گر ِم برادرز:جنہوں نے جرمن الف لیلہ ٰ مرتب کی

محمد اختر  اتوار 6 جنوری 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 ہم میں سے اکثر نے ’’سنڈریلا‘‘، ’’مینڈک شہزادہ‘‘، ’’ہینسل اینڈ گریٹل‘‘،’’لٹل ریڈ رائیڈنگ ہڈ‘‘ ، ’’ سنو وائٹ اور سات بونے‘‘ جیسی یورپی کہانیاں پڑھ رکھی ہوں گی۔

یہ یورپی کہانیاں اصل میں جرمنی اور سکینڈے نیویا کے خطے کی لوک کہانیاں ہیں جو وہاں پر دادیاں نانیاں اور دیگر بزرگ اپنے بچوں کو صدیوں سے سناتے آئے ہیں۔ان کو جرمن الف لیلہ بھی کہا جاتا ہے۔ سترھویں صدی میں دو جرمن بھائیوں کو خیال آیا کہ وقت کے ہاتھوں ناپید ہونے سے بچانے کے لیے کیوں نہ ان تمام کہانیوں کو جمع کیا جائے اور ان کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا جائے۔

ان دونوں جرمن بھائیوں کو دنیا ’’گرم بردارز‘‘ The Brothers Grimm کے نام سے جانتی ہے اور ان کا پورا نام جیکب لڈوگ کارل گرم Jacob Ludwig Carl Grimm اور ولہیم لڈوگ کارل گرم تھا۔ بڑا بھائی جیکب گرم چار جنوری 1785 کو پیدا ہوا ‘ وہ ولہیم سے تیرہ ماہ بڑا تھا۔ دونوں بھائی جرمنی کے قصبے ہنائو میں پیدا ہوئے۔ان کا باپ فلپ ولہیم گرم ایک جج تھا جبکہ ماں ڈوروتھیا گرم عرف زمر، کیسل سٹی کے ایک بااثر شخص کی بیٹی تھی۔

گرم برادرز کا خاندان 1791 میں سٹینائو کے دیہاتی علاقے میں منتقل ہوگیا جہاں ان کے والد فلپ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے طور پرکام کرتے تھے۔ان کا خاندان ایک بڑے گھر میں رہتا تھا اور علاقے میں نمایاں حیثیت کا مالک تھا۔ان کے سوانح نگار جیک زائپس کا کہنا ہے کہ گرم برادران دیہاتی زندگی سے بہت خوش تھے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر میں نجی اساتذہ سے حاصل کی اوراس کے بعد انھیں مقامی اسکول میں داخل کرایا گیا۔

گرم برادرز کے والد فلپ کی 1796 میں نمونیا کے باعث غیرمتوقع موت نے ان کے خاندان کو بے شمار مالی مسائل سے دوچار کردیا۔زندگی کی خوشیاں خزائوں سے دوچار ہوگئیں۔انھیں گھر اور ملازموں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ان کی ماں ڈورتھیا کو اپنے باپ اور بہنوں سے ملنے والی مالی امداد پر گذارا کرنا پڑا۔گیارہ سالہ جیکب گرم کو سب سے بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے اگلے دوسال تک گھر کی ذمے داریاں سنبھالنا پڑیں جن میں اسے چھوٹے بھائی ویلہیم کی مدد بھی حاصل تھی۔

گذشتہ دنوں ان دونوں بھائیوں کی جمع کردہ لوک کہانیوں کی 200 ویں سالگرہ منائی گئی۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ’’بچے اور دادا دادی کی کہانیاں‘‘Children’s and Household Tales ، 1812ء میں شائع ہوئی۔ جرمنی اور شمالی یورپ سے لوک کہانیاں جمع کرنے والے ان بھائیوں کے ابتدائی سال جرمن قصبوں ہنائو اور سٹینائو میں گذرے۔

باپ کی وفات کے نتیجے میں ان کے گھر کے حالات بہت خراب ہوگئے اور انھوں نے شدید غربت دیکھی۔یونیورسٹی آف ماربرگ میں تعلیم کے دوران تاریخ دان اور قانون دان فریڈرک سویگنی نے علم لسانیات اور جرمانی مطالعے میں ان کے شوق کو بڑھاوا دیا۔اسی دوران انھیں لوک کہانیوں سے دلچسپی پیدا ہوگئی جو رفتہ رفتہ ان کی زندگی بھر کا شوق بن گیا۔

انیسویں صدی میں رومانوی ادبی تحریک کے عروج کے دنوں میں روایتی لوک کہانیوں میں لوگوں کی دلچسپی بہت بڑھ چکی تھی جو کہ گرم برداران کے نزدیک قومی ادب اور ثقافت کی خالص انداز میں نمائندگی کرتی تھیں۔انھیں لوک کہانیاں جمع کرنے سے اتنی دلچسپی ہوچکی تھی کہ ان کی تحقیق اور مطالعہ اس علم کی بنیاد بن گیا جسے لوک کہانیوں کی تعلیم کہا جاتا ہے۔

1812 سے 1857 کے دوران ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا جس کے کئی ایڈیشن بعدازاں شائع ہوئے اور رفتہ رفتہ ان کی کہانیوں کی تعداد چھیاسی سے بڑھ کر دوسو تک پہنچ گئی۔لوک کہانیاں لکھنے کے علاوہ انھوں نے جرمن اور سکینڈے نیوین دیومالا کو بھی جمع کیا اور 1808 میں ایک جرمن ڈکشنری بھی تحریر کی جو کہ ان کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکی۔

گرم برادرز کی جمع کردہ لوک کہانیوں کو ان کی زندگی میں ہی بے پناہ مقبولیت مل گئی تھی۔اس وقت ان کی یہ کہانیاں دنیا کی سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوکر لاتعداد ملکوں میں دستیاب ہیں جبکہ ڈزنی اسٹوڈیو کی جانب سے ان کی کہانیوں’’سنووائٹ اور سات بونے‘‘ اور ’’سنڈریلا‘‘ پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔وسط بیسویں صدی میں ان کہانیوں کو جرمنی کی جانب سے پروپیگنڈا کے ہتھیار کے طورپر بھی استعمال کیاگیا۔دنیا بھر میں بچوں میں یہ کہانیاں بہت مقبول ہیں اور مغربی کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔

نقادوں کی رائے
ان دونوں جرمن بھائیوں نے اپنی زندگی بھر کی تحقیق اور ترتیب کے بعد دنیا کو جو کتھائیں، ناولٹ اور لوک کہانیاں دیں، ان میں سے زیادہ تر بچوں کی کہانیوں کے طورپر پیش نہیں کی گئی تھیں۔ان کی کہانیوں پر تحقیق کرنے والے وان ایرمن جو گرم برادران کی مشاورت بھی کرتے تھے، کا کہنا تھا کہ کہانیوں میں بعض چیزیں ایسی تھیں جو بہت ڈرائونی اور بوجھل معلوم ہوتی تھیں جیسے بچوں کو کھایا جانا ، جن کو کہانیوں سے نکالنے کے لیے ایرمن نے باقاعدہ دونوں بھائیوں کو تجویز دی ۔

لیکن انھوں نے اگلے ایڈیشنوں میں سے کہانیاں نکالنے کے بجائے یہ ہدایت شامل کردی کہ والدین بچوں کو وہی کہانیاں پڑھائیں جو ان کی عمر کے اعتبار سے ان کے لیے مناسب ہوں۔اس طرح ایرمن کے مشورے کے باوجود کہانیوں کو مجموعے سے خارج نہ کیا گیا۔ اصل میں گرم برادرز کا خیال تھا کہ تمام کہانیاں اہمیت کی حامل تھیں اور مختلف ثقافتوں کی نمائندگی کرتی تھیں۔ اس طرح یہ کہانیاں ناصحانہ اقدار کی حامل تھیں اور چونکہ پرانے زمانے میں ڈسپلن کو قائم رکھنے کے لیے خوف کے پہلو کو استعمال کیا جاتا تھا، اس لیے اسکالر لنڈا ڈیگ کے خیال میں ’’ہینسل اینڈ گریٹل‘‘ اور ’’لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ‘‘ جیسی کہانیاں بچوں کے لیے ’’وارننگ ‘‘ کے طور پر لکھی گئیں۔

دنیا کو لافانی کہانیاں دینے والے گرم برادرز کو صرف تعریف اور تحسین نہیں ملی بلکہ کڑی تنقید کا سامنا بھی انھیں رہا۔ ان کی مرتب کردہ لوک کہانیوں میں تشدد کے پہلوئوں کو کئی اطراف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔مثال کے طور پر ’’سنووائٹ‘‘ کی کہانی کا اختتام ہوتا ہے تو سوتیلی ماں سنووائٹ کی شادی پر لوہے کے جوتے پہن کر ناچتی ہے جس سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے جبکہ ایک کہانی میں ایک نوکر کو تیز دھارکیلوں والی نالی میں ٹھونس کر گلیوں میں گھمایا جاتا ہے۔اس طرح ’’مینڈک شہزادہ‘‘ کی کہانی میں شہزادی مینڈک کو چومنے کے بجائے دیوار سے دے مارتی ہے۔نقادوں کا کہنا ہے کہ کہانیوں میں دکھایا جانیوالا یہ ظلم و تشدد دراصل ازمنہ وسطیٰ کے کلچر کی عکاسی کرتا ہے اور یہ کہانیاں اسی کلچر سے اخذ کی گئی تھیں جیسے کہ جادوگرنیوں کو زندہ جلانے کا منظر جو ’’چھ مرغابیاں‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔

گرم برادرز کی کہانیوں میں چرخہ کاتنے کے عمل کو کثرت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔نقادوں کا کہنا ہے کہ ان کہانیوں سے واضح طور پر اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ انیسویں صدی کے زمانے میں چرخہ کاتنا خواتین کی زندگی کا کس قدر لازمی حصہ تھا۔چرخہ کاتنا اور دھاگہ بنانا اس زمانے میں گھروں میں عام تھا اور عورتیں ہی یہ کام کرتی تھیں۔اس طرح بہت سی کہانیاں اس طرح شروع ہوتی ہیں جن میں مرکزی کردار کو کسی خاص پیشے سے منسلک دکھایا گیا ہے جیسے ’’کسی شہر میں ایک جولاہا رہتا تھا۔۔۔۔‘‘ تاہم چرخہ کاتنے کے عمل کو گرم برادرز کی جانب سے پیشے کے طورپر کبھی پیش نہیں کیا گیا جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ گرم برادرز اسے ایک پیشہ نہیں سمجھتے تھے۔اس کے بجائے چرخہ کاتنا ایک عوامی سرگرمی تھی اور ہر گھر میں ایک کمرہ ایسا ہوتا تھا جو چرخہ کاتنے کے لیے مخصوص تھا اور گھر کی عورتیں ہی یہ کام کرتی تھیں۔

چرخہ کاتتے وقت خواتین بچوں کو یا چھوٹی بچیوں کو کہانیاں اور واقعات سنایا کرتی تھیں۔ ان کہانیوں میں عورتوں کی شخصیت کو اس طرح بیان کیا جاتا تھا کہ چرخہ کاتنے میں انھیں کس قدر مہارت ہے۔مثال کے طور پر چرخہ کاتنے والی عورت عقل مند اور سمجھ دار ہوتی تھی۔اس طرح چرخے کے تکلے کو ایک سگھڑ عورت کی علامت کے طورپر پیش کیا جاتا تھا۔اس طرح ایک اور کہانی میں چرخہ کاتنے کے عمل کو خطرے کی علامت کے طور پر پیش کیا گیاہے جبکہ کچھ میں دکھایا گیا ہے کہ کوئی کردار سست ہونے کی وجہ چرخہ نہیں کاتتا یا امیر ہونے کی وجہ سے چرخہ کاتنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔

ان کی کہانیوں کو اس بنیاد پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ کہانیاں مکمل طور پر جرمن نہیں ہیں تاہم اس تنقید سے کہانیوں کو اور زیادہ مقبولیت ملی اور یورپ کے دیگر خطوں میں بھی ان کو شوق سے پڑھا گیا۔اس کے برعکس ایک اسکالر ہینز رولیک کا کہنا ہے کہ کہانیاں جرمن ثقافت کی مکمل عکاسی کرتی ہیں جن میں جرمن کلچر کی مخصوص سادگی اور دلکشی موجود ہے۔جرمن کلچر کا جنگلوں کے ساتھ خصوصی تعلق ہے جن کو کہانیوں میں ایک تاریک اور خطرناک جگہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے بالخصوص ایسے پرانے جنگل جہاں شاہ بلوط کے بڑے بڑے درخت ہوں اور ایسا ہی جنگل’’لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ‘‘ میں دکھایا گیا ہے جہاں لٹل ریڈ رائڈنگ ہڈ کی ماں اسے بھیجتی ہے کہ وہ اپنی نانی کو کھانا دے کر آئے۔

زندگی کے نشیب وفراز
گرم برادرز کو باپ کی موت سے لیکر زندگی بھر مشکلات اور مسائل کا سامنا رہا۔اس دوران انھوں نے کئی مربتہ عروج اور کئی مرتبہ زوال دیکھا۔انہی مشکلات کے باعث بڑے بھائی جیکب نے شادی نہ کی البتہ چھوٹے ویلہیم نے 1825 ء میں ہنریٹ ڈورتھیا سے شادی کرلی جو کہ ان کے خاندان کی دیرینہ جاننے والی تھی اور ان افراد میں شامل تھی جو انھیں لوک کہانیاں فراہم کرتے تھے۔ جیکب جو تمام زندگی غیر شادی رہا، اپنے چھوٹے بھائی اور اس کی بیوی کے ساتھ ہی رہا۔کیسل شہر میںجب چیف لائبریرین کی تقریری کے سلسلے میں انھیں نظر انداز کیا تو وہ بہت مایوس ہوئے۔1930 ء میں وہ گوٹنجن شہر منتقل ہوگئے اور یونیورسٹی آف گوٹنجن میں پروفیسر ہوگئے۔

اگلے سات سال تک وہ تحریر و تحقیق کے کام میں مشغول رہے۔1835ء میں جیکب نے اپنی مشہور کتاب ’’جرمن دیومالا‘‘ شائع کی جبکہ ویلہیم لوک کہانیوں کا تیسرا ایڈیشن شائع کرنے کے لیے کام کرتا رہا۔انھوں نے یونیورسٹی میں جرمن اسٹڈیز کے نام سے نیا شعبہ قائم کیا جو بہت مقبول ہوا۔1837ء میں سیاسی سرگرمیوں کے نتیجے میں انھیں یونیورسٹی کی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔1830 کی دہائی جرمنی میں سیاسی شورش کا دور تھا اور ’’ینگ جرمنی‘‘ کے نام سے جمہوری اصلاحات کے لیے تحریک زوروں پر تھی۔

اگرچہ گرم برادرز کا ینگ جرمنز سے براہ راست تعلق نہ تھا تاہم انھوں نے اور ان کے پانچ ساتھی پروفیسرز نے شاہ ارنسٹ آگسٹس اول کے مطالبات کے خلاف ردعمل ظاہر کیا۔ شاہ نے پارلیمنٹ برخاست کرنے کے بعد مطالبہ کیا تھا کہ افسرشاہی اور یونیورسٹی آف گوٹنجن کے پروفیسر اس کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھائیں۔انکار پر گرم برادرز سمیت ساتوں پروفیسرز کو ملازمت سے نکال دیاگیا جبکہ جیکب سمیت دو پروفیسرز کو ہینور سے دیس نکالا دیدیا گیا۔جیکب وہاں سے کیسل آگیا اور پھر وہاں ویلہیم اوراس کی بیوی بچوں کے ساتھ رہنے لگا۔

کوئی آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے وہ شدید مالی مشکلات میں مبتلا ہوگئے۔ 1838ء میں دونوں بھائیوں نے جرمن ڈکشنری مرتب کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ یہ ایک زندگی بھر کا طویل کام تھا۔ اس جرمن ڈکشنری کی پہلی جلد 1854ء میں جاکر شائع ہوسکی جبکہ باقی جلدیں ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکیں۔اس دوران مالی امداد کے لیے ان کا تمام تر انحصار دوست واحباب پر رہا ۔ انہی دوستوں کی مدد سے وہ مختلف ملازمتیں حاصل کرکے اپنا گذارا کرتے رہے۔

1848 میں جرمن ریاستوں کے انقلاب کے بعد وہ سول پارلیمنٹ کے لیے رکن منتخب ہوئے۔ جیکب مینز میں نیشنل اسمبلی کا بااثر رکن بنا۔بعدازاں وہ سیاست سے دست بردار ہوگئے اور ایک بار پھر تحریر و تحقیق کے کام میں لگ گئے۔جیکب کی مشہور کتاب ’’جرمن زبان کی تاریخ‘‘ نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔دونوں بھائی اپنی جرمن ڈکشنری کی تکمیل نہ دیکھ سکے۔ویلہیم کے انتقال کے نتیجے میں جیکب شدید غم زدہ اور گوشہ نشین ہوگیا۔ 1863 ء میں جیکب بھی انتقال کرگیا تاہم اپنی موت تک وہ ڈکشنری پر کام کرتا رہا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔

دنیا شاید گرم برادرز کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی اور نہ ہی انھیں ان کے دیگر کارناموں کا علم ہے لیکن ’’گرم برادرز کی کہانیاں‘‘ کے عنوان سے’’شہزادی سنڈریلا‘‘، ’’مینڈک شہزادہ‘‘، ’’ہینسل اور گریٹل‘‘،’’لٹل ریڈ رائیڈنگ ہڈ‘‘ اور’’ سنو وائٹ اور سات بونے‘‘ سمیت سیکڑوں کہانیاں آج بھی دنیا بھر میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔