مولانا روم کے رقاص

عبدالقادر حسن  اتوار 12 فروری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

میں نے ان دنوں اپنے پسندیدہ منظروں کی کچھ تصویریں دیکھی ہیں اور ان تصویروں نے مجھے بہت کچھ یاد دلا دیا ہے۔ موسم سرما کے ان دنوں میں ترکی کی کتنی ہی یادگاریں تاریخ کے جھروکوں سے ایک بار پھر جھانکتی ہیں۔ میں نے مولانا روم کے مرقد قونیہ میں اس مقام کی بھی زیارت کی ہے جس کے بارے میں بتایا گیا کہ یہی وہ دوراہا ہے جہاں مولانا روم اور ان کے درویش دوست کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔

اس نیم چوک اور دوراہے کو ’’مجمع البحرین‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یعنی دو سمندروں کی ملاقات کا مقام۔ مولانا کے مزار کے قریب ہی ان کے دوست کا مزار ہے۔ ایک اونچی سی قبر جس کے گرد خواتین کا ہجوم رہتا ہے۔ میں جب بھی حاضر ہوا تو بڑی مشکل سے خواتین کے ہجوم سے راستہ نکال کر اس قبر تک پہنچا۔

صاحب قبر کی تاریخ بتاتی ہے کہ مولانا کی جب اس درویش کے ساتھ اتفاقاً پہلی ملاقات ہوئی تو دونوں ہی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئے اور ان کے درمیان معرفت کا ایسا مکالمہ شروع ہوا کہ کئی دنوں تک اہل قونیہ کو ان کے مرشد مولانا روم دکھائی نہ دیے۔ دونوں کسی حجرے میں تنہا ہو کر بیٹھ گئے۔ ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔

تاریخ تصوف کی یہ ایک عجیب کہانی ہے کہ اہل قونیہ کی نظروں سے مولانا گم ہو گئے اور پورا شہر اس مدرسہ کے طلبہ سمیت جہاں مولانا درس دیتے تھے اپنے استاد اور مرشد کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا۔ پہلے تو اہل شہر ان دونوں کو ایک حجرے میں بند ایک ساتھ کلام کرتے ہوئے دیکھتے رہے لیکن پھر وہ دنیا کی نظروں سے گم ہو گئے۔

مولانا کے ترک مرید سخت پریشان ہو گئے اور انھوں نے اس درویش کو الزام دینا شروع کر دیا جس کے ساتھ ملاقات کے بعد مولانا اتنے بدل گئے کہ انھوں نے مدرسہ بھی چھوڑ دیا اور عقیدت مندوں سے ملاقاتیں بھی ترک کر دیں۔ اپنے علم وفضل کی وجہ سے عوام میں مل جل کر رہنے والے مولانا بالکل ہی بدل گئے اور دور دور تک ان کی تلاش شروع ہو گئی۔

سارا الزام اس درویش پر تھا جس کے ساتھ ملاقات کے بعد مولانا نے ترک دنیا کر دیا لیکن یہ کیفیت مختصر وقت کے لیے تھی لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ دونوں درویشوں کی ملاقات اس قدر طویل ہو گئی کہ وہ اپنے خیالات کی تاب نہ لا کر قونیہ سے چلے گئے۔ ان کے بے چین مریدوں کا ایک ہجوم بھی ادھر ادھر ان کی تلاش میں بکھر گیا اور جہاں سے بھی کوئی اڑتی ہوئی سی خبر ملی کہ یہ صوفی اب کہاں موجود ہیں تو لوگ ان کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔ تلاش کرنے والوں میں مولانا کے بیٹے بھی تھے۔ بات مختصر کرتے ہیں کہ بہت بعد میں کچھ پتہ چلا اور مولانا کا دوست درویش تلاش کر لیا گیا۔

دنیا کے مورخوں نے جن میں ظاہر ہے کہ سلسلہ تصوف کے متلاشیوں کی اکثریت تھی، تصوف کی دنیا میں تاریخ کے ایک نئے موضوع کی بنیاد رکھی اور مولانا کی اس ملاقات اور اس دوران ان کی گفتگو اور مباحثے کے بارے میں عالمی سطح پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع ہوا۔ لکھنے والوں میں جرمن مورخ این میری شمل سرفہرست ہیں لیکن مولانا کی عوام کی نظروں سے گم ہو جانے کی داستان بڑی حیرت انگیز ہے۔

مورخوں نے بہت کوشش کی اور کچھ نہ کچھ تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے لیکن کئی پہلو اب تک گم ہیں۔ مولانا کے دوست درویش کی قبر کو میں نے قونیہ میں دیکھا جہاں زائرین کا ایک ہجوم تھا۔ مولانا کے مقبرے کے قریب ہی اس قبر کو بڑی ہی عقیدت کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ مولانا کے یہ دوست بھی شہید کر دیے گئے تھے۔ ان دونوں دوستوں کی کہانی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ افسوس کہ میں دمشق نہ جا سکا جہاں کے ایک حجرے میں ان صوفیوں کا ڈیرہ تھا۔

میں دمشق کو جاتا رہا لیکن تب مجھے ان کے قیام کے مقام کا علم نہیں تھا۔ بعد میں جب پتہ چلا تو مجھے اپنی محرومی پر بہت دکھ ہوا۔ یہ ایک طویل کہانی ہے کہ مولانا اور ان کے دوست کہاں اور کس حال میں رہے اور سلوک ومعرفت کے کیا تجربے کیے۔ مولانا اور ان کے دوست کو ان کے عقیدت مند دمشق سے واپس لے آئے اور اب دونوں کے مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہیں اور یہ شہر ایک بڑی زیارت گاہ ہے جہاں دو بڑے صوفی آرام کر رہے ہیں۔

مولانا کے درویشوں کا ایک ہجوم جمع رہتا ہے اور ان زیارتوں کو ایک جذباتی انداز میں آباد رکھتا ہے۔ ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ترک سلطان سلیمان عالی شان جو بہت بعد کے زمانے میں تخت نشین ہوا تھا، اپنے بڑھاپے کے ایک دن اپنے وزیراعظم پیری پاشا سے ایک گفتگو میں کہنے لگے کہ پاشا ہم تو جانے والے ہیں، ہمارے بعد کی دنیا کیسی ہو گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ سلطان معظم انگورہ کی بکریاں اپنی اون کے ساتھ اور مولانا کے درویش اپنے رقص کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ مجھے تو آنے والی یہی دنیا دکھائی دے رہی ہے۔

سلطان جو دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کر چکا تھا، چپ ہو گیا اور کچھ دیر بعد لمبی سانس لے کر کہنے لگا پیری پاشا لگتا ہے یہی ہو گا۔ انگورہ کی بکریاں اپنی اون سے سردیوں میں جسم ڈھانپیں گی اور مولانا روم کے درویش اپنا ابدی رقص جاری رکھیں گے۔ کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے اور دسمبر کے یہ دن مولانا کی یاد منانے کے دن ہیں۔ قونیہ رقص کناں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔