موذی امراض کی شناخت کیلیے چپ پر ڈاؤن لوڈ ہونے والی تجربہ گاہ

ویب ڈیسک  بدھ 15 فروری 2017
جیبی تجربہ گاہ پر کینسر، ملیریا اور ٹی بی کی شناخت کرنے والا نظام بنایا گیا ہے۔
بشکریہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی

جیبی تجربہ گاہ پر کینسر، ملیریا اور ٹی بی کی شناخت کرنے والا نظام بنایا گیا ہے۔ بشکریہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی

کیلیفورنیا: اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے صرف ایک چھوٹی سی چپ پر پوری تجربہ گاہ بنائی ہے جس کا سرکٹ باآسانی ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔

صرف چند روپوں میں بنائی جانے والی یہ چھوٹی سی تجربہ گاہ جیب میں سماسکتی ہے جو ٹی بی، کینسر اور ملیریا کی شناخت کرسکتی ہے۔ اسے رحیم اسفندیار پور اور ان کے ساتھیوں نے بنایا ہے جو اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے شعبہ طبی تحقیق سے وابستہ ہیں۔

رحیم اسفند یار کے مطابق اگر آپ کے پاس انٹرنیٹ اور پرنٹر ہے تو آپ اس چپ کو کہیں بھی اور کسی بھی جگہ استعمال کرکے مرض کی شناخت کرسکتے ہیں، اس ٹیکنالوجی کا مقصد غریب اور پسماندہ علاقوں میں جان لیوا امراض کی بروقت تشخیص کرنا ہے۔

چپ پر سلیکان سے خانے بنائے جاتے ہیں جس میں نمونہ ٹیسٹ کے لیے رکھا جاتا ہے اور ایک چپ رکھی جاتی ہے جو باربار استعمال ہوسکتی ہے۔ پوری الیکٹرانک پٹی چھاپی جاسکتی ہے جو پولی ایسٹر سے بنی ہوتی ہے۔ انک جیٹ پرنٹر اور نینو ذرات والی سیاہی سے پورا سرکٹ ایک سادہ پٹی پر نقش کیا جاسکتا ہے اور اس میں صرف 20 منٹ لگتے ہیں۔

جب پٹی میں سے الیکٹرک چارج گزارا جاتا ہے تو خلیات (سیلز) اپنے برقی خواص کی بنا پر الگ الگ ہوجاتے ہیں جس سے ماہرین خلیات کو جداگانہ طور پر شناخت کرسکتے ہیں۔ اس طرح سرطانی رسولیوں (ٹیومر) کے خلیات کو باآسانی الگ کیا جاسکتا ہے اور کئی طرح کے کینسر کو ابتدا میں ہی شناخت کیا جاسکتا ہے۔

اسفند یار نے مزید بتایا کہ اگر ماہرین کو نمونے کے خلیات کو الگ کرنے کے بجائے ان کا شمار کرنا ہو تو اس کے لیے دوسری پٹی استعمال کی جاسکتی ہے جس کا سرکٹ تھوڑا مختلف ہوگا، آپ ایک پٹی کمپیوٹر پر بنا کر اسے چھاپ سکتے ہیں اور مستقبل میں اس کا ایک ڈیٹابیس امراض کی شناخت کو مزید آسان کرے گا۔

دیگر ماہرین نے اس ایجاد پر خوشی کا اظہار تو کیا ہے لیکن اسے مزید بہتر بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ مائیکروچپ ٹیسٹ کسی بھی طرح باضابطہ تجربہ گاہ کی جگہ نہیں لے سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔