نمونیا سے متعلق آگاہی کیلئے روزنامہ ایکسپریس اور جی ایس فارما کے تحت سیمینار کا انعقاد

طفیل احمد  ہفتہ 5 جنوری 2013
سیمینار میں طبی ماہر اورپاکستان پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے پروفیسر اقبال میمن اورسیف دی چائلڈ پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر نند لال نے نمونیا اور بچوں میں کان کے انفیکشن کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ فوٹو : فائل

سیمینار میں طبی ماہر اورپاکستان پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے پروفیسر اقبال میمن اورسیف دی چائلڈ پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر نند لال نے نمونیا اور بچوں میں کان کے انفیکشن کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ فوٹو : فائل

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں بچوں کی 19فیصد اموات نمونیا کی وجہ سے ہورہی ہیں۔

دنیا بھر ہر سال ایک کروڑ بچے نمونیا میں رپورٹ ہوتے ہیں، پاکستان میں ہر4میں سے ایک بچے کی موت کی وجہ نمونیا ہے، پاکستان میں سالانہ 45لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں ان میں سے60فیصد بچوں کی اموات گھروں میں ہوتی ہے جو مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، معصوم بچوں کی اموات پر قابو پانے اور بچوں کو تمام بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حفاظتی ویکسی نیشن انتہائی ضروری ہے، نمونیا سے متعلق آگاہی کے لیے روزنامہ ایکسپریس اورجی ایس کے فارما کے اشتراک سے ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔

جس میں ممتاز طبی ماہر اورپاکستان پیڈیاٹرکس ایسوسی ایشن کے پروفیسر اقبال میمن اورسیف دی چائلڈ پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر نند لال نے نمونیا اور بچوں میں کان کے انفیکشن کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی جبکہ سیمینار میں ایکسپریس کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ اظفر نظامی، کامران احمد جنرل مارکیٹنگ اور جنید فریدی سینئر منیجر مارکیٹنگ سمیت دیگر بھی موجود تھے۔

پروفیسر اقبال میمن نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ 5سال سے کم عمر بچوں میں جان لیوا مرض نمونیا ہوتا ہے جس کی 5بنیادی علامات ہوتی ہیں، جب بچہ کراہنا شروع کرے تو والدین کو چاہیے فوری توجہ دیں جبکہ سانس لینے میں سٹی کا نکلنا، بچے کا نڈھال ہونا، بخار، نزلہ کھانسی کے ساتھ جھٹکے لگنا اور بچہ کی پسلی چلنا شدید نمونیا کی علامات ہوتی ہیں، ایسی صورت میں بچے کو ہنگامی بنیادوں پر مستند ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، انھوں نے کہا کہ گھروں میں سگریٹ نوشی کرنے سے بچوں اور اہلخانہ کی صحت شدید متاثر ہوتی ہے۔

سگریٹ کا دھواں اور بو 24گھنٹے تک گھر میں رہتی ہے، انھوں نے کہا کہ ایک سگریٹ سے 43اقسام کے زہریلے مادے نکلتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 5سال کی عمر کے نمونیہ سمیت مختلف بیماریوں سے مجموعی طور پر سالانہ 5لاکھ35ہزار بچے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ان میں سے صرف نمونیہ سے 90ہزار بچے جاں بحق ہوجاتے ہیں، انھوں نے کہا کہ نمونیہ کے مرض میں 22لاکھ بیکٹیریا کے ساتھ وائرس بھی ہوتے ہیں، پروفیسر اقبال میمن نے کہا کہ پاکستان میں نمونیہ سمیت سالانہ 108ملین بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ۔

ان کے علاج پر والدین کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں جبکہ ان کروڑوں روپے کو بچایا جاسکتا ہے، انھوں نے کہاکہ بچوں کو نمونیہ سے بچائو سمیت دیگر بیماریوں خناق، پولیو، تشنج، ہیپاٹائٹس، سمیت دیگر بیماریوں سے بچائو کی حفاظتی ویکسین کرائی جائے، انھوں نے کہا کہ نمونیہ سے بچائو کی حفاظتی ویکسین پاکستان میں بچوں کے قومی حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام میں پہلی بار شامل کی گئی ہے، نمونیا کی پہلی ویکسین کی پیدائش کے پہلے6ہفتے دو سرا انجکشن 10تیسراانجکشن14ہفتے میں لگایا جاتا ہے جس کے بعد بچہ نمونیا کے مرض سے محفوظ ہوجاتا ہے، انھوں نے بتایاکہ نمونیا کی ویکسین میں دیگر بیماریوں کی بھی ویکسین شامل ہے ۔

انھوں نے کہا کہ نمونیا پاکستان میں عام مرض ہے، ہر چار بچوں میں سے ایک کی موت کی وجہ یہی بیماری ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق ہر سال نمونیہ کے10ملین کیس سامنے آتے ہیںجبکہ نمونیا سے سالانہ پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً دو ملین بچوں کی موت واقع ہوتی ہے، اس طرح ہر روز5,500بچے اس مرض کی وجہ سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ یہ مرض ہر15سیکنڈ بعد ہم سے ایک بچہ چھین لیتا ہے، پوری دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے ہر پانچ میں سے ایک بچے کی موت کی وجہ نمونیا ہوتا ہے۔

پروفیسر اقبال میمن نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کے نمونیہ میں مبتلا ہونے کے150ملین کیسز سامنے آتے ہیں۔ جو پوری دنیا میں سامنے آنے والے کیسوں کا 95فیصد سے بھی زیادہ ہیں۔ بعض صورتوں میں خسرہ اور کالی کھانسی جیسی بیماریاں پیچیدہ ہونے کے بعد نمونیا کا باعث بن سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جن بچوں میں ایچ آئی وی ہے ان کے منفی ایچ آئی وی بچوں کے مقابلے میں’’نیمو کوکل‘‘ بیماری میں مبتلا ہونے کے40گنا زیادہ امکانات ہوتے ہیںاوراس بات کا بھی زیادہ خطرہ ہوتا ہے کہ ان پر وہ اینٹی بائیوٹکس اثر نہ کریں جو اس بیماری میں دی جاتی ہیںان کا جسم ان دوائوں کے خلاف مزاحمت کی قوت پیدا کر لیتا ہے۔

نمونیا کے مریضوں اور اس مرض سے مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعدادترقی پذیر ملکوں میں ہے۔اگر ترقی یافتہ دنیا میںاس بیماری سے ایک بچہ جاں بحق ہوتا ہے توترقی پذیر ملکوں میں اس کا تناسب 2000سے بھی زیادہ ہے۔ پروفیسر اقبال میمن کا کہنا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق نمونیا سے98فیصد اموات جنوبی ایشیا اور افریقہ کے سب صحارا ملکوں میں ہوتی ہیں۔ زیادہ شرح اموات والے ملکوں میں نموکوکل بیماریوں سے مرنے والے بچوں کا تناسب ایک فیصد ہے اس طرح اگر پوری دنیا میں پیداہونے والے بچوں کو شمار کیا جائے تو یہ انفیکیشن پوری دنیا میںبچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

عالمی ادارہ ء صحت(WHO)کے تخمینے کے مطابق ہر سال پوری دنیا میں نموکوکل مرض سے پانچ سال سے کم عمر کے ایک ملین بچے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ IPDاورAOMدونوں صحت عامہ کے مسائل ہیں جو خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔IPD Disease Monograph GSK Invasive Pneumococcal Disease (IPD)بدستور جان کے لیے خطرہ ہے تاہم Otitis{Media (OM)بھی تواتر کے ساتھ بچوں کو لاحق ہونے والی عام بیماری ہے۔ عالمی ادارہ ء صحت کا کہنا ہے کہ اس سے بچنے کی واحد صورت ویکسینیشن ہے۔اس کا IPDپر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے،اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کی سطح کم ہوتی ہے اور اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت بھی کم ہوتی ہے۔ S.pneumoniae۔۔دونوں قسم کی،حملہ کرنے والی اور غیر حملہ آوربیماریوں بشمول نمونیہ،مینن جائٹس اورotitismediaکا سبب بنتا ہے۔ پروفیسر اقبال میمن نے کہا کہ یہ بات اطمینان بخش ہے کہ حکومت پاکستان نے2012کی آخری سہ ماہی میں اینٹی نمونیا ویکسین کو اپنےEPIپروگرام میں شامل کر لیا۔

انھوں نے بتایا کہ نمونیا پھیپھڑوں کا انفیکشن ہے جو پھیپھڑوں میں ایک خاص قسم کا پانی بھر دیتا ہے جس سے کھانسی ہوتی ہے،بخار آتا ہے اور سانس لینے میں مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔شدید کیفیت میں یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پوری دنیا میں نمونیا سے پانچ سال سے کم عمر بچوں کی پچاس فیصد سے زیادہ اموات کی وجہ نموکوکس اور Hibجیسے بیکٹریا ہیں۔ وائرس اور fungiجیسے بعض دوسرے مختلفorgasmsبھی نمونیا کا باعث بن سکتے ہیں۔

پانچ سال سے کم عمر کے بچے، خاص طور سے جن کی عمر ابھی دوسال نہیں ہوئی نمونیا کے شدید خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔جبکہ تمباکو نوشی اور چار دیواری کے اندر کثیف ماحول بھی نمونیہ کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ وہ بچے اور بالغ افراد جوHIV/AIDsجیسی بیماریوں کا شکار ہیں آسانی سے نمونیا کا شکار ہو کر جان گنوا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کم غذائیت کا شکار بچے، اپنے کمزور مدافعتی نظام کی وجہ سے خطرے کی زد میں ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں ہر سال کم عمر بچوں کے نمونیا میں مبتلا ہونے کے 150ملین کیس سامنے آتے ہیں جن میں سے 11ملین کو اسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔بیماری اور اسپتال میں داخل رہنے کی وجہ سے غیر ضروری مسائل پیدا ہوتے ہیں۔اس سے علاج معالجے،دوائوں اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات کا بوجھ پڑتا ہے۔

ممتاز طبی ماہر ڈاکٹر نند لال نے بچوں میں کان کے انفیکشن کے حوالے سے بتایا کہ نوزائیدہ کو پہلے6ماہ تک صرف ماں کا دودھ ہی پلانا چاہیے، ماں کا دودھ میں قدرتی طو رپر وٹامنز سے بر پور ہوتا ہے اور بچہ کی قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتا ہے، انھوں نے کہاکہ ماں کا دودھ بچے کو لیٹا کر نہیں پلانا چاہیے، بوتل سے دودھ پلانے سے بچے مختلف سنگین نوعیت کے انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں،انھوں نے بتایا کہ بچوں میں سانس کے امراض میں ہولناک اضافہ ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے کان 6ماہ سے18ماہ کے دوران کان کے انفیکشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بار بار بیمار ہونیوالے بچوں کی ذہنی نشونما اور زندگی شدید متاثر ہوجاتی ہے اور بڑے ہوکر ان کی تعلیم پر منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں، ڈاکٹر نند لال نے بتایا کہ بار بار کان میں انفیکشن ہونے سے بچوں کی سماعت بھی شدید متابر ہوتی ہے، بچوں میں نارمل بخار ہونے کی صورت میں غیر ضروری اینٹی بائیٹک سے گریز کیا جائے کیونکہ بچوں میں غیر ضروری اینٹی بائیٹک دوائیں دینے سے قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے، اگر بچہ زیادہ بیمار نہ ہو تو اینٹی بائیٹک سے گریز کیاجائے۔

صرف ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی بائیٹکدوا دینی چاہیے، انھوں نے بتایا کہ بچوں میں نمونیہ اور کان کے انفیکشن میں نمونیہ کی حفاظتی ویکسین انتہائی مفید ہے بچوں کو پیدائش کے فوری بعد حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس کرائیں تاکہ ہمارے بچے ان بیماریوں سے محفوظ رہیں، ان کا کہنا تھا کہ نمونیہ 5سے 65سال تک کے افراد کو متاثر کرسکتا ہے، حفاظتی ویکسین لگوانے سے بچے ان امراض سے محفوظ رہ سکتے ہیں، انھوں نے کہا بچوں کو مناسب غذا، قوت مدافعت کو بڑھا کر اور ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھ کے اس مرض سے بچایا جاسکتا ہے، انھوں نے کہا کہ علاج سے بہتر احتیاط ہوتی ہے بچوں کو نمونیہ سے بچائو کی ویکسین لازمی دینی چاہیے جس سے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

ڈاکٹر نند لال نے کان کے درمیانے حصے کا انفیکشنAcute Otitis Media سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بچوں کو لاحق ہونے والی ایک بہت عام بیماری ہے اور اگر توجہ نہ دی جائے تو اس سے بہرے پن اور بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو جانے جیسی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایسی ویکسینز دستیاب ہیںجو نہ صرف نمونیا بلکہ کان کے درمیانی حصے کے انفیکشن کیخلاف بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں۔

مرض کی روک تھام اور علاج کے حوالے سے انھوں نے مفصل طور پر آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ نمونیا صحت کے عالمی مسائل میں سب سے زیادہ قابل تدارک مسئلہ ہے۔جبکہ ویکسینز کے وسیع استعمال اور اینٹی بائیوٹکس تک رسائی کو بہتر بنا کرسالانہ ایک ملین سے زیادہ بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نمونیا کا علاج عام طور پراینٹی بائیوٹکس سے کیا جاتا ہے۔

تاہم سانس کے انفیکشن کے علاج معالجے کے لیے ان دوائوں کو مسلسل بہت زیادہ تجویز کرنے کی وجہ سے اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا ہو رہی ہے۔ نمونیا کو لاحق ہونے سے پہلے ہی روکنے کیلیے ویکسینز کا استعمال ایک محفوظ اور موثر طریقہ ہے۔ ویکسینز،جان کیلیے خطرہ بننے والے نموکوکس نمونیہ کے دو اہم اسبابStreptococcus pneumonia اور Haemophilus influenzae b (Hib)کیخلاف استعمال کی جاتی ہیں۔

پروگرام کے شرکا نے بچوں کی صحت کے حوالے سے روزنامہ ایکسپریس کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے معلومات پروگراموں کے ذریعے گھر بیٹھے ایک عام آدمی کو بھی بچوں کی صحت کے حوالے سے شعور فراہم کیا جاسکتا ہے خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں جہاں بچوں کی بیماریوں میں بنیادی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے ہی کئی گنا اضافہ ہوتا جارہا ہے، شرکا کا کہنا تھا کہ روزنامہ ایکسپریس کو اس طرح کے معلوماتی سیمینار کا انعقاد تواتر کے ساتھ کرنا چاہیے، آخر میں میزبان نے پروفیسر اقبال میمن ، ڈاکٹر نند لال اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔