ماری پور اور خواتین ڈھابہ

شبیر احمد ارمان  منگل 14 فروری 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ماری پور شہرکراچی کا قدیم ترین ساحلی علاقہ ہے، ان دنوں ماری پورضلع غربی میں شامل ہے۔ ضلع غربی کے دیگرعلاقوں میں اورنگی ٹاون، معین آباد ، سائٹ ایریا، بلدیہ، منگھوپیراور فش ہاربر سب ڈویژن شامل ہیں۔ ضلع غربی میں 46 یونین کمیٹیاں ہیں، ماضی میںماڑی پورکے لوگ صرف ماہی گیر ی کرتے تھے،اب بھی یہاں ماہی گیر بستے ہیں جوچھ چھ ماہ سمندرمیں ہوتے ہیں، جس کے ساتھ ساتھ ٹرک پرکام کرنے والے ہیں،کچھ پاک نیوی سے وابستہ ہیں، کچھ بیرون ممالک میں روزی کمانے گئے ہوئے ہیں۔

علاقے میں کھانے پینے کی چھوٹی بڑی دکانیں ہیں،یہ غریبوں کی آبادی ہے۔ جوبنیادی سہولیات کی کمی کاشکار ہیں۔ صحت کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہے، یہاں سرکاری ونجی اسکول اورمدارس ہیں لیکن کالج کوئی نہیں ہے۔ یہاں کے نوجوان باصلاحیت ہیں لیکن انھیں رہنمائی کی ضرورت ہے، ی تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں، تعلیم یافتہ لڑکیاں ٹیچر لگ جاتی ہیں یا بیوٹی پارلرکھول لیتی ہیں، نوجوان فٹبال شوق سے کھیلتے ہیں، جمعرات،جمعہ اوراتوار والے دن ہفتہ وار بازار لگتے ہیں ۔ یہ ایک پرفضا علاقہ ہے جو تیزی سے گنجان آبادی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

تاریخی کتابوں میں درج ہے کہ ماری پورکا نام ایک سالٹ ریونیوآفیسرمسٹرماری کے نام سے منسوب ہے مگر قدیم روایت کے مطابق ماری پوردراصل ایک مورڑے نامی مچھیرے کے نام سے منسوب ہے، یہ ایک بہادرمچھیرا تھا جس کی بہادری کا ایک واقعہ بہت مشہورہے۔اس اہم تاریخی قصے کا ذکرحضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی کے رسالہ (شاہ جو رسالو ) میں (سرگھاتو) کے نام سے بھی آیا ہے۔ یہ واقعہ ماری پورکے قریب ساحل سمندر پر پیش آیا تھا اور مورڑے یہیں کا رہنے والا تھا، چنانچہ یہ مقام مورڑے یا موڑو کہلانے لگا مگر بعد میں انگریزوں کے دور میں اسے ماری پورکا نام دیا گیا۔

برطانوی دورمیں یہاں سمندرکے پانی سے نمک تیارکرنے کے کئی کارخانے قائم تھے، یہ کارخانے یورپین باشندوں اورپارسیوں کی ملکیت تھے، جن میں ذکری قوم کے افراد نمک بنانے کا کام کرتے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں سالانہ ایک لاکھ من نمک تیارہوتا تھا جو تمام کا تمام بنگال برآمد کردیا جاتا تھا،کیونکہ بنگال میں بارشوں کی زیادتی کی وجہ سے ساحل سمندر پر نمک تیارکرنا محال تھا ۔ چناچہ بنگال کے لوگ مکمل طور پرکراچی کے نمک پرانحصارکرتے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد بھی کافی عرصے تک یہاں سمندرکے پانی سے نمک تیارکیا جاتارہا ہے مگرافسوس ساحل سمندر پر غیر قانونی تعمیرات خصوصا دیوہیکل گودام اورکنٹینرز یارڈز تعمیرکرنے سے نمک تیارکرنے کا یہ سلسلہ ختم ہوکر رہ گیا۔ جہاں سے لیاری کی حدود ختم ہوتی ہے وہاں سے گلبائی کا آغازہوتا ہے، مورڑو اوراس کے چھ بھائی یہی دفن ہیں، جہاں سے ماری پورکا آغاز ہوتا ہے وہاں کراچی کا اولین ہوائی اڈہ تھا اب پی اے ایف مسروربیس ہے، جہاں بانی پاکستان محمدعلی جناح کا طیارہ اترتا اور اڑتا تھا، جب قائداعظم شدیدعلیل ہوئے تو ان کا طیارہ زیارت سے کراچی اسی ائیرپورٹ پر لینڈ کیا تھا اور کچھ فاصلے پر ان کی گاڑی ماری پور روڈ پر جس کے اس طرف لیاری واقع ہے خراب ہوگئی تھی۔

مسرورائیر بیس سے ذرہ آگے کی طرف ماری پورٹرک اسٹینڈ واقع ہے جہاں ہزاروں ٹرکوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے،جس کی وجہ سے یہاں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں نمک کے کارخانے تھے۔ اسی مقام پرکراچی واٹربورڈ کا واٹر ٹریمنٹ پلانٹ قائم ہے جوسیوریج کے پانی سے پودوں کے لیے کھاد تیارکرتا ہے ۔اس سے آگے کی طرف پاکستان میرین اکیڈمی ہے،اس سے آگے گریکس کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جو ماری پور ہی کا علاقہ ہے یہاں اب بھی نمک کے کچھ تالاب نظرآتے ہیں۔

اس علاقے میں کھانے پینے کی بہت ساری دکانیں ہیں، انھی دکانوں کے درمیان خواتین ڈھابہ کا سائن بورڈ نصب ہے ۔ ویمن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن نامی سماجی تنظیم جس کی صدر صبیحہ شاہ ہیں کے زیر اہتمام یہ خواتین ڈھابہ قائم کیا گیا ہے۔ان کی خصوصی دعوت پر میں ان کے ہمراہ اس ڈھابے میں داخل ہوا تو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ خواتین ڈھابہ شہرکراچی کے کسی مضافاتی علاقے ماری پور میں قائم کیا گیا ہے۔ میری جستجو بڑھ گئی، حیرانی سے اس ڈھابہ کا جائزہ لینا شروع کیا جہاں میں نے دیکھا کہ کچھ خواتین سلائی کڑائی میں مصروف ہیں۔

ایک لڑکی کپڑوں پراستری کررہی تھی،ایک عورت کپڑوں کی سلائی کررہی تھی ۔ ایک لڑکی کمپیوٹر پرسرچ کررہی تھی،کچھ لڑکیاں لائبریری میں مطالعے میں مصروف تھیں، ڈھابے میں کچھ لڑکیاں اورعورتیں آپس میں محوگفتگو تھیں۔ ڈھابے کے اسٹال پر نظر ڈالی تو ایک عورت چائے پکانے میں مصروف تھی۔ میں نے پوچھا کہ ایک کپ چائے کتنے کی ہے، انھوں نے کہا 15روپے۔ اوپر منزل میں ایک ہال ہے، وہاں دیوار پر سفید پردہ آویزاں تھا جس کے برابر میں ایک لڑکی پروجیکٹر پر فلم چلانے میں مصروف تھی، کچھ خواتین کرسیوں پر بیٹھیں ہوئی تھیں اورکچھ خواتین اس ہال میں داخل ہورہی تھیں۔

میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ آج یہاں خواتین کو ہنرمندی اور مارکیٹنگ کے بارے میں تربیت دی جارہی ہے۔ سچ پوچھیں توعورت راج کی اس بستی ( خواتین ڈھابہ ) میں، میں خودکو اجنبی محسوس کررہا تھا۔لیکن میری مسرت کی کوئی انتہا نہ تھی، تب مجھے یہ احساس بھی ہورہا تھا کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورتیں کس قدرخود کو اجنبی محسوس کرتی ہوں گی؟ تب میں نے ہمت کرکے وہاں موجود خواتین سے سوالات کا سلسلہ شروع کیا، جن کا کہنا تھا کہ خواتین ڈھابہ گوشہ عافیت ہے، یہ خواتین کے لیے بہترین جگہ ہے جہاں خواتین آپس میں باتیں کرتی ہیں، یہاں آکر سکون محسوس کرتی ہیں، جب کوئی صحرا میں ہوتا ہے تووہ کسی سائبان کا متلاشی ہوتا ہے۔

اسی طرح یہ خواتین ڈھابہ خواتین کے لیے ایک محفوظ مقام ہے۔ جہاں خواتین اپنائیت محسوس کرتی ہیں ۔ ان میں اعتماد بڑھ رہا ہے، صبیحہ شاہ نے بتایا کہ خواتین ڈھابہ قائم کرنے سے پہلے ہم نے یہاں کے مردوں کومدعوکیا، ان کا اعتماد حاصل کیا، انھوں نے ہم پر بھروسہ کیا، ہم ان کے اعتماد پر پورا اتر رہی ہیں، یہ ڈھابہ صرف خواتین کے لیے مختص ہے۔

اپنے گھروں میں کام کاج کرنے والی خواتین یہاں ذ ہنی سکون محسوس کرتی ہیں، انھیں تعلیم وتربیت کے ساتھ تفریح بھی فراہم کی جاتی ہے، وہ یہاں لوڈو اورکیرم کھیلتی ہیں ،انھیں کچھ سیکھنے کو ملتا ہے ، ڈھابے میں چائے اورکھانے پینے کی دیگر اشیا بھی فروخت کی جاتی ہے جس سے خواتین کی معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، یہاں خواتین کو سلائی کڑھائی اور میک اپ کرنا سکھایا جاتا ہے ،کئی خواتین یہ ہنر سیکھ کر اپنا روزگارکما رہی ہیں۔

ڈھابے میں صحت مند سرگرمیاں کو بھی فروغ دیا جاتا ہے ، جس سے خواتین کی تعلیم وتربیت بھی ہوجاتی ہے ۔ سیمینار ہال میں خواتین کومعلوماتی دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی ہیں، یہاں ایک لائبریری بھی قائم کی گئی ہے، جہاں خواتین کتابوں کا مطالعہ کرتی ہیں۔خواتین کو ہنرمند بنانے والی کلاسیں بھی منعقد کی جاتی ہیں۔ ماری پورکی لڑکیاں تعلیم کی راہ پرگامزن ہیں جس کے بعد وہ ملازمت کرنے کی بھی خواہش مند ہیں تاکہ ان کی معاشی حالت میں بہتری آسکے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے سیاح گزرکر ہاکس بے کے خوب صورت ساحل پر پہنچتے ہیں۔

صبیحہ شاہ نے اس امیدکا بھی اظہارکیا کہ اگر نجی ادارے تعاون کریں تو میں یہاں ویمن کیفے قائم کرنا چاہتی ہوں، جہاں مسافرخواتین کچھ دیر ٹہرکر آرام کرسکتی ہیں،کھا پی سکتی ہیں،اس مجوزہ کیفے میں کام کرنے والی خواتین ہی ہوں گی۔اس طرح ان کے روزگارکا مسئلہ بھی کسی حد تک حل ہوجائے گا۔

اس خواتین ڈھابے سے آگے کی طرف چلتے ہوئے دو راستے آتے ہیں۔ ایک راستہ ہاکس بے ، مشرف کالونی اور بیوہ کواٹرکی طرف جاتا ہے اور دوسرا رستہ یونس آباد کی طرف جاتا ہے اور یہی خشکی کا رستہ جزیرہ منوڑہ تک پہنچا دیتا ہے، یہ راستہ عام شارع نہیں ہے۔ اس راستے میں شمس پیر اور بابا بھٹ آئی لینڈ بھی آتے ہیں یہاں بڑی تعداد میں ماہی گیروں کی کشتیاں ساحل پرکھڑی اورتیرتی نظرآتی ہیں ۔دوسرا راستہ سنہری پوائنٹ ، ہاکس بے ، سینڈزپٹ، فرنچ بیچ ، پیراڈائیز پوائنٹ ،کیپ ماؤنٹ اورساحل مبارک ولیج کی طرف جاتا ہے، یہ آٹھ حسین اور خوبصورت نظاروں سے بھرپورساحل ہیں، جن کا دیدنی نظارہ الگ مضمون کا متقاضی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔