ہمارے لوگ مرتے جارہے ہیں

اوریا مقبول جان  پير 13 فروری 2017
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بانو آپا کے انتقال کو ابھی چند روز ہوئے تھے کہ سہیل احمد عزیزی کا مسیج آیا کہ افتخار فیروز امریکا میں انتقال کرگئے۔ نئی نسل اس نام سے بھی آشنا نہیں۔ اس لیے کہ امریکا اور مغرب کے ہاتھوں بکے ہوئے حکمرانوں اور دولت کی ہوس میں لتھڑے ہوئے ضمیر فروش کاروبار زدہ سرمایہ داروں نے مغرب سے ایک ایسے نظام تعلیم کا زہر آلود پودا یہاں کاشت کیا جس نے اپنے زیر سایہ پلنے والی نسلوں کو ماضی سے برگشتہ اور ماحول سے متنفر کردیا۔ او لیول اور اے لیول کے نصاب میں تعلیم پانے والوں کو کیا خبر کہ اس خطے کی شاعری، ادب، فنون لطیفہ اور حسن بیان کیا ہوتا ہے۔

اس قوم میں تقریر کا فن اسقدر کمال کی پذیرائی رکھتا تھا کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری پوری پوری رات تقریر کرتے اور مجمع پر سحر طاری رہتا۔ اسی فن کو تعلیمی اداروں نے ایک روایت کے طور پر اپنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کالجوں میں اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات ہوا کرتے تھے۔ اس ملک پر جو آج سیاسی قیادت درمیانے طبقے سے وجود میں آئی ہے وہ انھی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات سے ابھر کر سامنے آئی تھی۔

ضیاء الحق کے اس ملک پر مظالم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات پر پابندی لگادی۔ساٹھ اور ستر کی دہائیاں‘یہ وہ زمانہ تھا جب ملک بھر کے کالجوں میں بہار کے موسموں میں آل پاکستان انٹرکالجیٹ مباحثے، مذاکرے اور مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ ان مباحثوں کے مقرر پورے ملک کے کالجوں میں ہیروز کی طرح پہچانے جاتے تھے۔

ہر کالج کی ایک ٹیم ہوتی تھی جو ان بہار کے موسموں میں پشاور سے لے کر کراچی تک منعقد ہونے والے مباحثوں اور مذاکروں میں شرکت کرتی۔ افتخار فیروز وہ تن تنہا ہیرو اور فن خطابت کا شہسوار تھا کہ جس کی موجودگی کسی بھی کالج کے مباحثے کو ممتاز بنا دیتی۔ وہ تمام مقرر جو اس مقابلے میں شرکت کے لیے دیگر کالجوں سے آئے ہوئے، اس کی تقریر کو ہمہ تن گوش ہوکر سنتے، نہ کسی میںحسد ہوتا نہ رقابت۔ اس زمانے کے مقررین میں افتخار فیروز کے ہم رقاب اور ہم عصر فن خطابت کی ایک کہکشاں آباد تھی۔

تنویر عباس تابش، نعمت اللہ چوہدری، سید محمود ضیغم، عاشق کنگ، پیپلزپارٹی والے غضنفر گل، سپریم کورٹ والے اکرم شیخ اور ایسے کئی بلا کے سحر انگیز مقرر۔ ہم ان سے چند سال جونیئر تھے۔ جس سال میں نے ان مباحثوں میں حصہ لینا شروع کیا افتخار فیروز اور اس کے ساتھیوں کا آخری سال تھا۔ وہ سال میں نے ان لوگوں کے  فن خطابت کو یوں سنا جیسے لحن داؤدی سے ادا ہونے والے الفاظ  اڑتے ہوئے پرندے مبہوت ہوکر سنتے تھے۔

افتخار فیروز تقریر میں میرا ہیرو تھا۔ وہ بولتا تو سناٹا چھا جاتا۔ میں اسے دور سے دیکھتا، ایسے جیسے کسی قدآور عمارت کو دیکھاجاتا ہے۔ ایک ہلکی سی شناسائی جو ان مباحثوں کے درمیان میسر آئی ہے وہ میرا سرمایہ تھی۔ لیکن یہ کیا کہ جب مدتوں بعد مجھے ملا تو اس قدر محبت سے گلے لگایا اور کہا میں تمہاری تحریر کے جادو کا شکار ہوں۔ تم بولتے ہو تو میں ہمہ تن گوش ہوجاتا ہوں۔ پھر ایک دن پنجاب یونیورسٹی میں اقبال کے حوالے سے ایک تقریب میں ان کا ساتھ میسر آگیا۔ وہ جسے میں ایک بلند و بالا عمارت کی طرح حیرت سے دیکھا کرتا تھا۔

میرے ساتھ ایک ساتھی مقرر کے طور پر بیٹھا تھا۔ لیکن میرا اشتیاق آج بھی ویسا تھا۔ میں اس کی آواز کی کھنک اور لہجے کی گرج کو ایک بار پھر سننا چاہتا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ عالم تقریر میں لب کشا ہوا تو میں سالوں پیچھے اس ماحول میں گم ہوگیا جو آج بھی یاد کے دریچوں سے جھانکتا ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔

ابھی افتخار فیروز کے صدمے سے سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ حکیم ڈاکٹر آفتاب قریشی صاحب کے موبائل سے میسج آیا۔ کھولا تو انھی کے موبائل سے ان کے انتقال کی خبر تھی۔ پاؤں تلے سے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ ابھی تو بہت کچھ ان کے ساتھ کرنا تھا۔ ان سے وعدہ تھا کہ سرکاری ملازمت کے خاتمے کے بعد رہنے کو ایک گھر بنانا ہے پھر آپ کے ساتھ لوگوں کو آپ کے علم سے فائدہ پہنچانا ہے۔

بلا کے آدمی تھے آفتاب قریشی صاحب۔ گجرات میں میرے استاد تھے احمد حسن قریشی، جنھیں مخطوطات جمع کرنے کا شوق تھا۔ اس وقت بھی ان کے پاس لاکھوں نایاب مسودات کا خزانہ ہے۔ یہ ان کے بھتیجے تھے، لیکن میری ملاقات ان سے ٹھیک چالیس سال بعد ہوئی جب میں تین سالہ پائپ پینا چھوڑ کر طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوا۔ تمباکو چھوڑو تو ایسا لگتا ہے گھر سے کوئی آسیب نکلا ہے اور پھر پتہ چلتا ہے کہ کتنا نقصان کرکے گیا ہے۔

آفتاب قریشی صاحب 1950ء میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ڈاکٹری کے پیشے سے وابستہ تھے کہ ایک دن ان کے بچے کو گردوں کی سوجن کا مرض ہوگیا۔ بہت مہنگی دوائیاں تھیں جن کا خرچہ اٹھاتے اٹھاتے گھر تک بک گیا۔ ایک دفعہ قرآن پاک کی تلاوت کررہے تھے کہ حاشیہ میں مولانا اشرف علی تھانوی نے کسی ایسی دوا کا ذکر کیا تھا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جڑی بوٹی سے تیار کرنے سے بنائی تھی جو اس مرض میں اکسیر ہوتی ہے۔ جاکر پنسار سے وہ دوا خریدی اور بچے کو کھلائی۔ آرام آگیا۔

اپنی ایم بی بی ایس کی ڈگری ایک طرف پھینکی اور ہمدرد کے بانی حکیم سعید کے پاس حاضر ہو گئے اور کہا کہ آپ مجھے جڑی بوٹیوں کی پہچان بتائیں گے اور میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی حکمت و دانائی سے علاج کروں گا۔ چالیس سال حکیم سعید کی معیت میں گزارے اور پھر جب 17 اکتوبر 1998ء کو جب انھیں شہید کردیا گیا تو کراچی اور کراچی والوں سے دل اس قدر متنفر ہوا کہ چھوڑ کر لاہور آگئے۔

لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں آکر آباد ہوئے۔ دوا خود تیار کرتے، عرق بناتے،بخارات اڑتے، کوٹنے کی دھمک آتی، محلے والوں نے شکایت کی کہ یہ شخص علاقے میں آلودگی پھیلاتا ہے۔ وہاں سے کوچ کیا اور نہر کے کنارے جلو پارک کے نزدیک ایک گھر میں آکر آباد ہوگئے۔ بڑے بڑے سیاست دان، بیوروکریٹ اور جرنیل ان کے سامنے باادب دوا لینے کے لیے کھڑے رہتے۔

میرے ساتھ محبت کا ایسا رشتہ قائم ہوا کہ سیدھا اپنے بیڈروم میں بلالیتے اور گھنٹوں اٹھنے نہ دیتے۔ کہتے میرے ساتھ ایک وعدہ کرو، جب سرکاری نوکری ختم ہو تو پانچ ایکڑ زمین لے کر اس پر میں نے جڑی بوٹیاں اگانا ہیں۔ ان میں ایک ایسی بوٹی ہے جو برص یعنی پھلبہری کا علاج ہے۔ پھر لوگوں کو مفت تقسیم کرنا ہے۔ میں نے وعدہ کرلیا۔ لیکن جس دن میں نے گھر مکمل کیا، اسی دن وہ خود کومہ میں چلے گئے۔ ایک ایسا شخص جو اپنی گفتگو سے دکھ بانٹتا تھا اور اپنے علاج سے فیض پہنچاتا تھا، مرنے سے پہلے ہی خاموش ہوگیا۔

ڈاکٹر دلدار سوئٹزر لینڈ میں متبادل طب Alternate Medicine کے ماہر ہیں اور انھوں نے وہاں حجامہ کو متعارف کروایا۔ میرے کہنے پر فیصل آباد میں بہت بڑا کلینک کھول چکے تھے۔ وہ یہاں ادویات کی ایک بہت بڑی فیکٹری لگانے کو تیار تھے جس میں طب نبویؐ اور آفتاب قریشی صاحب کی ادویات عام انسانوں کو تقسیم کی جائیں۔ آفتاب قریشی صاحب یقینا عالم ارواح میں ہمیں دیکھ کر مسکرا رہے ہوں کہ سست اور کاہل لوگوں کے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ لیکن ہمارے پاس تو ان کے چلے جانے کا دکھ ہی بہت ہے۔

ان دونوں اموات سے ایک ماہ قبل ایک اور نیک روح اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ ایران جانے سے پہلے میں لاہور کے مشہور ہومیوپیتھک ڈاکٹر عبدالرحمن کے پاس علاج کے لیے گیا۔ یہ وہ ڈاکٹر جن کی کتابیں جرمنی میں پڑھائی جاتی ہیں۔ میں دوا ایران لے کر چلاگیا، لیکن خبر ملی کہ وہ انتقال کرگئے۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک دن ایک ڈاکٹر صاحبہ ان کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے میرے پاس آئیں۔ کہا میں نے اپنے خاوند کی کتاب ان کے نوٹس سے مکمل کی ہے اور آپ کو صدارت کرنا ہے۔ میں نے پوچھا میرا نام ذہن میں کیسے آگیا۔ کہنے لگیں ڈاکٹر صاحب نے خواب میں آکر بتایا۔ میں نے کہا پھر میرا نسخہ بھی ان کی فائلوں میں موجود ہوگا۔ ڈھونڈا تو مل گیا۔

یونیورسٹی میں نفسیات پڑھاتیں اور شام کو ڈاکٹر عبدالرحمن کے دیے گئے علم سے کلینک کرتیں۔ خود بھی جرمنی سے پڑھ کر آئیں۔ ایک دھن تھی کہ ہومیو پیتھک علاج کا ایک اسپتال بنایا جائے۔ کالج روڈ پر تعمیر شروع کروائی۔ میرے مرشد ان سے دوا لیتے اور خاص دعا فرماتے۔ اور کہتے وہ بڑے روحانی مقام پر فائز ہیں۔ اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ کہتیں یہ اسپتال بن گیا تو ڈاکٹر صاحب کی روح کس قدر خوش ہوگی۔ لیکن شاید ڈاکٹر صاحب کی روح کو تو ان سے ملنے کی بہت جلدی تھی۔ جون ایلیا کا شعر یاد آتا ہے  ؎

کوئی روکے یہاں وسعت اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جارہے ہیں

نوٹ:سود کے متبادل نظام کی تشکیل اور نفاذ کی جدوجہد کے لیے قائم العلم ٹرسٹ کی وسعت کے لیے اسے ایک بہتر عمارت میں منتقل کیا گیا ہے۔ صاحبان خیر اس کے کرایے میں اس پتے پر اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

M/S AL-ILM TRUST  FOUNDATION

Ac.NO=0019-0981-004100-01-5

SWIFT CODE:BAHLPKKA

Bank Al Habib Limited

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔