کمپیوٹر آپ کے گلے کا دمکتا ہار بن سکتا ہے

عبد الطیف ابو شامل / اشرف میمن  اتوار 6 جنوری 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 کمپیوٹر، جس کے کی بورڈ پر آپ کی انگلیاں محو رقص ہیں، جس کا اسکرین آپ کا مرکز نگاہ ہے۔

جو آپ کا ہم راز ہوگیا ہے، تنہائی کے لمحات کا ساتھی اور آپ کا غم گسار ہوگیا ہے، جس نے آپ کو اپنا اسیر بنالیا ہے، جس نے آپ کے لیے دنیا بھر کو اپنے اندر قید کرلیا ہے، نت نئے فیشن، خبریں، موسیقی، فلمیں، گپ شپ، لطیفے، علمی مباحث، عجائبات عالم اور نجانے کیا کیا۔ آپ کے ہر سوال کا جواب اور آپ کی ہر الجھن کی سلجھن، ہر مسئلے کا حل، اس نے آپ کو اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔ یہ طلسم ہوش ربا، دل کش و دل ربا، جامِ جمشید اور جادو کا چراغ، جسے چھیڑتے ہی آپ کے سامنے وہ چشم ما روشن دل ماشاد کہتا ہوا پکارنے لگتا ہے، حکم کیجیے! میں حاضر ہوں۔

ہم درد ہم دم کمپیوٹر، آپ کا یار بیلی، سجن سہیلی بنا آپ کے سنگ ہے۔ ہر روز یہ نئے انداز سے نازک حسینہ کی طرح اپنا آپ بدلتا ہے۔ نت نئے رنگوں سے سجتا، سنورتا اپنے اندر دور جدید کی ہر خبر کو سمیٹتا رہتا ہے۔ دیکھیے ناں، پہلے یہ کتنا وزنی اور حجم میں کتنا بڑا تھا، آپ اسے ساتھ نہیں لے کر جاسکتے تھے۔ پھر اس نے خود کو سِلم اور سمارٹ کیا اب تو یہ آپ کی ہتھیلی پر ہے۔ ہر وقت آپ کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے ہوئے۔ بات کڑوی کسیلی ضرور ہے، پر ہے تو سچ ناں کہ آپ اس کی رفاقت سے بور ہوجاتے ہیں، یہ بور نہیں ہوتا، آپ تھک جاتے ہیں، یہ نہیں تھکتا، آپ سو جاتے ہیں یہ نہیں سوتا، یہ تو آپ کے لیے ہمہ وقت تیار و حاضر ہے۔ آپ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ پھر بھی آپ کو کچھ نہیں کہتا بلکہ گر بتاتا ہے، ایسے نہیں یوں کیجیے۔ دوست ہو تو ایسا ناں۔ کیا کہتے ہیں آپ؟

ہر شے کو فنا ہے یاں کوئی بھی ہو فنا کا جام اسے پینا ہی پڑتا ہے۔ کمپیوٹر بھی مرجاتا ہے، لیکن ذرا رکیے۔ یہ مرنے کے بعد بھی آپ کے کام آتا ہے، یہ آپ کے گلے کا ہار بن جاتا ہے۔ آپ کے کانوں کے بندے بالیاں، آپ کی انگلیوں کی زیب و زینت انگوٹھیاں، آپ کے ناک کا لونگ، آپ کی کلائی کا بریسلٹ اور ہاں آپ کے پاؤں کی چھن چھن کرتی پازیب بھی۔ نہ جانے کیا کیا۔ یہ کمپیوٹر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا، ہاں یہ کمپیوٹر۔ مت پریشان ہوں ایسا ہی ہے جیسا ہم کہہ رہے ہیں۔ اس کمپیوٹر نے دنیا کو آپ کے قدموں میں لاپھینکا ہے۔ آپ سیر کرنا چاہتے ہیں اس کے کچھ بٹن دبائیے اور پہنچ جائیے اس جگہ۔ یہ آب کے جہاز اڑا رہا ہے، ٹرینیں چلا رہا ہے، ہوٹل اور دفاتر چلا رہا ہے، یہ ہر فن مولا کمپیوٹر جو آپ کو چیلینج دے کر بیٹھ گیا ہے کہ اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے۔

یہ اپنے اندر سونا، چاندی، پلاٹینیم اور تانبا چھپائے بیٹھا ہے جناب۔ یاد کیجیے آج سے چار دہائی قبل جب اس کا باقاعدہ استعمال شروع ہوا تھا، ترقی یافتہ ممالک اپنے پرانے کمپیوٹر تیسری دنیا کو عطیہ کردیتے تھے اور پھر پاکستان، بنگلادیش، ہندوستان، سری لنکا جیسے ممالک وہ پرانے کمپیوٹر لے آئے تھے اور تاجر حضرات وہ خرید لیتے تھے۔ اب تک ایسا ہی ہوتا ہے، بحری جہاز پرانے کمپیوٹر کا انبار اٹھائے آتے ہیں اور یہاں انہیں اسکریپ کیا جاتا ہے، ابتدا میں پرانے کمپیوٹر خریدنے کے بعد ان میں سے تانبا، پیتل اور سلور ہی نکالا جاتا تھا، پھر وہ پرزہ جات جو درست حالت میں ہوتے تھے وہ فروخت کردیے جاتے تھے، انسان ہر وقت حالت تجسس میں رہا ہے، اس کام میں بھی جدت اور نت نئے تجربات ہونے لگے اور پھر انکشاف ہوا کہ ان میں سونا چاندی اور پلاٹینیم بھی ہوتا ہے۔

کمپیوٹر سسٹم میں CPU ہوتا ہے، پرانے CPU میں IC’s، ٹرانسسٹرز ہوتے ہیں، وہ الگ کرکے باقی کو کچرا سمجھ کر اونے پونے فروخت کردیا جاتا تھا۔ پھر کچھ لوگوں نے اسی کچرے پر تجربات شروع کیے اور سونا چاندی پلاٹینیم دریافت کیے، کمپیوٹر کے مدر بورڈ میں پِنوں کے جیک ہوتے ہیں اور ان پر سونے کا پانی چڑھا ہوتا ہے، اسی طرح IC کے اندر بھی سونے چاندی اور پلاٹینیم کی آمیزش ہوتی ہے، مدر بورڈ پر ایک IC جو چوکور ہوتی ہے، جسے عام زبان میں گرین IC کہا جاتا ہے، اگر ان گرین IC’s کو جمع کیا جائے تو ایک کلو IC’s میں سے 4 گرام سونا نکلتا ہے، ان پرزہ جات میں سونا چاندی پلاٹینیم کا استعمال ناگزیر ہوتا ہے، کوئی اور دھات ان پرزوں کو پائے دار اور کارآمد نہیں بناسکتی۔ ان اشیاء میں سے سونا چاندی پلاٹینیم کو الگ کرنا اتنا آسان نہیں ہے، یہ ایک بہت مشکل اور محنت طلب کام ہے۔

سب سے پہلے زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا بنایا جاتا ہے، اس گڑھے کے اندر گوبر کی راکھ اور چونے کے آمیزے سے ایک پیالہ بنایا جاتا ہے جسے ’’اڈا‘‘ کہتے ہیں۔ اڈا بنانے کے بعد اس میں ایک دھات ’’سکّہ‘‘ ڈال کر چاروں طرف کوئلے دہکائے جاتے ہیں، جس سے سکّہ مائع بن کر ابلنے لگتا ہے، پھر اس سکّے میں وہ IC’s ڈال دی جاتی ہیں، جب وہ تمام اس ابلتے ہوئے سکّے میں مل جاتی ہیں تو اسے مزید پکایا جاتا ہے، جب وہ بالکل سرخ لاوے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، تب اس میں سے کچھ ناکارہ دھاتیں تو بھاپ بن کر اڑ جاتی ہیں اور کارآمد دھاتیں رہ جاتی ہیں۔

پھر اسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے، ٹھنڈا کرنے پر وہ ایک گول پلیٹ کی شکل میں بن جاتی ہے، جسے ’’چکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس پلیٹ نما چکی میں سونا، چاندی، پلاٹینیم اور تانبا ہوتا ہے۔ سب سے اہم کام اس چکی میں سے ان دھاتوں کو الگ کرنا ہوتا ہے، اس چکی کو اسٹیل کی ٹرے میں رکھ کر پانی سے اچھی طرح دھویا جاتا ہے، اسٹیل کی ٹرے اس لیے استعمال کی جاتی ہے کہ اسٹیل کو سوائے نمک کے کوئی اور کیمیکل نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس چکی کو اس لیے بھی دھویا جاتا ہے کہ اس میں سے مٹی کی تہ اتر جائے، پھر اس صاف چکی کو ٹرے میں رکھ کر اس پر شورے کا تیزاب ڈالا جاتا ہے، جس سے وہ چکی پھر مائع میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پھر اس میں پانی ملایا جاتا ہے، جس سے سونے کے ذرات اسٹیل کی ٹرے کی تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں، یہاں ایک اہم بات آپ کو بتاتے چلیں کہ سونا وہ واحد قدرتی دھات ہے جسے کوئی بھی کیمیکل ہمیشہ کے لیے مائع نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ سونے کے ذرات دو تا تین بار مختلف کیمیکلز سے دھوئے جاتے ہیں تاکہ سونے میں کوئی اور دھات ہو تو علیحدہ ہوجائے۔ سونے کے ذرات کو ایک تھالی میں رکھ کر اسے کوئلوں پر رکھ دیا جاتا ہے۔

جب وہ ذرات ابلنے لگتے ہیں تو اسے اتار کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے، جس کے بعد وہ سونے کی ٹھوس شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ باقی بچی ہوئی چکی میں چاندی، تانبا اور پلاٹینیم رہ جاتا ہے۔ اس مائع میں نمک ملایا جاتا ہے جس سے اس مائع کی شکل دودھ کی طرح ہوجاتی ہے اور چاندی کے ذرات پھٹ کر علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ چاندی کے سفید ذرات میں تانبے کی ایک پلیٹ ڈالی جاتی ہے۔ اس تانبے کی پلیٹ پر چاندی کے ذرات چپک جاتے ہیں، بعد میں اس پلیٹ سے چاندی کے ذرات کو اتار کر بھٹی میں پکایا جاتا ہے، جس سے چاندی بھی ٹھوس شکل میں آجاتی ہے۔

چاندی کو علیحدہ کرنے کے لیے ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ اس محلول میں نمک کا تیزاب ڈال دیا جاتا ہے، جس سے چاندی پھٹ کر نیچے بیٹھ جاتی ہے، پھر اسے باریک کپڑے سے چھان کر الگ کرلیا جاتا ہے، پھر ان ذرات کو کوئلے پر رکھ کر مائع اور پھر ٹھنڈا کرکے ٹھوس شکل میں الگ کرلیا جاتا ہے، باقی بچے ہوئے محلول میں پلاٹینیم اور تانبا رہ جاتا ہے، پلاٹینیم کو علیحدہ کرنے کے لیے ایک اور کیمیکل ڈالا جاتا ہے، جو تانبے سے پلاٹینیم کو ریت کے ذرات کی شکل میں الگ کردیتا ہے اور پلاٹینیم کے ذرات دوبارہ تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں، پھر ان ذرات کو بھی کوئلے پر ابالا جاتا ہے، پلاٹینیم پہلے مائع اور پھر ٹھوس شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آخر میں مذکورہ محلول میں صرف تانبا رہ جاتا ہے، جسے علیحدہ کرنے کے لیے لوہے یا بیڑھ کی پٹی اس محلول میں ڈال دی جاتی ہے، جس سے تانبا اس لوہے کی پٹی سے چپک جاتا ہے اور بعدازاں اسے بھی بھٹی پر پکاکر تانبا الگ کرلیا جاتا ہے۔

یہ خالص سونا 24 قیراط کا ہوتا ہے، چاندی، تانبا اور پلاٹینیم بھی خالص ہوتے ہیں، جنہیں مارکیٹ میں سونے کے تاجر خرید لیتے ہیں۔ ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا ناں کہ کمپیوٹر آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ یہ آپ کے گلے کا ہار، بندے، بالیاں، بریسلیٹ، پازیب بن کر آپ کے سنگ رہتا ہے۔ یہ ہے آپ کا سجن بیلی کمپیوٹر، ساتھ نہیں چھوڑتا ناں یہ آپ کا؟ روپ بدل بدل کے آپ کے سنگ رہتا ہے۔ میرے سامنے ایک شعر ناچ رہا ہے۔ نہ جانے حسب حال ہے بھی کہ نہیں۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے:

ہم روح سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آجائیں گے ہم لوگ
٭ ڈسکوری چینل کی فلم بندی
اِس کاروبار سے منسلک اعجاز نامی ایک ماہر اِس کاروبار پر بننے والے ایک ڈاکومینٹری کا ذکر کرتے ہیں:
’’کراچی یونیورسٹی کے کچھ طلباء و طالبات اور ان کے ساتھ کچھ غیرملکی بھی تھے، وہ سب لوگ تین دن تک ہمارے پاس آتے رہے اور انہوں نے ہمارے کام کو فلم بند کیا تھا۔ انہوں نے ہم سب سے بہت تفصیلی گفتگو بھی کی تھی، ہم جس طریقۂ کار پر کام کرتے ہیں وہ بغور دیکھا تھا، اور پھر وہ پوری ڈاکومینٹری ’ڈس کوری‘ چینل سے دکھائی گئی تھی۔‘‘

٭ پاکستان سے کاروبار ختم ہورہا ہے
کمپیوٹر کے مدر بورڈ سے لے کر موبائل فون کے سرکٹ، ٹرانسسٹر میل فی میل کنیکٹر، اب یہ سب کچھ یہاں سے بیلجیئم جارہا ہے اور وہاں ان سے سونا چاندی نکالا جارہا ہے، ہم جس طریقے سے سونا، چاندی اور پلاٹینیم وغیرہ علیحدہ کر رہے ہیں، اس میں یہ دھاتیں زیادہ ضائع ہوجاتی ہیں۔ بیلجیئم میں یہ سارا کام جدید ترین مشینوں پر سائنسی اصولوں کے مطابق ہورہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہاں کے تاجر اپنا مال انہیں فروخت کر رہے ہیں، پاکستان میں یہ کام اب کم ہوتا جارہا ہے۔ آج سے 8 سال قبل جو اسکریپ 15 روپے کلو ملتا تھا، باہر جانے کی وجہ سے 750 روپے کلو ملنے لگا ہے، مدر بورڈ، ہارڈ ڈسک، کارڈ1200 روپے، ریم 1600 روپے کلو اور موبائل کارڈ 3400 روپے میں فروخت ہورہا ہے، اب تو سرکٹ اور کارڈز کا کچرا بھی جسے پہلے بے کار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے 80 روپے کلو میں ملتا ہے۔

٭ حاجی یوسف سنار کی دریافت
1982 میں جب پاکستان میں بحری جہاز گڈانی کی بندرگاہ پر لاکر توڑے جاتے تھے اور شپ بریکنگ کی صنعت عروج پر تھی، اس وقت حاجی یوسف جو حیدر آباد میں سنار تھے، انہوں نے اسکریپ میں سونا چاندی اور پلاٹینیم دریافت کیا تھا۔ اس وقت کمپیوٹر کا اتنا استعمال نہیں تھا، لیکن جو بحری جہاز گڈانی میں توڑتے جاتے تھے، ان میں ریڈار اور دیگر مواصلاتی رابطے کی مشینیں، جہاز بجلی کے بریکر اور کنیکٹر ہوتے تھے، ان میں جو تاریں استعمال ہوتی تھیں اور بورڈ پر جو پرزے نصب کیے جاتے تھے ان پر سونے کا پانی استعمال کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں حاجی یوسف نے یہ دریافت کیا اور وہ یہ کام کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ راز کھل گیا اور دیگر لوگ بھی یہ کام کرنے لگے۔ پھر کمپیوٹر آگیا اور نئے آلات آگئے جس سے اس کام میں جدت آگئی۔

٭ صحت پر مضر اثرات اور ان کا تدارک
اس کام میں صحت کو شدید خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ تیزاب کا دھواں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے، اس سے دمہ ہوجاتا ہے، ٹی بی اور کینسر جیسی مہلک بیماریاں بھی ہوجاتی ہیں، لیکن انسان اپنی صحت کا خیال رکھے اور حفاظتی اقدامات کرے تو ان بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر سے مختلف دھاتیں نکالنے کا کام کرنے والے کاری گر کہتے ہیں کہ ہم اپنی صحت کی حفاظت کے لیے دیسی نسخے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم کھانے میں گڑ کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔ اس سے سینہ صاف رہتا ہے، ہم بناسپتی گھی کے بجائے دیسی گھی اور دودھ کو اپنی خوراک کا حصہ بناتے ہیں، ہمیں بھٹی کے سامنے بیٹھنا پڑتا ہے جس میں آگ دہک رہی ہوتی ہے اس سے انسانی جلد کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے، گرمیوں میں یہ کام بہت مشکلات پیدا کرتا ہے ہم اس وقت لیموں، ستّو اور لسّی کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔

٭اوزار‘ کیمیلز اور دھاتیں
(1) اڈا جسے گوبر کی راکھ اور چونے سے بنایا جاتا ہے
(2) کھٹالی
(3) مسنی
(4) آکڑی
(5) چمٹا
(6) لکڑی کے گٹکے
(7) ریزہ۔ (مائع سونا، چاندی کی سلاخ بنانے کا سانچا)

٭دھاتیں
(1) پلاٹینیم
(2) سونا
(3) چاندی
(4) تانبا
(5) بیڑھ

٭کیمکلز
(1) شورے کا تیزاب
(2) گندھک اور شورے کا آمیزہ
(3) نمک

٭ اصل کمائی تو مالکوں کی ہے
کاری گر کہتے ہیں کہ ہم تو مزدوری کر رہے ہیں، اتنی محنت کر رہے ہیں اس میں اصل کمائی تو ان لوگوں کی ہے جن کا مال ہم ریفائن کرکے دیتے ہیں۔ جن اشیاء میں سونا، چاندی ہوتا ہے مالک ہمیں تول کے دے دیتا ہے، ہم فی کلو 500 روپے مزدوری لیتے ہیں اور انہیں یہ دھاتیں الگ کرکے دے دیتے ہیں، آپ کہیں گے کہ 500 فی کلو تو مناسب ہیں، ایسا نہیں ہے، ہم جگہ کا کرایہ، کیمیکلز، مزدوروں کی دیہاڑی، بجلی پانی کا خرچ، ایندھن سب کچھ خود خریدتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کتنی مہنگائی ہے، بس گزارہ ہی ہے۔

٭پرانے کمپیوٹر سے نکالی جانے والی اشیاء کی قیمتیں
سونا 61700 روپے فی تولہ
چاندی 1050 روپے فی تولہ
خام تانبا 1650 روپے فی کلو
سولڈر 370 روپے فی کلو
ٹرانسسٹر 380 روپے فی کلو
کیپسٹر 5 روپے فی عدد
وائر 650 روپے فی کلو
ٹانکا 950 روپے فی کلو
دیگر آلات جن کے پرزہ جات سے سونا چاندی کشید کیا جاتا ہے۔
کنڈیکٹر، بریکر، ریل، پینل، بورڈ، ایکسرے مشین، سی ٹی اسکینر، ریڈار سسٹم، الٹرا ساؤنڈ مشین، موبائل کارڈز

٭ تاریخ خاموش ہے۔۔۔
ماہرین متفق ہیں کہ کسی بھی اختراع یا ڈیوائس کے بارے میں حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کمپیوٹر کی پہلی شکل تھی۔ ایک معنوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس ضمن میں تاریخ خاموش ہے۔
اس خاموشی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپیوٹر کی تعریف تاریخ اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہی۔ مثلاً کئی اختراعات جنھیں ماضی میں کمپیوٹر تسلیم کیا جاتا تھا، وہ دور جدید کے کمپیوٹر کے معیار پر کسی طور پوری نہیں اترتیں۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ماضی میں ’’کمپیوٹر‘‘ کی اصطلاح ایک ایسے شخص کے لیے استعمال کی جاتی تھی کہ جو حساب کتاب رکھ سکتا ہو۔ اکثر وہ شخص یہ عمل کسی ریاضیاتی اختراع مثلاً ’’حساب گر (کیلکولیٹر) یا کسی اور بنیادی پیمایشی آلے وغیرہ کی مدد سے کرتا تھا۔
گزرے وقتوں میں کچھ ایسے آلات استعمال کیے جاتے رہے، جنھیں ہم کمپیوٹر کی ابتدائی شکل، یا اس کی جانب پیش رفت کا ایک پڑائو کہہ سکتے ہیں، مگر آج ہم انھیں کمپیوٹر کہنے سے اجتناب برتتے ہیں کہ ان میں کوئی programmable طرز نہیں تھی۔

ماہرین کی بڑی تعداد متفق ہے کہ کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی جولاہا اور تاجر، Joseph Marie Jacquard کی 1801 میں بنائی ہوئی Jacquard loom کو تاریخ کی پہلی programmable اختراع ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ گنتی سکھانے والا چوکھٹا (گنتارا)، پیمایش کے لیے استعمال ہونے والا Slide rule اور گتے میں سوراخ کرنے والی مشین بھی اس فہرست میں رکھی جاسکتی ہے، مگر یہ تمام اپنے طریقۂ کار کے لحاظ سے آج کے کمپیوٹر سے خاصی مختلف تھیں، اِسی وجہ سے یہ تقریباً ناممکن ہے کہ کسی ایک کمپیوٹر کو دنیا کا پہلا کمپیوٹر کہا جاسکے دعمل ظاہر کرتا ہے۔
ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ اپنی حیران کن رفتار، ناقابل یقین رسائی اور عالم گیر اثرات کے باوجود کمپیوٹر خود کار طور پر منطق کا اطلاق نہیں کرسکتا، یعنی یہ سوچنے سے قاصر ہے۔ یہ کسی انسان کی ہدایت پر پیچیدہ ترین حسابی عمل کو، خود میں موجود پروگرام کے مطابق، لمحے کے ہزارویں حصے میں مکمل کرسکتا ہے، مگر خود میں انسٹال کردہ پروگرام سے باہر نکل کر، کسی نئے اور آسان زاویے سے اس حسابی عمل کے حل کے لیے کوئی آسان طریقہ وضع نہیں کرسکتا، جب کہ انسان سونپی جانے والی ذمے داری کو سہل طریقے سے انجام دینے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔

٭ پہلا پروگرامر کون؟
’’سوفٹ ویئر‘‘ یا ’’کمپیوٹر پروگرام‘‘ ترتیب دینے والا ’’پروگرامر‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ بحث ایک طویل عرصے سے جاری ہے کہ دور جدید میں استعمال ہونے والے کمپیوٹرز کا پہلا پروگرامر کون تھا۔
اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے، مگر بیش تر ماہرین، اس بیسویں صدی کی ایجاد کو پروگرام کرنے کا کریڈٹ ایک ایسی خواتین کو دیتے ہیں، جس کا انتقال 1852 میں ہوگیا تھا۔ یہ فقط 36 برس کی زندگی پانی والی ایڈا لولیس کا ذکر ہے، جس نے دسمبر 1815 میں معروف برطانوی شاعر جارج گورڈن بائرن کے گھر آنکھ کھولی۔ انیسویں صدی کی نام وَر محقق اور سائنسی موضوعات پر کئی کتابوں کی مصنف، میری سمرولے کے توسط سے جون 1833 میں ایڈالولیس شہرت یافتہ ریاضی داں، فلسفی، موجد اور مکینکل انجینئر، چارلس بیبج سے متعارف ہوئیں جو ان دنوں ایک ہاتھ سے چلنے والے ایک کمپیوٹر ’’ ڈفرینس انجن‘‘ پر کام کر رہے تھے، جس نے ایڈا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اس مشین کا سحر انھیں چارلس کے قریب لے گیا۔ چارلس اس نوجوان لڑکی کی صلاحیتوں سے بہت متاثر تھے۔

1842 میں بیبج کو اٹلی کی ٹیورن یونی ورسٹی میں اینالیٹیکل انجن پر منعقد کیے جانے والے سیمینار میں شرکت کرنے کی دعوت دی گئی۔ سیمینار کے بعد ایک نوجوان اطالوی انجینیر اور مستقبل کے وزیراعظم Luigi Menabre نے بیبج کا لیکچر فرانسیسی زبان میں تحریر کیا، جو اکتوبر 1842 میں جنیوا یونی ورسٹی کے تعلیمی جریدے میں شایع ہوا۔ بیبج نے ایڈا سے کہا کہ وہ اس مضمون کو انگریزی میں ترجمہ کردیں۔ ایڈا نے مضمون کو انگریزی کے قالب میں ڈھالنے کے علاوہ اس کے ساتھ اپنی رائے اور تجاویز پر مشتمل نوٹس بھی نتھی کردیے جن کی طوالت اصل مضمون سے بھی زیادہ تھی۔ اس پورے عمل میں نو ماہ سے زاید عرصہ صرف ہوا۔ یہ نوٹس The Ladies’ Diary اور Taylor’s Scientific Memoirs میں شایع ہوئے۔ ایڈا نے اپنی تحریر میں یہ واضح کیا کہ ’’اینالیٹیکل انجن‘‘ اصل ’’ڈفرینس انجن‘‘ سے کس طرح مختلف تھا۔ ایڈا کی موت کو ایک صدی گزرجانے کے بعد، 1953 میں بیبج کے اینالیٹیکل انجن کے بارے میں ان کے تحریر کردہ نوٹس دوبارہ شایع کیے گئے۔ بیبج کا پہلا مکمل انجن لندن میں 2002 میں تیار کیا گیا اور اس میں ایڈا کے وضع کردہ طریقے کی کام یابی سے آزمائش بھی کی گئی۔

آج ان ہی نوٹس کی بنیاد پر ایڈا کو دنیا کی اولین کمپیوٹر پروگرامر اور ان کے وضع کردہ طریقے کو دنیا کا پہلا کمپیوٹر پروگرام قرار دیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔