے ہوئے آپڑے تھے اور مہاراجہ کی نعش کے ساتھ ہی جل گئے تھے۔‘‘

خوشنونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’مہاراجہ رنجیت سنگھ‘‘ (ص۔255) پر رنجیت سنگھ کی آخری رسومات کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا۔

’’اگلے دن مہاراجہ کی لاش کو گنگا جل سے نہلایا گیا۔ اسے بحری جہاز کی شکل کی صندل کی لکڑی کی چتا پر لٹا دیا گیا۔ اس جہاز کے بادبان ریشم اور مخمل کے بنائے گئے تھے۔ وزیروں اور درباریوں نے چتا پر شالیں ڈال کر اپنی عقیدت کا آخری مرتبہ اظہار کیا۔ ستی ہونے والی چار رانیوں اور سات ملازماؤں سمیت جنازہ قلعے سے روانہ ہوا۔ انہوں نے شادی کا لباس اور زیورات پہنے ہوئے تھے۔ وہ وقفے وقفے سے اپنی کوئی چوڑی، کڑا یا کوئی زیور توڑ کر فقیروں کے ہجوم میں اچھال دیتی تھیں یا مقدس گیت گانے والے برہمنوں میں سے کسی کو دے دیتی تھیں۔ جنازہ شہر کی تنگ گلیوں میں سے گزرا، جو روتے ہوئے لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔‘‘

رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی عظیم الشان سمادھ کی عمارت کی بنیاد اس کے بیٹے کھڑک سنگھ نے رکھی۔ سمادھ کی تعمیر کیلئے سنگ مر مر اور دوسرا قیمتی پتھر ہندوستان کی مختلف جگہوں سے منگوایا گیا۔ کھڑک سنگھ کی ایک برس کے اندر موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد سمادھ کی تعمیر مہاراجہ شیرسنگھ کے وقت میں بھی جاری رہی۔ اس دوران سکھ سرداروں کی انگریزوں کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں۔ جس کے باعث تعمیر کا سلسلہ مسلسل نہ رہا۔ اس عمارت کی تعمیر انگریز سرکار کے عہد میں ہوئی۔ سمادھ کی عمارت جوکہ بادشاہی مسجد اور پرانے روشنائی دروازے کے ساتھ ملحقہ ہے۔

عمارت میں داخل ہوتے ہی گرو ارجن دیو جی کی سمادھ اور گردوارہ ہے جس کے باعث یہ تمام جگہ ڈیرہ صاحب کہلاتی ہے۔ تقسیم تک اس گردوارے میں پوجا پاٹھ اپنے روایتی طریقے سے جاری رہی۔ اس جگہ پر عام سکھ خلقت کا ہر وقت رش رہتا تھا۔ تقسیم کے وقت انسانی تاریخ کی جو بڑی ہجرت ہوئی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دونوں جانب سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے پرکھوں کے گھر چھوڑ کر اجڑ کر دوسرے دیس میں جابسی۔ سکھوں کی ایک بڑی تعداد یہاں سے منتقل ہوگئی۔ جس کے بعد یہ جگہ عام خلقت کی رسائی سے باہر ہوتی گئی۔ سمادھیوں اور گردوارے کی جگہ محض طالب علموں اور سکھ یاتریوں کے لیے مختص ہوکر رہ گئی۔ وقت کے ساتھ بڑھتی دہشت گردی کے باعث یہ مقامات مزید حساس ہوگئے۔

عہد حاضر میں سڑکوں کی تعمیرات، کھیل کے میدانوں کو تجارتی شکل دینا اور دیگر حساسیت کے معاملات کے باعث بادشاہی مسجد اور اس سے ملحقہ دیگر عمارات کی رسائی تک راستے آئے دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت مروجہ راستہ مینار پاکستان کی گراؤنڈ میں سے ہے۔ قلعہ لاہور کی مشرقی سیدھ میں تمام راستوں کے ساتھ حفاظتی جنگلے نصب کردیئے گئے ہیں۔ قلعہ کی جانب سے آتی گھاٹی کی مغربی سیدھ میں سمادھ کا داخلی دروازہ ہے۔ دروازے سے بائیں جانب گرو ارجن کی سمادھ ہے۔ جس کے ساتھ کبھی پرانے گردوارے کی عمارت بھی تھی۔ اس تمام جگہ کو ازسرنو تعمیر کیا جارہا ہے۔ اس جگہ سے مغربی سیدھ میں زمینی منزل پر کمروں میں سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ ان سے اوپر کی منزل پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے۔

سیڑھیاں چڑھ کر سامنے کھلے صحن میں سکھ دھرم کے خاص دھرمک رنگ ’’جوگیارنگ‘‘ میں ایک جھنڈا دکھائی دیتا ہے جس کو ’’کھنڈا صاحب‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ مشرقی سیدھ میں کچھ پرانے کمرے ہیں۔ جن میں گردوارے کا نظم و نسق کرنے والوں کے دفاتر ہیں۔ اس کی جنوب سیدھ میں مغل عہد کا روشنائی دروازہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی سیدھ میں خاص سمادھ کا داخلی دروازہ ہے جس پر رنجیت سنگھ کی تصاویر بنائی گئی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تصاویر کی حالت بھی انتہائی مخدوش ہے۔ اس کے اوپر خاص سکھی طرز تعمیر کا گنبد ہے۔ تمام عمارت سفید اور جوگیارنگ سے مزین ہے۔

اس کی دیوار پر جگہ جگہ کبوتروں کے گھونسلے دکھائی دیتے ہیں اور فرش پر بھی کبوتروں کا دانا اور کبوتر نظر آتے ہیں۔ زمینی منزل پر تعمیر ہونے والے گردوارے کو وقتی طور پر رنجیت سنگھ کی سمادھ میں منتقل کردیا گیا ہے۔ سمادھ میں داخلے کے لیے احتراماً دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا تالاب تعمیرکردیا گیا ہے۔ جس میں سے گزر کر سمادھ میں داخل ہوا جاتا ہے۔ پیر تالاب کے پانی سے دھل جاتے ہیں اور جرابیں پہننے کی اجازت بھی نہیں۔ آمدورفت کے لیے مشرقی سیدھ کا دروازہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے دروازے تینوں سیدھوں میں ہیں۔ دروازہ کلاں کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں جانب فرد دروازے بھی ہیں۔

سمادھ کے اندر آتے ہی ایک بار شیش محل قلعہ لاہور کا گمان ہوتا ہے۔ سقف اور دیواروں پر شیشے کا خوبصورت کام دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کی شمال سیدھ میں گرنتھ پڑھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے اوپر ایشیائی مہنگا فانوس دکھائی دیتا ہے۔ کمرے کے عین وسط میں خاص رنجیت سنگھ کی سمادھ ہے جس کے چاروں جانب ایشیائی نفیس سنگ مر مر کے چوکھٹے ہیں۔ سقت کے نیچے چاروں جانب ایشیائی خوبصورت غلام گردش ہیں۔ فرش پر قالین بچھائے گئے ہیں، خاص سمادھ کی دیواروں کے ساتھ ساتھ رنجیت سنگھ کے سب سے بڑے فرزند دلیپ سنگھ کی تصاویر شیشے کے فریموں میں دکھائی دیتی ہیں۔ غلام گردشوں کے نیچے پالکی طرز تعمیر میں دیواریں ہیں۔

گرنتھ کے احترام کے لیے ایشیائی خوبصورت مورچھل بھی رکھے گئے ہیں۔ رنجیت سنگھ کی سمادھ میں اس کے ساتھ ہونے والی ستی رانیاں اور کنیزوں کی سمادھوں کے نشان بھی دکھائی دیتے ہیں۔ دیواروں میں جگہ جگہ کاشی کا پرانا کام بھی نظر آتا ہے۔ عمارت کی حفاظت کے لیے بہت اعلیٰ انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود بھی بجلی کے پنکھوں کی تنصیب میں منتظمین نے بغیر سوچے سمجھے لوہے کے پائپ دیواروں میں گاڑھ دیئے گئے ہیں۔

ختم ہوتے ہوئے پرانے لاہور میں یہ جگہ ابھی بھی اچھی حالت میں موجود ہے۔ لیکن ابھی بھی مزید انتظامات کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عام عوام کو بھی سکھوں کی ان مقدس جگہوں تک رسائی ملنی چاہیے تاکہ وہ اس جگہ کی تاریخ کے ساتھ ساتھ سکھ دھرم اور ان کی مقدس جگہوں کے بارے میں بھی جانکاری حاصل کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔