کلا، رسی اور بیل

سعد اللہ جان برق  منگل 14 فروری 2017
barq@email.com

[email protected]

’’مالیاتی مافیا‘‘ کی ایک نئی اصطلاح سننے میں آرہی ہے حالانکہ یہ ایک بہت ہی پرانی چیز ہے بلکہ اب تو تقریباً ہر سمجھ دار فرد یہ سمجھ چکا ہے کہ اس موجودہ دنیا میں کوئی پتا بھی مالیاتی مافیا کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا چاہے وہ پتا ٹرمپ ہی کیوں نہ ہو، بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں ’’حکومتیں‘‘ سب کچھ کرتی ہیں لیکن حقیقت میں حکومتیں چاہے امریکا کی ہوں یا پاکستان کی صرف کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں جن کے تار نادیدہ انگلیوں میں ہوتے ہیں ان نادیدہ انگلیوں کو کسی نے گینگسٹر کی طرز پر ’’بینکسٹر‘‘ کا نام دیا ہے اور بڑا ہی موذوں نام دیا ہوا ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ دنیا میں یہ جو نیا کاروبار دہشت گردی یا کسی اور نام سے ہو رہا ہے یہ چند مٹھی بھر طالبان، القاعدہ اور داعش وغیرہ کرتے ہیں؟ ہاں بظاہر دکھائی تو ایسا دے رہا ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں ہے۔

کچھ لوگ اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کر دیں گے لیکن وہ یہ بات تو جانتے نہیں یا جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ اب دہشت گردی صرف دہشت گردی نہیں رہی ہے بلکہ انڈسٹری بن چکی ہے اور نہ جانے کتنے لوگوں کا دھندہ اور روزگار اس سے وابستہ ہے، صرف ہتھیار بنانے والے کارخانے ہی نہیں ہیں بلکہ ان اسلحہ جات کے ڈیلر، تاجر، مال پہنچانے والے بھی اس سے وابستہ ہیں۔

گھوڑا کبھی گھاس سے اور اسلحہ بنانے والے امن سے، دوائیاں بنانے والے صحت سے اور منشیات والے نشئی سے کبھی دوستی کر ہی نہیں سکتے ہیں اور اگر کریں گے تو وہ خود بھوکے مریں گے، کیا کوئی احمق یہ سوچ سکتا ہے کہ دنیا بھر میں یہ جو این جی اوز اور طرح طرح کے ادارے ’’خیرات‘‘ بانٹتے پھرتے ہیں ان کی بے پناہ دولت ’’مخیروں‘‘ کی جیب سے آتی ہے، آتی تو ہے لیکن وہ ’’مخیر‘‘ دنیا کے چنے ہوئے تاجر صنعت کار اور سرمایہ کار ہیں اور ان کا مقصد کسی کا بھلا چاہنا نہیں بلکہ لوگوں کو خیرات خور، نکما اور کرپٹ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ خود ترقی نہ کر سکیں اور ان کی ’’منڈی‘‘ بنی رہے۔

یہ ایک بڑا ہی ھمہ جہتی نیٹ ورک ہے اور مقصد لوگوں کو محتاج رکھنا ہوتا ہے اکثر ان میں نہایت ہی پاک اور مقدس مذہبی لوگ اور تحریکیں بھی اپنا رول ادا کرتی ہیں کیوں کہ اگر آج ہر ملک کا باسی جدید علوم کی وجہ سے کچھ بنانے، پیدا کرنے اور حاصل کرنے میں خود کفیل ہو جائے تو یہ ہشت پا قسم کے تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار اپنا مال کس کو بیچیں گے۔

اگر ہر گھر یا بستی یا کمیونٹی اپنی ضرورتوں میں خود کفیل ہو جائے تو یہ بڑے بڑے کارخانے انڈسٹریاں اور سرمایہ کار کیا بھیک مانگیں گے، چنانچہ عوام الناس کو اور پھر پاکستان جیسے بے سمت ملکوں کو جتنا بھیک منگا، خیرات خور اور نکما نکھٹو بنایا جائے اتنا ہی ان کی مارکیٹ وسیع رہے گی، صرف اسٹیشنری اور الیکٹرونکس کی مد میں کتنا پیسہ پاکستان سے باہر جاتا ہے اگر یہ گھر ہی میں رہے تو بھیک مانگنے یا افرادی قوت کو دوسرے ممالک میں لے جا کر ضایع نہیں کرنا پڑے گا، کہتے ہیں ایک بڑے سیٹھ ساہوکار کے پڑوس میں ایک مزدور رہتا تھا۔

مزدور کے ہاں اکثر اچھے اچھے کھانے بنتے تھے جن کی خوشبو سیٹھ کی سیٹھانی کو بہت پریشان کرتی تھی۔ ایک دن اس نے اپنے شوہر سے کہا، دیکھو سیٹھ ہونے پر بھی ہم دال ساگ کھاتے ہیں اور یہ مزدور طرح طرح کی خوراکیں کھاتا ہے۔ ہم پیسے جمع کرنے کے دھن میں لگے ہوئے ہیں اور وہ مزے کر رہا ہے۔

سیٹھ نے کہا، ابھی اسے ٹھیک کرتا ہوں،  جا کر مزدور کا دروازہ کھٹکٹھایا، مزدور تیار ہو کر کر مزدوری پر جاہی رہا تھا کہ سیٹھ نے کہا،  مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہو گیا ہے کہ تم روزانہ مزدوری پر جا کر خون پسینہ ایک کرتے ہو، ایک پڑوسی کے ناطے مجھ پر تمہارا حق بنتا ہے اس لیے آج سے میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہاری مدد کروں گا۔

آخر یہ میری دولت تمہاری بھی تو ہے، یہ تو کچھ رقم اور چھٹی مناؤ اگر جی چاہے تو مزدوری  پر جاؤ، دل نہ کرے تو آرام سے گھر بیٹھے رہو،  میں شام کو پوری دیہاڑی جتنی رقم دیا کروں گا، مزدور خوش ہو کر گھر لوٹ آیا، سارا دن چارپائی میں اینڈتا رہا۔

دوسرے دن سوچا کہ اگر آج بھی نہ جاؤں تو کیا فرق پڑے گا، سیٹھ دیہاڑی دے دیگا، اسی طرح آہستہ آہستہ اس کا دل مزدوری سے اچاٹ ہو گیا اور جب خوب پاکستانی ہو گیا تو سیٹھ نے دیہاڑی دینے میں ناغے شروع کر دیے اور ایک دن صاف بولا، میں ساہوکار آدمی ہوں کب تک مفت میں دیتا رہوں گا اب میں دوں گا ضرور لیکن معمولی بیاج پر قرضہ دوں گا اور آخری خبر پھر یہ آگئی کہ قرضے اور بیاج میں اس نے اپنا گھر سیٹھ کو بیچ دیا اور خود سیٹھ کے ہاں نوکر ہو گیا۔

اس پوری دنیا میں جو بھی حکومتیں نظر آرہی ہیں اور بظاہر بڑی بااختیار بھی لگتی ہیں لیکن یہ صرف اتنی بااختیار ہیں جتنا کلے  سے بندھا ہوا بیل،  صرف اتنے ہی دائرے میں چر سکتا ہے جتنی اس کے گلے میں بندھی ہوئی رسی کی لمبائی ہوتی ہے، پورا کھیت وہ ہر گز نہیں چر سکتا کیوں کہ اس کے گلے میں رسی ہے اور رسی کلے  کے ساتھ بندھی ہوئی ہے  اور کلا اتنا مضبوط ہے کہ یہ اکھڑ نہیں سکتا ہے

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
جو چاہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بدنام کیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔