جو ملے تھے راستے میں

رفیع الزمان زبیری  ہفتہ 5 جنوری 2013

مولانا چراغ حسن حسرت احمد بشیر کوکہیں راستے میں نہیں ملے تھے، وہ خود ان سے ملنے گئے تھے۔ وہ جب ان کے دفتر میں ان کے پاس پہنچے تو وہ اپنے اخبار کے لیے جو ابھی نکلنا شروع نہیں ہوا تھا، کالم لکھ کرفارغ ہوچکے تھے۔ احمد بشیر نوکری کی تلاش میں گئے تھے دوچار منٹ کی گفتگو ہی میں انھوں نے مولانا حسرت کو نہ صرف انھیں ملازمت کی پیشکش کرنے پر آمادہ کردیا بلکہ ان کو والگا ہوٹل میں لے جاکر وہسکی بھی پلائی اور پھر ایک طوائف کے کوٹھے پرگانا بھی سنوایا۔ یہیں احمد بشیر کو ’’فن کی لگن کے معیار کا ایک نیا تجربہ‘‘ اس وقت ہوا جب حسرت کے اخبار کا چپڑاسی ہاتھ میں پیلے کاغذ کی کاپی تصحیح کرانے کے لیے وہاں آپہنچا۔ احمد بشیر لکھتے ہیں’’پھر ساز خاموش ہوگئے، کوثر ایک طرف بیٹھ گئی، طوائف کا کوٹھا اچانک اخبارکا دفتر بن گیا، مولانا زمان ومکان کی قید سے فارغ ہوکرمحض اخبار نویس بن گئے۔‘‘

احمد بشیر نے کچھ خاکے لکھے تھے ان لوگوں کے جنھیں وہ خوب اچھی طرح پہچان گئے تھے، یونس جاوید نے یہ خاکے جمع کرکے ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘ کے عنوان سے چھاپ دیے۔ ان میں مولانا حسرت کا خاکہ بھی ہے، کشور ناہید کا بھی، ممتازمفتی کا بھی، قدرت اللہ شہاب کا بھی اور ظہیر کاشمیری اوراحسان دانش کا بھی۔ ان سب خاکوں کو پڑھ کر تخلیق کار کا خاکہ بھی کھنچ جاتا ہے۔

خاکہ نگار کا سیلف پورٹریٹ مولانا حسرت کا خاکہ درحقیقت اس انٹرویو کی رودارد ہے جو احمد بشیر کا انھوں نے اس وقت لیا تھا جب یہ روزنامہ امروز میں بطور صحافی ملازم ہونے کے لیے مولانا کے پاس گئے تھے، وہ کہتے ہیں ’’یہ انٹرویو چھ گھنٹوں پر محیط تھا اور اس میں انھوں نے ہر رنگ میں میری شخصیت کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے میں صحافی بننا آسان نہ تھا۔ شاگردوں کے انتخاب میں ان کی طبیعت، تعلیم، تہذیبی پس منظر اور مطالعے، معلومات عامہ اور مذہبی رجحانات کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔‘‘ اب اس تفتیش وتحقیق میں مولانا حسرت کی خود اپنی شخصیت کے تمام رنگ عیاں ہوگئے تو یہ مولانا کا بقلم احمد بشیر خاکہ بن گیا۔

احمد بشیر نے میراجی کے ساتھ کچھ وقت گزارا تھا لیکن انھوں نے میراجی کی زندگی میں شرکت نہیں کی کیونکہ ان کی زندگی اپنی انا سے اس قدر بھری ہوئی تھی کہ اس میں کسی کی شرکت کی گنجائش ہی نہ تھی۔ یہ میر اجی کی آخری دنوں کی بات ہے۔ 1947 کے اوائل کا زمانہ تھا۔ ان دنوں میرا جی کرشن چندر کے گھر میں رہتے تھے۔ احمد بشیر بمبئی گئے تو یہ بھی وہیں رہے۔ وہاں انھوں نے میرا جی کو قریب سے دیکھا تو یہ دیکھا کہ ان کے شبستاں عیش کے دروازے صرف ان کی ذات پر کھلتے ہیں وہ اور کسی کو اس میں جھانکنے کا موقع نہیں دیتے۔

احمد بشیر لکھتے ہیں ’’اس نے پوری عمر انسانوں کے بھرے جنگل میں گزاری، مگر خود ایک بے برگ و باردرخت بن کر الگ کھڑا رہا،اس کو اس بات کا بھی ملال نہیں تھا کہ زرد کانٹوں کی نوکوں پر پتیاں نہیں اگ سکتیں اور کوئی تھوہر کے سایہ میں نہیں بیٹھ سکتا۔ اسے اپنی انا سے فرصت کہاں تھی کہ وہ اوروں کا غم کھاتا، وہ اپنے خول سے کبھی باہر نہ نکل سکا، اس کا کوئی دوست، کوئی بہن بھائی، کوئی ماں باپ نہیں تھا، وہ بلکتے ہوئے کبھی اپنی ذات ہی سے لپٹ جاتا اور کبھی بے چین عاشق کی طرح اپنی انا کے زانو پر سر رکھ کر سو جاتا۔‘‘

احسان دانش کے خاکے کا عنوان احمد بشیر نے جپسی (Gypsy) رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’باقاعدہ زندگی سے اسے سخت نفرت ہے، اس کی بیوی بالکل ان پڑھ ہے لیکن بیوی سے بے تعلقی کی حد یہ ہے کہ اسے اس کے خلاف کوئی شکایت نہیں۔ جب وہ میکے چلی جاتی ہے تو اس کی تعریفیں کرتا ہے، جب وہ واپس آتی ہے تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ بیوی گھر میں موجود ہے۔ وہ فطری طور پر حسن پرست ہے اور ہر وقت اس کے پاس شگفتہ قسم کے لوگ موجود رہتے ہیں۔ عمر بھر وہ ان کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کے خیال میں رہا ہے۔ وہ طبعاً متلون مزاج ہے اس کے بارے میں قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ آپ کے ساتھ اس کی دوستی ہے یا محض آشنائی۔‘‘

احمد بشیر کو احسان دانش بیک وقت مثبت اورمنفی رویوں کا مجموعہ نظر آتے ہیں مثلاً وہ زندگی کو اخلاقی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے دعویدار ہیں اور مذہب کو ہی صراط مستقیم مانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود اس کے ایک دوست کی بیوی نے جب ان سے اظہار محبت کیا تو انھیں قطعاً اعتراض نہ ہوا۔ سرمایہ داری کا دشمن ہے، مگر سرمایہ داروں سے بے حد مرعوب ہے۔ نوکر شاہی کے خلاف ہے لیکن آئی سی ایس افسروں کی شناسائی پر ناز کرتا ہے۔‘‘ظہیر کاشمیری سے احمد بشیر کی ملاقات بقول ان کے ایک نہایت ہی فضول جگہ پر نہایت ہی فضول طریقے سے ہوئی۔ ظہیر کاشمیری کے آس پاس رہنے والوں کی ان سے اس طرح ملاقات ہوجانا قدرتی بات تھی۔

احمد بشیر کہتے ہیں ’’اس ملاقات کی تفصیل مجھے بالکل یاد نہیں، صرف یہی یاد ہے کہ اسے دیکھتے ہی میرے دل میں سب سے پہلے یہ خیال پیدا ہوا کہ اس شخص سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے، شاید اسے دیکھتے ہی مجھے اپنی شخصیت ٹوٹتی پھوٹتی نظر آئی، مجھے اپنی کمزوری پر احتجاج کرنا پڑا اور میں نے اس کو اہمیت نہ دینے کی کوشش کی۔‘‘ظہیر کاشمیری کی تصویر کشی کرتے ہوئے احمد بشیر کہتے ہیں ’’ظہیر کی زندگی کا بنیادی جذبہ رعب ڈالنا، شعبدے دکھانا اور حیران کرنا ہے، وہ جس محفل میں جاتا ہے ایسی حرکتیں کرتا ہے۔

جنھیں دیکھ کر محفل والوں کے منہ سے بے ساختہ ’’ہائیں‘‘ نکل جائے۔ بات بات پر ہائیں ظہیر کا سب سے بڑا جذبہ ہے، جس کی تسکین کے لیے وہ بڑی بڑی باتیں کرنے اورکام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔آپ سے ہائیں کہلوانے میں ظہیر کو وہی لطف آتا ہے جو سانپ کو ڈسنے میں آتا ہے۔ چند ملاقاتوں میں آپ اسے جان نہیں سکتے۔ وہ کسی کو یہ نہیں معلوم ہونے دیتا کہ وہ کیا ہے۔‘‘

احمد بشیر نے جن کی خاکہ کشی کی ہے ان میں شاید سب سے زیادہ قربت ممتاز مفتی سے تھی۔ اس قربت نے ان کی تصویر دھندلی کردی۔ احمد بشیر نے اپنے خاکے کی ابتدا ہی اس جملے سے کی ہے کہ ’’ممتاز مفتی کے بارے میں کچھ کہنا آسان نہیں ہے۔‘‘ ایک خاکہ ممتاز مفتی کا احمد بشیر نے 1946 میں لکھا تھا۔ جب بقول ان کے وہ اور مفتی دونوں خام تھے۔ پھر اس خاکے کے ضمیے در ضمیے آخری خاکے 1998 میں ان کے مرنے کے بعد۔ ممتاز مفتی کی شخصیت کے ہر پہلو پر احمد بشیر نے نگاہ ڈالی، مگر کسی پہلو پر بھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکے، اور یہ کہہ کر اپنی ناکامی کا اعتراف کیا کہ ’’کاش میں اور ممتاز مفتی محض شناسا ہوتے، دوست نہ ہوتے۔‘‘

وہ لکھتے ہیں ’’جب میں پہلی مرتبہ اس سے ملا تو وہ چارپائی پر بیٹھا طبلہ بجا رہا تھا۔ رسمی تعارف کے بعد اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا۔ ’’مزاج اچھے ہیں؟ تشریف رکھیے‘‘ اور پھر سے طبلہ بجانے میں منہمک ہوگیا۔ یہ ہے ممتاز مفتی؟ میں نے سوچا۔ اب اکثر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ممتاز مفتی شاید مجھ سے اس ان کہے فقرے کا انتقام لے رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان دونوں میں سے حقیقی ممتاز مفتی کون سا ہے۔ وہ جو کچھ سال پہلے مجھ سے متعارف ہوا تھا اور مہینوں محض واقف کار کی حیثیت سے ملتا رہا یا جو اس وقت میرے پاس بیٹھا ہے اور دوستی کا دم بھر رہا ہے۔‘‘

ممتاز مفتی کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے احمد بشیر نے خود ممتاز مفتی ہی کی ڈائری سے مدد لی۔ ممتاز مفتی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں ’’میری طبیعت بے ہنگم، بے لگام اور بے صبر ہے۔ اس میں روحانیت نہیں، نظم نہیں، ضبط نہیں۔ میری طبیعت میں بنیادی طور پر جو جذبہ کارفرما ہے وہ جھجک اور کمتری ہے، مجھ میں باقاعدہ چلنے کی اہلیت نہیں۔ ہاں کبھی کبھی بدک کر بے تحاشہ دوڑ پڑتا ہوں۔ میری شخصیت پر عورت کا عنصر وضاحت کے ساتھ غالب ہے۔‘‘

احمد بشیر اس تحریر میں جس پر ملتان 1935 درج ہے، اپنی طرف سے یہ اضافہ کرتے ہیں ’’اگرچہ آج کا ممتاز مفتی کل کے ممتاز مفتی سے مختلف ہے لیکن بنیادی طور پر وہی ہے۔‘‘
آخر میں ان کے انتقال کے بعد ان کے خاکے کو مکمل کرتے ہوئے احمد بشیر ایک جملے میں ان سے اپنے تعلق کو یوں ظاہر کرتے ہیں۔ ’’الوداع ممتاز مفتی! میں نے تمہارے ساتھ اکاون بھرپور سال گزارے، اس طویل عرصے میں تم نے ایک دن بھی مجھے فراموش نہیں کیا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔