ذکر ایک جزیرے کا

عبدالقادر حسن  منگل 14 فروری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہمارے وسیع و عریض اور رنگا رنگ پاکستان کا ایک بڑا علاقہ جو اپنا خاص مزاج رکھتا ہے اور اس کی ایک سماجی انفرادیت ہے ’فاٹا‘ کہلاتا ہے۔ ہم نے اس علاقے کو ملک سے الگ کر رکھا ہے، وجہ اس کی ہمارے سابقہ حکمرانوں انگریزوں کو معلوم ہو یا ان انگریزوں کے نام لیوا پاکستانیوں کو جو زندگی کے کئی شعبوں میں برطانوی روایات کی پابندی کرتے ہیں اور برطانوی نقش قدم پر چلنا اپنے لیے راہ نجات سمجھتے ہیں۔

سو ڈیڑھ سو برس کی غلامی بے کار نہیں جاتی جب کہ اس غلامی کو مسلط کرنے والی ایک عقلمند قوم ہو جو قوم نہ صرف ہندوستان بلکہ اس کے گردونواح کے ملکوں اور آبادیوں پر بھی حکمرانی کرتی رہی ہو۔ میں جب پہلی بار سری لنکا گیا تو مجھے یہ جزیرہ پاکستانی سرزمین کا ایک ٹکڑا لگا کئی عمارات کو دیکھ کر یوں لگا جیسے ان کو پاکستان کے کسی مقام سے اٹھا کر یہاں نصب کر دیا گیا ہے۔ مثلاً سری لنکا کا ڈاک خانہ ہمارے لاہور کے بڑے ڈاک خانے کی نقل تھا لیکن اسلامی چھاپ نہ ہونے کی وجہ سے کچھ مختلف بھی تھا۔

ہمارے کئی دوستوں کی سالگرہ بھی حسن اتفاق سے سری لنکا کے قیام کے دنوں میں آ گئی چنانچہ ہوٹل والوں نے بھی سالگرہ منانے والوں کو اپنی طرف سے کچھ تحفے بھی دیے جو ہم پاکستانی صحافیوں کو بہت پسند آئے چنانچہ جن دوستوں کی سالگرہ ان دنوں نہیں تھی وہ پشیمان ہو گئے لیکن چند ہوشیار دوستوں نے بازارجا کر کچھ برائے نام تحفے خریدے اور اپنے بعض دوستوں کو ان کی ’سالگرہ‘ پر دے دیے۔

ہوٹل والوں نے جب یہ دیکھا تو انھوں نے بھی کچھ تحفے پیش کر دیے اور ہمارا مقصد کسی حد تک پورا ہو گیا مگر افسوس کہ دکانداروں نے اپنے تحفے واپس لینے سے معذرت کر لی اور وہ ہمارے دوستوں کو اپنے سامان میں رکھنے پڑے اور پاکستان پہنچ گئے جہاں وہ سری لنکا والوں کے تحفے بن کر ہمارے گھروں میں سجا دیے گئے۔

سری لنکا کے سانولے لوگ جن کے نقش دلکش تھے ہمارے کئی دوستوں کو بھا گئے اور ایک سیاحتی مزاج کے اس ملک کے کئی دلکش تحفے ہم جتنے دن وہاں رہے ہمارے کسی نہ کسی دوست کی رہنمائی کرتے رہے اور انھیں اس خوبصورت جزیرے کے اسرارو رموز سے آگاہ کرتے رہے۔ اس جزیرے کے سانولے سلونے لوگوں تک پہنچنے سے پہلے آپ کو قریباً 25میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جو ایئرپورٹ سے شہر تک ہے۔

جزیروں میں چونکہ زمین بہت کم ہوتی ہے اس لیے یہاں ہوائی اڈے بہت دور ہوتے ہیں آبادیوں سے میلوں دور، ایک ہوائی اڈے کو جتنی زمین درکار ہوتی ہے وہ آبادیوں میں نہیں مل سکتی چنانچہ ان جزیروں میں ہوائی اڈے عموماً بہت فاصلے پر ہوتے ہیں۔ کم از کم سری لنکا اور مالدیپ میں تو ایسا ہی دکھائی دیا۔

مالدیپ کے ذکر سے یاد آیا کہ بعض یورپی لوگوں کو یہ جزیرے بہت پسند ہیں۔ انھوں نے کئی جزیرے ’لیز‘ پر بھی لے رکھے ہیں اور یہ انھی کے نام سے معروف ہیں مثلاً جرمن جزیرہ جو جرمنی کے لوگوں نے لیز پر لے رکھا ہے اور گرمیوں کا موسم وہ یہاں گزارتے ہیں یا کبھی سردیوں کا بھی کہ یورپ کے مقابلے میں ان کی سردی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

سری لنکا سے کچھ ہی دور مالدیپ کا جزیرہ ہے جس کے نام کا ترجمہ ہے ’چراغوں کا ہار‘ یہ جزیرہ ایک سو فی صد مسلمان جزیرہ ہے جہاں وہ ضروریات بھی موجود ملتی ہیں جو کسی سیاحتی جزیرے میں ہوا کرتی ہیں۔ مسجد اور مے خانہ یہاں شانہ بہ شانہ ملتے ہیں مگر کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا کہ یہ ان کی آمدنی کا ایک محفوظ ذریعہ ہے۔ ویسے مالدیپ میں کئی جزیرے یورپی ملکوں نے لیز پر بھی لے رکھے ہیں اور یہ جزیرے جیسا کہ عرض کیا ہے انھی کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

جاپانی فرانسیسی یا کسی اور ملک کے باشندوں کا لیز پر لیا ہوا جزیرہ مالدیپ یعنی جزیروں کی مالا دور دور تک پھیلی ہوئی ہے جس کا مرکزی شہر مالدیپ ہے۔ اس صد مسلمان جزیرے میں مسجدیں اور مے خانے ایک ساتھ آباد رہتے ہیں اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔ مالدیپ کے جزیروں کی مالا دنیا کا ایک خوبصورت منظر پیش کرتا ہے خصوصاً رات کو جب یہ جزیرے آباد ہو جاتے ہیں اور اپنے مکینوں سے جگمگا اٹھتے ہیں۔

یہ جزیرے زیادہ تر بجلی سے محروم ہیں اس لیے یہاں کے سیاح موم بتیاں جلاتے ہیں اور ان موم بتیوں کی جھلملاتی روشنیوں میں رقص کرتے ہیں اور اپنے اپنے وطن کے گیت گاتے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ جزیرہ مالدیپ اسلامی عبادات کا مرکز بھی ہے لیکن اس میں مسجد ایک ہی ہے اس تنگ زمین پر زیادہ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہ مسجد ہمارے سامنے ایک دن روشنیوں سے جگمگا اٹھی کہ پاکستان کے صدر ضیاء الحق وہاں نماز ادا کرنے والے تھے۔

صدر پاکستان نے بڑے ہی احترام کے ساتھ مقامی نمازیوں سے مصافحہ کیا اور یہ نمازی بہت خوش تھے کہ ایک مسلمان ملک کا سربراہ ان کا مہمان ہے اور جس نے پوری مسجد میں اپنی مسکراہٹ پھیلا دی ہے۔ یاد نہیں کہ صدر صاحب نے مسجد کے لیے کچھ چندہ بھی دیا تھا جو اس غریب مسلمان کے میزبانوں نے بڑی خوشی کے ساتھ قبول کیا۔ بقول ایک مالدیپی کے یہ چندہ نہیں ایک مسلمان کا تحفہ تھا جس پر اس سو فی صد مسلمان ملک کے باشندوں نے شکریہ ادا کیا۔

مغربی ملکوں کے لیے مالدیپ پسندیدہ جزیروں کا ملک ہے اور انھوں نے کئی جزیرے مستقل طور پر ریزرو کرا رکھے ہیں جو اپنے ملکوں کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ سیر و سیاحت کے موسم میں مغربی ملکوں کے یہ لوگ یہاں چند دن بڑے شوق کے ساتھ گزارتے ہیں۔ مالدیپ کے یہ مہمان ان جزیروں کو پرامن سمجھتے ہیں اور یہاں بے فکر ہو کر چھٹیاں گزارتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔