مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا

شاہد سردار  اتوار 12 فروری 2017

ہر سال14 فروری کو منایا جانے والا ’’ویلنٹائن ڈے‘‘کرسمس کے بعد دنیا بھر میں منایا جانے والا دوسرا بڑا دن ہے، جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پھولوں، مٹھائیوں اوردیگر تحائف کا تبادلہ کرکے اپنی محبت کا اظہارکرتے ہیں اور اربوں ڈالر اس موقعے پرخرچ کیے جاتے ہیں۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ تہوار بنیادی طور پرکسی بھی معاشرے کی ثقافت کے امین ہوتے ہیں، جو اس معاشرے کی سوچ اورعمل کی عکاسی کرتے ہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ محبت ایک آفاقی اورقدرتی جذبہ ہے یہ بہرطورخدا کی طرف سے انسانی وجود میں ودیعت کیا جاتا ہے، لیکن محبت کے اظہار کوکسی خاص دن تک محدود نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے کسی خاص دن یا موقع تک مقید کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ محبت کی ہم سب کو ہمیشہ سے بے حد ضرورت ہے کیونکہ تقریباً سبھی انسان کسی نہ کسی مسئلے یا حوالے سے ڈپریشن کا شکار ہیں، ایسے میں پیار بھرے ماحول اور دلوں کی ہمیں ضرورت ہے۔

دنیا میں ہم سب سے زیادہ پیارومحبت اپنے بچوں سے کرتے ہیں اور اس ضمن میں یہ جملہ والدین کی طرف سے بہت ہی زبان زد عام چلا آ رہاہے کہ ’’ہم سب کچھ اپنے بچوں کی خاطر ہی توکررہے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انسانوں کو اپنے پالتو جانوروں سے بھی محبت ہوجاتی ہے اورپالتو جانوراگر بیمار ہوجائے یا کسی وجہ سے کھانا پینا چھوڑدے تو بندہ اس کی منت سماجت پر اترآتا ہے۔

اس معاملے میں شاید سب سے زیادہ بے بسی و لاچارگی اولاد کے حوالے سے محسوس ہوتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی کی محبت اگر فتنہ ہے تو وہ اولاد ہی کی ہے۔ اولاد کی محبت کے آگے جیسے پسپائی اختیارکی جاتی ہے، ہتھیار ڈالے جاتے ہیں، بے دست و پا ہوکے سرنگوں ہوا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی اورمحبت ایسی جنونی اتنی زور آور ہو؟

اولاد کی محبت کے بعد جس محبت کو طوفانی مانا گیا وہ فریق مخالف یعنی مرد و زن کی محبت ہے۔ شاعروں، ادیبوں اور فلاسفر کے نزدیک دنیا کے ہر جوگ کے پیچھے یہی اک محبت کا روگ ہی چھپا ہوتا ہے، یہی عشق کار فرما رہتا چلا آرہا ہے، ہر عذاب کے در پردہ اس پیارکے نشترکی کاٹ کا داغ ملتا ہے، ہر زخم کے پس منظر میں محبت تڑپتی اور رگوں میں دوڑتی ملتی ہے اور یہی محبت ہے جو ہوش مندوں کو دیوانہ، پاگل، سائیں، جوگی، مست یا جوگن بنادیتی ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ محبت انسان کو جہاں جینے کا قرینہ سکھاتی ہے وہیں اس کو بہت رسوا بھی کرتی ہے۔ اناء، خود داری،گھمنڈ، رعب و ادب سبھی کچھ مٹی کرکے رکھ دیتی ہے، ایک انسان کی دوسرے انسان سے محبت پر ہی کیا کہا، رشتوں سے کیا یہ تو چیزوں سے بہت ہوجائے تو خراج مانگتی ہے۔

واقعی محبت دنیا کا بڑا ہی عجیب جذبہ ہوتا ہے یہ ایک طرف تو آسمان کی اونچائیوں تک پہنچادیتا ہے۔ تو دوسری طرف زمین کی گہرائیوں تک لے جاتا ہے۔ اس لیے اہل دانش کے نزدیک کسی کا خیال، لحاظ یا عزت بلا شبہ محبت سے آگے کی چیز ہوتی ہے۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی عزت کرنا اپنا ایمان بنالیتا ہے، کیونکہ محبت کرنا در اصل حد سے زیادہ عزت کرنے اورکسی کو اپنی ذات سے زیادہ اہمیت دینے اور اپنے وجود کے اندر اتارلینے کے مترادف ہوتا ہے۔

اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ ایک متنازعہ اور محبت طلب دن کی حیثیت سے سنجیدہ حلقوں میں ڈسکس کیا جاتا ہے لیکن اس دن پر اعتراض کرنے والے کے جواب میں اہل محبت کا یہ کہنا ہے کہ روایت پرست یا حقیقت پسند چاہے لاکھ مرتبہ ’’یوم حیا‘‘ منائیں آخر میں جیت ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس دن کو ہمیں تنگ نظری سے نہیں دیکھنا چاہیے، ویسے بھی محبت کے اظہار کے سو طریقے ہوتے ہیں، ضروری نہیں کہ اس کا اظہار پھول یا دل دے کرکیا جائے۔ اس طرح تو پیارکو محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

محبت کے حوالے سے چاہے کسی بھی حلقے یا طبقے کو دلیلیں یا منطقیں پڑھ یا سن لیں ہمارے معاشرے کی اٹل حقیقت یہی ہے کہ محبت بالخصوص صنف مخالف کی محبت کوکوئی پسند نہیں کرتا اورنہ ہی اسے کرنے کی کوئی اجازت دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھرکے ’’ماڈل پارکس (ڈیٹ پوائنٹ) کی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ ساتھ کام کرنیوالے لڑکے لڑکیاں، انسٹیٹیوٹ میں پڑھنے والے اور والیاں ان پارکوں میں بیٹھے اپنے گھر والوں کو پس پشت ڈال کر خوابوں خیالوں کی دیگیں پکانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسکول میں اپنی ٹیچرکے عشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالب علم نے گزشتہ ہفتے عشق میں ناکامی پر خودکو اپنے والد کے پستول سے گولی مارکر خودکشی کرلی۔ ’’سوشل میڈیا‘‘ کے اس جدید دورکا یہ کمسن مجنوں ہمارے ارباب اختیار اوروالدین کے لیے بہت سے سوالات پیدا کرگئے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ پاکستان بھرکے اکثر اسکولوں اور کالجوں میں منشیات کا کھلا استعمال بھی اپنی جگہ ایک تازیانہ ہے اور تقریباً 76لاکھ سے زاید نئی نسل جن کی عمریں 22 سال تک کی ہیں اس فعل بد میں مبتلا ہیں۔کیا ہمارے اساتذہ اور بچوں کے والدین کی یہ ذمے داری نہیں بنتی کہ نئی پود کے مستقبل کی تربیت کرنی ہے جو ملک کی آبادی کا 50 فی صد سے زیادہ ہے۔ یہ کیسی محبت، کیسی تربیت، کیسا فرض، کیسی توجہ یا کیسا چیک اینڈ بیلنس ہے جس پر کسی قاعدے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔

کاش ہمارے والدین یا بچوں کے سرپرست یہ جان سکیں کہ ان کے بچے سوشل میڈیا کا حصہ بن کر اسے منفی طریقے سے استعمال کررہے ہیں۔ والدین آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی اولادیں رات رات بھر سوتی نہیں اور انٹرنیٹ اور موبائل ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے دن رات عشق و محبت کی داستانیں رقم کرنے میں مصروف ہیں۔کیا کبھی ہمارے حکمرانوں نے سوچا کہ ترقی یافتہ اور ماڈرن دنیا کے شہری ہونے کا جو تصور ہم دے رہے ہیں وہ نہ صرف ہماری نئی نسل بلکہ پورے معاشرے اورخاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے کا سبب بنا ہوا ہے۔

پہلے لوگوں کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں نہیں ہوتی تھیں لیکن وہ اپنی دانش سے وقت کی آواز سننے پر قدرت رکھتے تھے۔ افسوس آج ڈگریاں رکھنے کے باوجود اس صلاحیت سے تہی داماں ہوگئے ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ جب دلوں میں میل، طبیعت میں ضد اور لفظوں میں مقابلہ آجائے تو یہ تینوں جیت جاتے ہیں اور رشتے ہار جاتے ہیں اور بد قسمتی سے ہمارے اکثر گھرانوں کے کرتا دھرتا اسی ہارے ہوئے لشکر میں شمار قطارکیے جاتے ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ ہمارا آج کا معاشرہ عدم برداشت اور آدم بیزاریت کا معاشرہ ہے۔ ہرکوئی ایک دوسرے سے کٹ کر اپنے وجود کو درپیش مسائل کے خول میں مقید ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سگے انسانی رشتے ناتے سبھی کو وقت نے ایسی مصنوعی زندگی گزارنے پر مجبورکردیا ہے جس میں سبھی کچھ ہے سکون نہیں صرف اضطراب ہی اضطراب ہے لہٰذا سماجی طور پر پسماندہ، دروغ گو، منافقت اور صلح کاری سے بوجھل اس جامد معاشرے سے کسی خیر یا تعمیری بات کی توقع عبث ہی ہوگی۔

باعثِ صد احترام میں وہ لوگ اور قدرو منزلت کے اہل بھی کہے جاسکتے ہیں، ایسے وجود جو انسانیت سے بلا تعصب پیارکرتے ہیں اوراپنی خوشیاں بانٹ کر دوسروں کو بھی خوش رکھتے ہیں۔ ہم سبھی پیار محبت کے حقیقی مفہوم ومعنی کی سمجھ لیں، اسے فقط ایک دن تک محدود نہ کریں۔ ویسے بھی نفرتیں بانٹنے، تفرقے پھیلانے اور تشدد پر اُکسانے والوں کی جگہ محبت بانٹنے کی ثقافت کو پھیلانے میں ہی قومی بھلائی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔