نئے برس تجھ میں نیا کیا ہے؟؟؟

شیریں حیدر  ہفتہ 5 جنوری 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کچھ نہ کچھ ہوتا ہے جو رات بھر سونے نہیں دیتا اور اس رات جو یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ سو سو کر حشرکر دیں گے… ایک برس سوئیں گے اور اگلے برس جاگیں گے، رات بھر سرہانے رکھے دو ٹیلی فونوں نے سونے نہ دیا، ایک کی میسج کی ٹون بجتی پھر دوسرے کی فیس بک کی اور باری باری یہی سلسلہ چلتا رہا جب تک کہ ایک کی ٹون کا گلا نہ گھونٹ دیا اور دوسرے کا اس لیے نہ گھونٹ سکی کہ اس پر فجر کا الارم لگا تھا، جو نہ بجتا تو شیطان نئے برس کی پہلی صبح کو بھی تھپکیاں دے دے کر سلا دیتا۔

نماز کے بعد فون لے کر رات بھر آتے رہنے والے پیغامات پڑھنا شروع کیے تو ان میں کیا کیا نہ تھا، امید کے رنگ اور روشن مستقبل کے پیغامات، ملک میں تبدیلی کے اشارے اور انقلاب کا جذبہ بھی… ظاہر ہے کہ زیادہ تر پیغامات ایسے بھی تھے جن میں بھیجنے والوں کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا بھجوا رہے ہیں، کیونکہ وہ ایک پیغام وصول کرتے ہیں اور اسے پڑھے بنا ’’ فارورڈ‘‘ کر دیتے ہیں…’’ نگہت ‘‘ کے پیغام کے آخر میں ’’ ریاض باجوہ‘‘ لکھا ہوا تھا اور ’’حنان ‘‘ کے پیغام کے آخر میں روبینہ شاہین… طویل پیغامات کا سلسلہ تھا جسے کئی دن تک مجھے پڑھتے رہنا تھا۔ حسب عادت کھڑکی کا پردہ کھولا، اس امید پر کہ باہر ایک روشن صبح ہو گی، آسمان نیا نیا سا ہو گا، سورج ہر روز سے زیادہ چمک دار اور موسم خوش گوار، یہی سب کچھ ان پیغامات میں سال کی پہلی صبح کی بابت لکھا تھا… مگر… کھڑکی کی گرل سے پار کچھ نظر نہ آ رہا تھا، گہری دھند کہ جس سے visibility تین فٹ کے فاصلے پر بھی نہ تھی، ایک سفید کمبل کی طرح ہر شے نے اوڑھی ہوئی تھی۔

اسی دھند نے آسمان، سورج اور منظر نامہ سارے کا سارا چھپا رکھا تھا، ’’ تو یہ ہے تیری پہلی صبح نئے سال!!!‘‘ میں نے سوچا اور پردہ بند کر دیا۔ اس دھندلی صبح نے نا امیدی کا ایک عجیب سا رنگ ہر چیز پر چڑھا رکھا تھا، کیا ایسا ہی ہو گا نیا برس…یہ وہ دھند ہے جو اس وقت ملکی فضا پر چھائی ہوئی دھند کی عکاسی کر رہی تھی، یہی وہ دھند ہے جو ہمارے مقدر پر پڑی نظر آ رہی ہے، اس ملک میں نئے سال میں بھی وہی عالم ہے، وہی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے جس نے گھریلو صارفین کی زندگیوں کو مشکلات کا شکار کر رکھا ہے اور گاڑیوںکے لیے سی این جی بند ہونے کے باوصف اس میں کوئی فرق نہیں پڑا… الٹا گاڑیوں کے لیے گیس بند کی ہے تو جڑواں شہروں میں پٹرول ناپید ہو گیا اور صرف ان دو شہروں پر ہی موقوف نہیں ہو گا یقیناً۔

لاہور سے بیٹے کا کل فون آیا کہ اس کے ہاسٹل میں آٹھ گھنٹے سے بجلی بند ہے، گیس پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کہ بسا اوقات کھانا بھی نہیں بن پاتا۔ٹیلی فون پر بچوں کے مسائل کا کیا حل تلاش کیا جا سکتا ہے، بچے پاس ہوں تو ماں انھیں اپنی گود کی گرمی دے کر دلاسہ دے سکتی ہے مگردور بیٹھے بچوں کے مسائل سے تو اپنے گھر کا سکون اور آرام برا لگنے لگتا ہے۔ انھیں دلاسہ دے سکتے ہیں، صبر کی تلقین کر سکتے ہیں مگر لگتا ہے کہ اس برس مسائل اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ نئی نسل کو ملک سے محبت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکے گا۔

سیاسی منظر نامے پر بھی یہ دھند چھائی ہوئی ہے، مختف ’’ فنکار‘‘ سیاست کے اسٹیج پر آ گئے ہیں اور دیکھیں کس کا فن ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ پائے گا اور کون ہے جسے اپنی سیاست سے نہیں بلکہ ریاست سے محبت ہو گی؟ کیا ہم واقعی یقین کر سکیں گے کہ کوئی کسی بیرونی طاقت کے بوتے پر ملک میں لوٹا ہے یا نہیں … کس کی پشت پر کس کا ہاتھ ہے اور کون کس کے اشارے پر ناچ رہا ہے!! کون آسمان پر گرد اڑا کر فضا کو اور بھی غبار آلود کر دے گا اور کون ملک کے آسمان پر سورج کی طرح چمکے گا اور کوئی ہو گا جسے واقعی عوام کے مسائل کا احساس ہو گا، کوئی ہمارے لیے تڑپے گا اور ہمارے لیے سوچے گا۔

اس کی نیندیں ہمارے مسائل پر اڑ جائیں گی، وہ ہمارے دکھوں پر دکھی ہو گا ، ہماری تکالیف اس کی نیندیں اڑا دیں گی، وہ ہماری طرح سوچے گا، اسے ہمارے مسائل کا ادراک ہو گا، ہمیں خواب غفلت سے جگائے گا، ہمارے ملک کو اوج ترقی پر لے جائے گا، ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا، اس کے ذاتی مفادات ایسے نہ ہوں گے جیسے ہمارے سابقہ اور حالیہ حکمرانوں کے رہے ہیں، ان کے بیرون ممالک ایسے بینک اکاؤنٹ نہ ہوں گے جن کے پیٹ بھرتے بھرتے وہ ملکی تجوریاں خالی کر دیں…ہے کوئی ایسا مخلص، ہے کوئی ایسی امید کی کرن، ہے کوئی ایسا بے نیاز اور اپنے مفادات سے بالا؟ اگر ہے تو سامنے آئے… اپنے اثاثے، اپنے ارادے اور اپنے لائحہ عمل ظاہر کرے اور ملک کی بالخصوص تعلیم یافتہ اور باشعور کلاس کو اعتماد میں لے، اس کے لیے مختلف جگہوں پر کئی سیمینار کروا کر لوگوں کی رائے جانیں، ان پر اپنا نقطہء نظر واضح کریں اور ان کی حمایت حاصل کر کے تبدیلی اور ترقی کا عمل ہر لیول پر شروع کریں کہ پوری قوم سوئی ہوئی ہے، ہر کوئی تبدیلی چاہتا ہے اور ہر کسی کے ذہن میں کوئی نہ کوئی سوچ ہے مگر اس سوچ کے اظہار کے لیے کوئی فورم نہیں ہے، ان کو کوئی راہ سجھانے والا نہیں ہے، ہر کوئی کہتا ہے کہ ہم تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں مگر اس مشکل سے کس طرح نکلا جائے… اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔

ہم کہتے ہیں کہ حکومت ہمارے مسائل میں اضافہ ہی کرتی جا رہی ہے مگر ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اپنی ناپسندیدہ حکومت سے نجات کیوں کر حاصل کی جا سکتی ہے اور اگر حالیہ اور ناپسندیدہ حکومت سے نجات حاصل کر لیں تو اس کے بعد کون ہے جو ہمیں پسند ہو گا اور وہ بھی ایسا ہی ثابت نہیں ہو گا۔ عوام سوچتے اور کہتے ہیں کہ فوج کیا سوچ رہی ہے، کیوں آ کر ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھالتی… مگر ایسا ہو جائے تو فوج بھی چند ماہ میں ناپسندیدہ بن جاتی ہے اور مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں… ہر دور میں ہمارے مسائل میں اگر اضافہ نہ بھی ہو تو وہ جوں کے توں رہتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب وہ ہے جس کی بابت ہم نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔

بات دراصل یہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے، ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ ہر حکومت بری ہے اور ہمارے مسائل میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے مگر ہمارا کیا کردار ہے؟کیا ہمیں ادراک ہے کہ ہم خود اپنے مسائل کے ذمے دار ہیں، کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں سدھر سکتی جب تک وہ اپنے مسائل سے آگاہ نہ ہو اور ان کا حل نہ چاہتی ہو۔ہم لوگ جو چند جماعتیں پڑھ کر خود کو خواندہ کہلاتے ہیں ہم کسی بات پر احتجاج نہیں کرتے، ہمارا احتجاج ہمارے گھروں اور ڈرائنگ روموں میں ہی ہوتا ہے، ہم گفتگو کے بادشاہ اور عمل کے بودے ہیں۔ کوئی بھی مسئلہ ہو تو احتجاج کو سڑکوں پر وہ لوگ نکلتے ہیں جن میں شر پسند عناصر بھی ہوتے ہیں اور وہ لوٹ کھسوٹ اور توڑ پھوڑ کا بازار گرم کر دیتے ہیں، وہ قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کا ایک دن کا احتجاج ملک کو ترقی کے راستے پر چھ ماہ ریورس میں لے جاتا ہے۔ ہم سہل پسند ہیں، اس لیے نہیں نکل سکتے کہ گرمیوں میں ہمیں گرمی اور سردیوں میں سردی لگتی ہے، کہاں ہم سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر سکتے ہیں، وہاں تو غالباً پبلک ٹائیلٹ کی سہولیات بھی نہ ہوں گی تو کیا ہو گا، کھانا کہاں سے کھائیں گے؟

اسی لیے ہمیں ’’ا سپانسرڈ‘‘ sponsored مظاہروں میں نسبتاً بہتر کلاس کے اور منظم عوام نظر آتے ہیں۔ اب کون سا مظاہرہ کہاں سے اسپانسر ہوتا ہے، اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں۔نئے سال میں اب سب اپنی نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ جب عوام کا جم غفیر نئے رہنماؤں کی قیادت میں اسلام آباد میں تحریر چوک بنانے کو آئے گا اور تبدیلی کیے بنا نہیں لوٹے گا!!! کیا تبدیلی آئے گی، کیا یہ پلان ہائی جیک ہو جائے گا۔

اندر خانے کوئی معاہدہ ہو جائے گا اور اندرون خانہ مستقبل کی سیٹنگ ہو جائے گی؟ یہ سارے سوالات ہیں جو ہمارے ذہنوں میں چند دن اور الجھن ڈالے رکھنے والے ہیں اور فقط چند روز اور… تحریر چوک بنے گا یا نہیں، کوئی فیصلہ ہو گا یا ہمیشہ کی طرح اندر ہی اندر ریوڑیاں بٹ جائیں گی اور ملکی سیاست یونہی افواہوں اور قیافوں پر چلتی رہے گی اور ہم اپنے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر حکومت کو برا بھلا کہتے رہیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔