ہمارا عدالتی نظام اور طیبہ!

قیصر اعوان  اتوار 12 فروری 2017
جو باپ کچھ پیسوں کے عوض سات سال کی بیٹی سے کام کروائے کیا اُس کے پاس اتنے وسائل ہوںگے کہ وہ اُس عدالتی نظام کا مقابلہ کرسکے جو بڑوں بڑوں کو کنگال کردیتا ہے؟ فوٹو: فائل

جو باپ کچھ پیسوں کے عوض سات سال کی بیٹی سے کام کروائے کیا اُس کے پاس اتنے وسائل ہوںگے کہ وہ اُس عدالتی نظام کا مقابلہ کرسکے جو بڑوں بڑوں کو کنگال کردیتا ہے؟ فوٹو: فائل

طیبہ تشدد کیس عدالت میں ہے اور یقیناً بے گناہ اور قصوروار کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے، مگر عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی طیبہ کے والد نے مقدمہ کے نامزد ملزمان ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم اور اُن کی اہلیہ کو ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے معاف کردیا ہے کہ ملزمان پر بنایا جانے والا یہ مقدمہ بے بنیاد ہے۔ اُن کی 10 سالہ بیٹی پر ہونے والے تشدد کے ذمہ دار راجہ خرم یا اُن کی اہلیہ نہیں ہیں اور اگر وہ قصوروار ہیں بھی تو میں انہیں اللہ کے واسطے معاف کرتا ہوں۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک بار ملزمان کو اللہ کے واسطے معاف کرچکے ہیں مگر پھر سپریم کورٹ میں وہ اپنے بیان سے مُکر گئے تھے۔ اگرچہ وہ اپنے مُکر جانے کی وجہ دباؤ نہیں بتاتے مگر اکثریت اُن کا معاف کرنا کسی دباؤ یا خوف کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم اور اُن کی اہلیہ پہلے ہی اس سارے معاملے کو اپنے پڑوسیوں کی سازش قرار دیتے ہوئے طیبہ پر ہونے والے کسی بھی قسم کے تشدد میں اپنے ملوث ہونے سے انکار کرچکے ہیں ۔ راجہ خرم کا کہنا ہے کہ اُن کی اہلیہ ایک رحم دل خاتون ہیں اور اُنہوں نے کبھی اپنی اولاد اور طیبہ میں کوئی فرق نہیں سمجھا۔ طیبہ کو اُن کے گھر میں وہ سارے حقوق حاصل تھے جو اُن کے بچوں کو حاصل ہیں اِس لئے اُس پر تشدد یا اُسے جلانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے میں طیبہ کے والد کی جانب سے اُن کے بیانات کی تائید اور پھر فی سبیل اللہ معافی نے اِس کیس کو تقریباََ اپنے انجام تک پہنچادیا ہے۔

جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور یہ فیصلہ عدالت کو ہی کرنا ہے کہ ایڈیشنل جج اور اُن کی اہلیہ گناہ گار ہیں یا نہیں۔ یقیناً یہ فیصلہ گواہوں اور ثبوتوں کی روشنی میں ہی کیا جائے گا اور میں اِس پر کوئی تبصرہ کرکے اپنا نام گناہ گاروں کی فہرست میں درج نہیں کروانا چاہتا۔ مگر جھوٹ ہی سہی، چلیں کچھ دیر کہ لئے ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ یہ معاملہ بالکل اُسی طرح سے ہے جیسے میڈیا میں اُچھالا گیا تھا، یہاں تک کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اِس پر از خود نوٹس لینا پڑا تھا۔

فرض کریں کہ ایک جج چائلڈ لیبر ایکٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ایک سات آٹھ سال کی بچی کو اپنے لاڈلے کی دیکھ بھال کے لئے ملازم رکھ لیتا ہے، اُس معصوم کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر مارا پیٹا جاتا ہے، اُس کے جسم کو جلایا جاتا ہے، اُسے اپنی معصوم غلطیوں کی بھی بھیانک سے بھیانک سزا بُھگتنا پڑتی ہے مگر کوئی نہیں ہے جو اُسے قانون کی چھت کے نیچے ڈھائے جانے والے اس ظلم سے نجات دلا سکے۔ اُس کے اپنے تو کچھ پیسوں کے عوض پہلے ہی اُس سے بیگانے ہوچکے ہیں اور بیگانے بھی ایسے ہوئے ہیں کہ پلٹ کر خبر بھی نہ لی کہ بیٹی ہے کہاں؟ مگر جب کسی نہ کسی طرح سے یہ معاملہ عدالت میں پہنچ جاتا ہے اور سارے ثبوت جج اور اُس کی اہلیہ کے خلاف جارہے ہوتے ہیں اور جج اور اُس کی اہلیہ کا قانون کے شکنجے سے بچ نکلنا تقریباََ ناممکن دکھائی دینے لگتا ہے، ایسے میں کہیں سے بچی کا باپ آکر کہتا ہے کہ ملزمان بے قصور ہیں اوراگر وہ قصور وار بھی ہیں تو وہ انہیں اللہ کی رضا کے لئے معاف کرتا ہے۔

میرا یہاں پر ایک معصومانہ سوال ہے کہ وہ باپ جو کل کچھ پیسوں کے عوض اپنی کم سن بیٹی سے کام کروانے پر مجبور ہوگیا تھا کیا آج اُس کے پاس اتنے وسائل ہوں گے کہ وہ اُس عدالتی نظام کا مقابلہ کرسکے جو بڑوں بڑوں کو کنگال کردیتا ہے؟ کیا اُس کے پاس ملزموں کو معاف کرنے کے سوا کوئی چارہ تھا؟ کیا یہ نظام اتنا طاقتور ہے کہ بچی کے باپ سے پوچھا جاتا کہ تم نے تو اپنی بیٹی کو کچھ پیسوں کے لیے بیچ دیا تھا، اب تم کون ہوتے ہو اُس پر اپنا حق جتلانے والے؟ اُس پر ڈھائے جانے والے مظالم کی معافی دینے والے؟

اگر یہ نظام واقعی اتنا طاقتور ہوتا تو کل کٹہرے میں طیبہ کے والد کی جگہ چیف جسٹس آف پاکستان کھڑے ہوتے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم طیبہ کے وارث ہیں، پھر شاید پاکستان کی کوئی طیبہ لاوارث نہ رہتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔