- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
- کراچی: ڈکیتی کا جن قابو کرنے کیلیے پولیس کا ایکشن، دو ڈاکو ہلاک اور پانچ زخمی
- کرپٹو کے ارب پتی ‘پوسٹربوائے’ کو صارفین سے 8 ارب ڈالر ہتھیانے پر 25 سال قید
- گٹر میں گرنے والے بچے کی والدہ کا واٹر بورڈ پر 6 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ
- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
موذی امراض کی شناخت کیلیے چپ پر ڈاؤن لوڈ ہونے والی تجربہ گاہ
کیلیفورنیا: اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے صرف ایک چھوٹی سی چپ پر پوری تجربہ گاہ بنائی ہے جس کا سرکٹ باآسانی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔
صرف چند روپوں میں بنائی جانے والی یہ چھوٹی سی تجربہ گاہ جیب میں سماسکتی ہے جو ٹی بی، کینسر اور ملیریا کی شناخت کرسکتی ہے۔ اسے رحیم اسفندیار پور اور ان کے ساتھیوں نے بنایا ہے جو اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے شعبہ طبی تحقیق سے وابستہ ہیں۔
رحیم اسفند یار کے مطابق اگر آپ کے پاس انٹرنیٹ اور پرنٹر ہے تو آپ اس چپ کو کہیں بھی اور کسی بھی جگہ استعمال کرکے مرض کی شناخت کرسکتے ہیں، اس ٹیکنالوجی کا مقصد غریب اور پسماندہ علاقوں میں جان لیوا امراض کی بروقت تشخیص کرنا ہے۔
چپ پر سلیکان سے خانے بنائے جاتے ہیں جس میں نمونہ ٹیسٹ کے لیے رکھا جاتا ہے اور ایک چپ رکھی جاتی ہے جو باربار استعمال ہوسکتی ہے۔ پوری الیکٹرانک پٹی چھاپی جاسکتی ہے جو پولی ایسٹر سے بنی ہوتی ہے۔ انک جیٹ پرنٹر اور نینو ذرات والی سیاہی سے پورا سرکٹ ایک سادہ پٹی پر نقش کیا جاسکتا ہے اور اس میں صرف 20 منٹ لگتے ہیں۔
جب پٹی میں سے الیکٹرک چارج گزارا جاتا ہے تو خلیات (سیلز) اپنے برقی خواص کی بنا پر الگ الگ ہوجاتے ہیں جس سے ماہرین خلیات کو جداگانہ طور پر شناخت کرسکتے ہیں۔ اس طرح سرطانی رسولیوں (ٹیومر) کے خلیات کو باآسانی الگ کیا جاسکتا ہے اور کئی طرح کے کینسر کو ابتدا میں ہی شناخت کیا جاسکتا ہے۔
اسفند یار نے مزید بتایا کہ اگر ماہرین کو نمونے کے خلیات کو الگ کرنے کے بجائے ان کا شمار کرنا ہو تو اس کے لیے دوسری پٹی استعمال کی جاسکتی ہے جس کا سرکٹ تھوڑا مختلف ہوگا، آپ ایک پٹی کمپیوٹر پر بنا کر اسے چھاپ سکتے ہیں اور مستقبل میں اس کا ایک ڈیٹابیس امراض کی شناخت کو مزید آسان کرے گا۔
دیگر ماہرین نے اس ایجاد پر خوشی کا اظہار تو کیا ہے لیکن اسے مزید بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مائیکروچپ ٹیسٹ کسی بھی طرح باضابطہ تجربہ گاہ کی جگہ نہیں لے سکتا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔