تھر: عشق کی ہر دَم نئی بہار

عبد الطیف ابو شامل  اتوار 6 جنوری 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 آپ اِسے فرار کہہ لیں۔ ضرور کہیں… میں آپ کی قدر کرتا ہوں اور آپ کے خیالات کی بھی۔ لیکن میں اِسے فرار نہیں قرار کہتا ہوں۔

جب چاروں اُور اُداسی کا رقص شروع ہوجائے، بے کلی چھا جائے، وحشت گھورنے لگے، دِل مُردہ ہونے لگے، دم گھٹنے لگے، سانس رُکنے لگے، تب کیا کِیا جائے؟ پھر اقبال یاد آتے ہیں۔ میں کبھی کبھی اقبال کو بابا کہنے لگتا ہوں۔ کیوں؟ اِسے رہنے دیجیے۔ وہ تھے ہی ایسے… آپ ضرور مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ ہاں تو پھر وہ کہنے لگتے ہیں ؎

دِلِ مُردہ دِل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ

بس پھر مجھے کچھ نہیں سوجھتا۔ میں یا تو سمندر کا رخ کرتا ہوں یا صحرا کا۔ اِس مرتبہ بھی یہی ہوا۔ میں بھاگ کھڑا ہوا۔ لیکن اِس مرتبہ تو مجھے اُنھیں مبارک باد دینی تھی‘ اُن کے ساتھ والہانہ رقص کرنا تھا۔ اُن کی خوب صورت بولی کے گیتوں میں اپنی آواز ملانی تھی۔ اُن کے ساتھ جھومنا تھا۔ دن بِتانے اور راتیں جاگنی تھیں۔ اُن کے چوپالوں میں بیٹھ کر اُن کی باتیں سننی تھیں اور سر دھننا تھا۔ دِل موہ لینے والی باتیں۔

آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا کہ میں تھر کے لیے روانہ ہوا۔ وہ تھر جہاں پانی نایاب ہے۔ وہ پانی جسے ہم بے دردی سے ضائع کردیتے ہیں۔ مجھے ارباب مالک نے بتایا تھا کہ تھر میں بارشیں شروع ہوگئی ہیں، پھر کیا تھا! میں جانتا تھا کہ تھر میں بارش کا مطلب کیا ہے۔ جی ہاں آپ بے چین مت ہوں، تھر میں بارش کا مطلب زندگی ہے۔ زندگی کی تمام رعنائیاں، خوشیاں، مسکراہٹیں، آس و اُمید اور نجانے کیا کچھ پانی کا مرہونِ منت ہے۔ اور پھر وہ تھر جس نے خشک سالی اور قحط کا عذاب بارہا بھگتا ہو، وہاں بارش کیسا رنگ جماتی ہے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں تھر میں تھا کہ بارش شروع ہوگئی، بارش بھی کیا صرف بوندا باندی… پھر کیا تھا، لوگ دیوانہ وار گھروں سے نکل آئے، خوشی اور مسرت سے اُن کے چہرے چمک رہے تھے، وہ بے خود ہوکر ناچنے لگے… واقعی بالکل وہ ہاتھ اٹھائے محوِ رقص تھے، ساتھ ہی تھری کا گیت بھی… بارش اُن کا عشق ہے۔

عشق کا دریا بہتا جائے عاشق خوب نہائیں
اِس میں پیار کے لاکھوں بٹیرے ہر دم بہتے جائیں

پنجابی کے لوک شاعر حافظ برخوردارؔ کا یہ شعر اُن پر صادق آتا ہے۔ ابھی ہم کراچی سے نکلے ہی تھے کہ بارش نے ہمیں آگھیرا… لیکن جذبہ صادق ہو اور اُمنگ جواں، تو پھر کیسا طوفاں…! ہم نے سفر جاری رکھا۔ رات نو بج رہے تھے کہ ہم عمرکوٹ پہنچے۔ اِس سے پہلے میرپورخاص کے جھونپڑا ہوٹل میں کچھ دیر آرام کے بعد ہم تازہ دم تھے۔ عمرکوٹ تھر کی ابتدا ہے۔ تھر صحرا کی خوشبو یہیں سے آپ کے لیے چشمِ ماروشن دلِ ماشاد پکار نے لگتی ہے۔

تھر کو تھری زبان میں ’’ڈھاٹی‘‘ کہتے ہیں، آپ اِسے صحرا کہہ لیجیے۔ تھر‘ ہاں صحرا کی طرح کشادہ دل اور خندہ پیشانی والے خوب صورت لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہ سادہ لوح، ایمان دار، خلوص و محبت میں گندھے ہوئے لوگ… مسکراتے، چہچہاتے اور سجدۂ شکر بجا لانے والے… راضی بہ رضا کا مفہوم مجھے وہاں سمجھ میں آیا۔ کبھی اُن کی زبان سے شکوہ نہیں سنا۔ زبانی کلامی شکر ادا کرنے والے نہیں مجسم تشکر ہیں وہ… مجسم تشکر۔ اپنی خوشیوں کو دوسروں پر قربان کردینے والے ایثار کیش اور دوسروں کے غم کو خود پر اوڑھ لینے والے انسان… انسانیت وہاں اترائے پھرتی ہے۔

میں تھر میں ہی تھا جب میں نے عجیب سی آوازیں سنیں۔ میں نے گھڑی میں وقت دیکھا… رات کافی گزر چکی تھی اور گھڑی ڈھائی بجا رہی تھی۔ کچھ لوگ چیخ پکار کررہے تھے۔ میں اٹھ بیٹھا اور آواز کی سمت دوڑ لگادی۔ ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا تھا، تکلیف کی شدت سے وہ چلاّ رہا تھا، کچھ لوگ گاڑی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے لیکن وہاں گاڑی کہاں تھی! دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ پھر ایک چارپائی پر اُس شخص کو لٹا دیا گیا‘ اور چار لوگوں نے چارپائی اٹھاکر دوڑنا شروع کردیا، باقی لوگ اُن کے پیچھے تھے اور اُسے حوصلہ دے رہے تھے۔ میں نے پوچھا،’’تم لوگ کہاں جارہے ہو؟‘‘ تو مجھے بتایا گیا ’’قریبی گائوں میں ایک شخص علاج کرتا ہے وہاں جارہے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا، ’’کتنی دور ہے وہ گائوں؟‘‘، ’’بس قریب‘ یہی کوئی چھے سات میل ہوگا۔‘‘، ’’چھے سات میل! اِتنی دور اور صحرا کا سفر…!! صبح ہوچکی تھی اور میں بے چینی سے اُن کی واپسی کا انتظار کرنے لگا۔ ہزار اندیشے مجھے سانپ بن کر ڈس رہے تھے کہ پھر وہ گھڑی بھی آپہنچی۔ دور سے کچھ لوگ آتے دکھائی دیے۔ ’’چلو سائیں لطیف، وہ لوگ آپہنچے ہیں۔‘‘،’’اچھا، کیا ہوا؟‘‘ ’’تم فکر نہ کرو سائیں، اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوتی تو سب روتے ہوئے آتے۔ اﷲ سائیں نے کرم کیا ہے۔‘‘

میں سوچنے لگا، ہم شہری اِس نعمت سے محروم ہیں ناں، میں سچ کہہ رہا ہوں، میری عمر تو آوارگی میں کٹ گئی، میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جو اِتنے محبت کرنے والے ہوں۔ شہر میں کہیں ایکسیڈنٹ ہوجائے تو گاڑیاں رکتی ضرور ہیں پَر اکثر تو ویسے ہی گزر جاتی ہیں… حالاںکہ یہاں اِتنی سہولتیں دست یاب ہیں، پھر بھی ہم کسی کی مدد کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اور آگے بڑھے۔ تھر میں اِس طرح کا کوئی بھی نہیں ہے… مجھے تو نہیں ملا۔ سب ایک دوسرے کی مدد ایسے کرتے ہیں، جیسے یہ اِبتلا اور مصیبت خود اُن پر آگئی ہے۔ ایسے لوگوں کو آپ معمولی انسان سمجھتے ہیں! بہت غیر معمولی لوگ ہیں وہ… بلکہ نایاب۔ ہمیں پھول بننا تھا ہم کانٹے بن گئے‘ نجانے کیوں۔ وہ میرا‘ ایک پگلا دوست کہا کرتا تھا:

پھول اور کانٹے دونوں دیکھو ایک جگہ ہوں پیدا
اِک شب پھول کی عمر یہاں پر مانت کانٹوں کی دنیا
تھوڑا جینا لیکن پیارے، کانٹا مت بن جانا

ہاں تو بارش میں صحرا عجیب رنگ دکھاتا ہے… عجیب رنگ۔ ایک تھری کو میں نے بہ آوازِ بلند دعا مانگتے دیکھا۔ اُس کی نگاہیں آسمان کی سمت لگی ہوئی تھیں اور وہ بہت منت سماجت سے اپنے رب سے آہ و زاری کررہا تھا۔ مانگ کیا رہا تھا؟ بارش اور کیا…!!

مجھے اُسے دیکھ کر باہُو صاحب یاد آئے۔
سوز نے دل کو پھونک جلایا دکھوں نے ڈیرے ڈالے ہُو
کوئل بن کر کُوک رہا ہوں، مولا مینہ برسائے ہُو
بول پپیہے ساون آیا، رُت خالی نہ جائے ہُو
باہُو، ثابت قدم بڑھیں گے، تجھ کو یار بنائے ہُو

ٹوٹی پھوٹی سڑک پر گاڑی صحرا کا سینہ چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ دونوں اطراف سبزہ پھوٹنے کے لیے بے چین ہورہا تھا۔ بارش کا سُن کر قافلے واپس صحرا کا رُخ کررہے تھے… اپنے صحرا کا۔ اُن کے مویشی اور اُن کے گلے میں بندھی گھنٹیاں عجب سماں باندھ رہی تھیں کہ میں نے قافلے کے ایک شخص سے پوچھا… غربت و افلاس کا مارا ہوا تھری… ’’تم کہاں سے آرہے ہو؟‘‘
’’سائیں یہاں چارہ پانی ختم ہوگیا تھا تو بیراج چلے گئے تھے، وہاںسے آرہے ہیں۔‘‘

’’پیدل آرہے ہو؟‘‘

’’ہاں سائیں۔‘‘
’’کب چلے تھے وہاں سے؟‘‘
’’سائیں تین دن ہوگئے۔ بس اب پہنچنے والے ہیں۔‘‘
’’ہاں ضرور پہنچ جائوگے تم۔ اچھا خوش رہو۔‘‘
وہ مسکرایا تو مجھے یاد آیا

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ

وہ تو اپنی منزل پر پہنچنے والے تھے اور ہم؟ اور ہماری منزل…؟
ہم عمرکوٹ سے اسلام کوٹ پہنچے۔ ہمارا ٹھکانا کیلاش کا گھر تھا۔ کیلاش ہمارا دوست… اُس نے وہاں بھی جنگل میں منگل مچایا ہوا ہے۔ اِتنا بڑا سا گھر… گھر کیا محل… ماربل سے مزین، لیکن اُس میں بھی ’’چونرا۔‘‘ آپ چونرا نہیں جانتے ناں! میں بتاتا ہوں۔ تھر میں اکثر گھر ایسے ہی ہیں، بالکل گول کمرہ نما جھونپڑا، جسے گھاس پھونس سے ڈھک دیا جاتا ہے، دُور سے آپ کو گنبد کی طرح کے جو گھر نظر آئیں تو سمجھ لیجیے یہ چونرا ہے۔ دو، تین چارپائیاں بہ آسانی اُس میں بچھ سکتی ہیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم۔ تھریوں کی اپنی سائنس ہے۔ پشت در پشت منتقل ہونے والی سائنس… روایت کا تسلسل۔

اسلام کوٹ جاتے ہوئے ہم اپنے پرانے دوست مہندردیو کے گائوں میں رکے تھے۔ مہندر موجود نہیں تھا۔ اُس کا بوڑھا ضعیف والد ہم سے گلے ملا:
’’سائیں آپ لوگ آگیا، بہت اچھا کیا۔‘‘

ہم ایک چونرے میں بیٹھ گئے اور حال احوال پوچھا جانے لگا۔ میں نے پوچھا: ’’یہ سامنے کیا ہورہا ہے؟‘‘
’’بابا کنواں نکال رہے ہیں۔‘‘
’’آئو چلو دیکھتے ہیں۔‘‘
تھر میں کنواں کھودنا پلِ صراط پار کرنا ہے۔ سو، ایک سو بیس فٹ پر کہیں آپ کو پانی نظر آنے لگتا ہے، اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ۔

……٭٭٭……

سادہ لوح انسان کیا جانیں ترقی کیا ہے
جس کا ایندھن انسان ہیں
اتنی جان توڑ محنت کے بعد پانی کا حصول…! تقریباً ایک سو چالیس فٹ گہرائی میں دو تھری اُترے ہوئے تھے، جنہیں ایک رسّی کی مدد سے اندر اُتارا گیا تھا۔ مجھے وہ ایک گہری سرنگ نظر آئی۔ ایک حد کے بعد اندھیرا، اور اِتنا گہرا… میں نے اندر آواز دی تو دور سے ’’جی سائیں‘‘ کی آواز آئی۔ میں نے ایک تھری سے پوچھا: ’’اتنی گہرائی میں اُترنے کے لیے کیا حفاظتی اور احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں؟‘‘ ’’کچھ نہیں سائیں‘ بس اﷲ کا آسرا ہے۔‘‘ بالکل، بس اُسی کا آسرا ہے۔ وہی سب سے بڑا حفاظت کرنے والا ہے… بس وہی ہے۔ میرے سامنے اکیسویں صدی تھی جہاں مشینوں کی حکومت تھی۔ جہاں احساسِ مروت کچلے ہوئے پڑے تھے۔ چھوڑیے میں پھر کہیں اور نکل جائوں گا۔ اِتنی جان لیوا محنت کے بعد حاصل کیے ہوئے پانی کی قدرومنزلت میں اور آپ نہیں جان سکتے‘ اِتنی آسانی سے ہمیں پانی جو دست یاب ہے۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ رات کیلاش کے گھر گزاری جائے۔ تب ہم اسلام کوٹ پہنچے تھے… لیکن ابھی ڈیڑھ گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ مہندر دیو کا پیغام موصول ہوا: ’’سائیں آپ نے یہ کیا کیا؟ میں اگر یہاں نہیں تھا تو کیا ہوا‘ گائوں تو تھا ناں! آپ نے بہت زیادتی کی، اب اِس کا ازالہ بھی کرو۔‘‘ سو ہمیں اُس کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ یوں ہم دوبارہ مہندر کے گائوں میں تھے۔ مہندر دیو پرائمری اسکول ٹیچر ہے۔۔۔ بہت ہنس مکھ، ملنسار، محبت اور ایثار کا نمونہ… مجھ پر نظر پڑتے ہی اُس کی آواز گونجی:

’’سائیں آپ مجھ سے بچ کر کیسے جاسکتے تھے؟
لیکن سائیں!
اب تو آپ کے بال بہت سفید ہوگئے ہیں،
کیوں کیسے ہوگئے؟‘‘
ہاں مہندر! اب کالے ہونے سے تو رہے۔ تم تو بالوں کے سفید ہونے پر آزردہ ہو، خون سفید ہونے کے بارے میں تم کیا کہتے ہو!‘‘ ’’سائیں آپ بہت مشکل ہیں۔‘‘
رات کو کھلے صحرا میں چارپائیاں بچھائی گئیں اور خوب صورت رنگ برنگی رلیاں۔ پورا چاند اور اُس کی چاندی… عجیب سماں ہوتا ہے۔ حدِّ نظر تک ریت اور وہ بھی چمکتی ہوئی۔ اونٹوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیں اور کشادہ دل والے سادہ لوح، بے ریا دیہاتی۔ یہاں شہر میں آپ اِسے نہیں محسوس کرسکتے… ہاں آپ کو وہیں جانا ہوگا۔ میرے ساتھی سوگئے تھے اور میں سوچ کے گہرے ساگر میں اترا ہوا تھا۔

خوب صورت موروں نے چیخ چیخ کر لوگوں کو اٹھانا شروع کردیا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے کہہ رہے ہوں:
’’تم بھی اٹھو، بستر چھوڑو، بستر چھوڑو اور منہ دھولو‘
اِتنا سونا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
میں نے گھڑی میں وقت دیکھا، پانچ بج رہے تھے کہ ہمارے میزبان نے ناشتہ میرے آگے سجا دیا تھا،’’سائیں! اب بھی آپ چائے پر ہی گزارہ کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں مہندر ایسا ہی ہے۔‘‘
ناشتے سے فارغ ہوکر ہم نے اجازت چاہی، وہ بضد تھا:
’’نہیں سائیں آج نہیں، ابھی آپ رہو، نئے کنویں کا پانی پی کر جانا۔‘‘
’’ہاں مہندر! میرا بھی جی نہیں چاہتا جانے کو، لیکن مجھے جانا ہوگا۔ زندگی رہی تو پھر آئوں گا، میرا تم سے وعدہ ہے۔‘‘
بہت اداس اور غمگین مہندر نے ہمیں رخصت کیا۔
(باقی آیندہ)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔