تلور

جاوید قاضی  جمعـء 10 فروری 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کچھ خبریں اخباروں کے کسی کونے میں پڑی ہوئی ملتی ہیں مگر بڑی معنی خیز ہوتی ہیں۔ ہم شاید ہر شے کو انسانوں کی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور انسانوں کے حوالے سے ہی جانچتے ہیں۔ مگر اس سنسار میں بہت سی جیوت ہیں جو خالق نے تخلیق کی ہیں۔ خبر یہ تھی کہ کل بالآخر سندھ کے وائلڈلائف ڈپارٹمنٹ نے قطری شہزادے کے تھر میں لگائے ہوئے خیموں کو بند کرنے کا نوٹس جاری کردیا اور شہزادہ بغیر شکار کیے گھر کو لوٹا۔

اس خبر سے ساری یادیں، ساری باتیں جو میرے بچپن سے وابستہ ہیں، امڈ پڑیں۔ یہ میرے ماحول کی حقیقت تھی۔ شکار کرنا میرے بچپن کی ٹریننگ کاحصہ تھا۔ بندوقیں پکڑنا، بندوقوں سے کھیلنا اور بندوقیں لے کر چلنا۔ اڑتے ہوئے تیتر کو فلائنگ شارٹ سے مارنا، بٹیر ہو یا چِڑیا، اوائل دنوں میں چھرے کی بندوق سے ان کا نشانہ لینا۔ میرے گاؤں کی جھیل کتنی خوبصورت تھی۔ کتنے سائیبیریا سے پنچھی اڑ کر سردیوں میں وہاں آتے تھے۔

کشتیوں میں بیٹھ کر چپکے سے ان کا تعاقب کرنا، دبے پاؤں کیچڑ میں اترنا، اور پھر پوائنٹ ٹو ٹو کی گن سے ان کے سینے چھلنی کردینا کہ ایک سینے سے وہ دوسرے سینے کو چھلنی کرتی تھی، تیسرے سے چوتھے، اس طرح سے ایک گولی سے چار چار پرندے شکار کرتی تھی۔ یہ تھا میں وحشی، کہ مجھ کو کچھ بھی خبر نہ تھی کہ میں وحشی ہوں۔ میں ماحول کا عکس تھا اور ماحول میرا عکس۔ مجھے اس جھیل میں نیل کمل کی طرح تیرتی ہوئی خوبصورتی سے کوئی بھی انسیت نہ تھی، نہ شام کے ڈھلتے رنگوں سے جو بنتے تھے اس جھیل کے کنارے، نہ صبح کے نکھرے رنگوں سے، نہ لہلہاتے کھیتوں سے، نہ چرواہے کی بکریوں سے، نہ بیل گاڑی کی ساز و آوازوں سے، نہ درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے دہقانوں کے بچوں سے، جو مٹی میں نہائے ہوتے تھے۔

مجھے کسی سے بھی انست نہ تھی، بس فلائنگ شاٹ سے تیتر مارنا، درجنوں کتوں کی بھونک سے بھڑک کے بالآخر سور کا فصلوں سے نکل آنا اور جیسے ہی سور باہر نکلے دو نالی بندوقوں سے جس میں ایس جی کارتوس پیوست ہوتے تھے ٹریگر دبا کر، اس سور کو لہولہان کردینا، یا اگر وہ زندہ مل جائے تو اس کو بھی اوطاق کے احاطے (Ground) میں اس نہتے سور کے اوپر بہت سارے کتے چھوڑ دینا۔ یا وہ ریچھ اور کتوں کی جینے اور مرنے کی لڑائی، یہ تھا وہ میں وحشی۔ یا رات کو آنگن میں آگ جلائے اپنے ہم عمر ماموں، چچا زاد بھائیوں کے ساتھ صرف اور صرف شکار کو سوچتا تھا۔

یہ میری ٹریننگ کا حصہ تھا تو اب دیکھ لیجیے کتنے سارے شکاری، کتنے سارے وحشی اس سندھ کے گرد و نواح میں رہتے ہوں گے۔ میں نے تو ان خیالوں سے غداری کی، اپنے شعور میں، میں نے اپنے وحشی پن کو موت دے دی۔ اس جھیل کے سارے کنول، سارے رنگ و موسم، اور وہ میری مٹی کے دہقان، اب جی چاہتا ہے کہ ان بچوں کے ماتھے کا بوسہ لوں، ان کو گلے لگاؤں، ان کے ساتھ بیٹھوں، کھیلوں، ہنسوں اور ہنساؤں۔

عرب شہزادے اس زمانے میں بھی آیا کرتے تھے۔ قطار در قطار لینڈ کروزر، جن میں سے کچھ میں پنجرے ہوتے تھے اور پنجروں میں ’’باز‘‘ بند ہوتے تھے۔ ان شہزادوں نے اپنے ثقافتی لباس اوڑھے ہوئے ہوتے تھے۔ ہم قدیم غلام ہیں، افغانوں کے، گھوڑوں کی چاپ، لشکر، سینے میں اترے تیر، یلغار، ہم غلام در غلام در غلام، اپنے لاشعور سے باہر نکل کر دیکھ نہیں سکتے۔

کیا ہوتا ہوگا اس ’’تلور‘‘ کے اندر؟ ایک پاؤ گوشت مرغی جیسا۔ گھر میں جب تیتر پکتا تھا اور کھانے کو ملتا تھا، اور وہ بھی اپنا شکار کیا ہوا تیتر، تو اس میں میرے بچپن کے وحشی کو بڑی لذت ملتی تھی، میرا سینہ غرور سے پھٹنے لگتا تھا اور جب سوچتا ہوں تو اس تیتر میں چکن کے گوشت جیسا ہی تو تھا سب کچھ۔ عرب شہزادے کو تلور کے گوشت سے بڑی انسیت ہے، وہ سمجھتے ہیں اور ان کی روایت ہے کہ تلور کا گوشت کھانے سے مردانگی اور بڑھتی ہے۔ اور بیچارے تلور کو یہ خبر بھی نہیں کہ اس کے گوشت میں کیا ہے کہ اس کے اتنے سارے قاتل بنے ہیں یہ عرب شہزادے۔

اب شہزادے جو ہوئے، اتنا سارا تیل ان کی زمینوں سے نکلتا ہے، یہ شکار کے لیے جیپ بھی آرڈر سے بنواتے ہیں کہ جیسے ہی تلور اڑے تو باز خود ہی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے گاڑی سے اڑے اور تلور پر جھپٹے اور جب باز اپنے پنجوں سے تلور کو جھپٹتا ہے تو وہ منظر دیکھ کر عرب شہزادوں کی روح کو تسکین ملتی ہے اور جو تلور پر گزرتی ہے، اس سے کسی کو بھی کوئی غرض نہیں۔

خالق کی بنائی ہوئی یہ مخلوق تلور، آج اپنے وجود کی طلبگار ہے، خالق کی بنائی ہوئی مخلوق سے۔ بنی نوع انسان کے شعور سے عرض گزار ہے، پاکستان کے آئین کے محافظوں سے عرض گزار ہے کہ اس گوشت میں ایسی کوئی چیز نہیں جس سے ان کے قاتلوں کی مردانگی میں اضافہ ہو، ان کے لیے عرض یہ ہے کہ بہتر ہوگا اگر وہ اپنا علاج کروائیں۔

یہ تلور بھی تو ان ہی فضاؤں میں رہتا ہے، سندھ کا باشندہ ہے کہ جب تک وہ اس کا مکیں ہے، اس کی حفاظت، اس کی آزادی ہم پر فرض ہے۔ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں ہے، یہ سب پھر جنونیت ہے، وحشت ہے، جبلت ہے۔ ن م راشد کی ایک سطر لبوں پر ٹھہر سی جاتی ہے:

’’آدمی کس سے مگر بات کرے‘‘

ہمارے سیاستدانوں میں عربوں سے علیک سلیک اگر کسی کی کم ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ تو پھر دیکھیے کہ ان عرب شہزادوں کو خیبرپختونخوا کے صوبوں میں تلور کے شکار کی اجازت نہیں ہے، بلکہ کسی بھی شکار کی اجازت نہیں ہے۔

ہماری سپریم کورٹ نے جب تلور کے شکار پر پابندی صادر کی تو ان کو پرمٹ تیتر کے شکار کے حوالے سے ملتی تھی۔ پرمٹ تیتر کی تھی، مارتے یہ تلور تھے۔ سندھ کے بڑے بڑے طرم خان وڈیرے عربوں کی مہمان نوازی کرتے۔ وہ یہاں ان کے پاس آتے ہیں اور یہ وہاں ان کے پاس جاتے ہیں۔ شکار کے بہانے یہاں جو کچھ ہوتا تھا ہمیں اس سے کوئی غرض یا شکایت نہیں، مگر تلور کو ذرا معاف کردیں کہ Endangered species ہے تو ذرا اس پر ’’نگاہ کرم‘‘۔ مجھے اپنے صحافتی حلقے پر بھی فخرہے کہ انھوں نے تلور کی وکالت میں بڑے شدومد سے خبریں لکھیں۔

پرندے کتنے خوبصورت ہوتے ہیں، کتنے حسن پرست ہوتے ہیں، کتنے امن پرست بھی، ماسوائے باز کے۔ وہ تو کوئی فریدالدین عطار سے پوچھے کہ اس کی مشہور اور طویل ’’مقامات الطیور‘‘ بارہویں صدی میں لکھی گئی، جو کہ یورپ کی زبانوں میں ترجمہ کی گئی، جس نے Goette سے لے کر بڑے بڑے مفکروں پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ خود قانون و آئین کا Egalitarian تصور ان پرندوں کے رہن سے متاثر شدہ ہے۔

تلور جس کا رنگ مٹی کی مانند ہے، جس کو سرتاج پرندہ کہا جاتا ہے، کل ملا کر دنیا میں کہتے ہیں کہ پچاس ہزار بھی نہیں ہیں، اور ہر سال پانچ ہزار کے لگ بھگ ان شکاریوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ اب ان شکاریوں کے ہاتھوں کو روکنا ہوگا۔ ان عرب شہزادوں کو پرمٹ دینا وزارت خارجہ کا سبجیکٹ نہیں، بلکہ صوبائی حکومتوں کا ہے اور صوبائی حکومتوںکو عوام، اپنی فضاؤں اور پرندوں کا محافظ بنتے ہوئے ایسے پرمٹ دینے سے اجتناب برتنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔