عسکری ڈاکٹرائن میں تبدیلی

ایڈیٹوریل  ہفتہ 5 جنوری 2013
قومی سلامتی کو لاحق خطرات غیر ریاستی عناصر سے جنم لیتے ہیں، وزیراعظم  فوٹو: فائل

قومی سلامتی کو لاحق خطرات غیر ریاستی عناصر سے جنم لیتے ہیں، وزیراعظم فوٹو: فائل

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جمعے کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں 14ویں قومی سلامتی ورکشاپ کی تقریب تقسیم اسناد سے خطاب میں انتہائی اہم باتیں کیں۔انھوں نے کہا ہے کہ دہشت گردی سے جامع انداز میں نمٹنے کے لیے قومی سلامتی کے اداروں کو انٹیلی جنس معلومات مزید بہتر بنانے اور سول، فوجی اداروں کے درمیان مؤثر رابطہ کار استوار کرنے کی ضرورت ہے چنانچہ ہمیں اولین فوقیت کے حامل اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے عسکری نظریے کو از سرنو مرتب کرنا ہوگا۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بھی اس سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو لاحق خطرات بنیادی طور پر غیر ریاستی عناصر سے جنم لیتے ہیں جو اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے ریاستی علامات اور اداروں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری بہادر اور جانباز سیکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں نے بھی عظیم قربانیاں دی ہیں۔

پاکستان اس وقت جس بحران اور خلفشارکا شکار ہے‘ اس کا نیوکلس انتہاپسند نظریات اور ان سے جنم لینے والی دہشت گردی ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی سطح پر جو نئی صف بندی ہوئی اس کی بنیاد انتہا پسندی اور دہشت گرد گروہ ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں دنیا کمیونزم کے حامیوں اور کمیونسٹ مخالفوں میں تقسیم تھی۔ آج کی دنیا بالکل نئی اور انوکھی تقسیم سے دوچار ہے۔ اب ہر ریاست نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہے یا نہیں۔ پاکستان بھی اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔اس حوالے سے ملک میں نظریاتی سطح پر بھی واضح تقسیم موجود ہے۔بعض حلقے اسے امریکا کی جنگ قرار دیتے ہیں،اس حوالے سے ان کے پاس دلائل بھی موجود ہیں۔

ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ اگر پاکستان امریکا سے الگ ہو جائے تو ملک میں دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اتنا آسان اور سادا معاملہ ہے؟ ایسا نہیں ہے۔پاکستان میں ہتھیار بند گروہ اپنی کارروائیوں سے ریاست کو چیلنج کررہے ہیں۔ وہ حساس فوجی مقامات پر حملے کرتے ہیں۔ وہ سیکیورٹی اہلکاروں کو شہید کر ر ہے ہیں۔ پبلک مقامات پر بم دھماکے کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اسکولوں کو بم دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں۔ عسکریت پسند اپنی کارروائیوں کی ذمے داری بھی قبول کرتے ہیں۔

اس جنگ میں جتنی کنفیوژن بڑھے گی ، پاکستان کو اتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ ایسی جنگ ہے جو دو فوجوں کے درمیان نہیں ہے‘ اس میں دشمن کو تلاش کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ چھپ کر وار کرتا ہے۔ دشمن کی شکلیں بھی مختلف ہیں‘ وہ بہروپ بھرتا رہتا ہے۔ شاید اسی لیے وزیراعظم نے کہا ہے کہ آج قومی سلامتی بہت پیچیدہ اور کثیر الجہتی تصور بن چکا ہے اور دنیا تبدیلیوں سے گزر رہی ہے جب کہ سیکیورٹی اور خودمختاری کے روایتی تصورات بھی مسلسل تشکیل پا رہے ہیں، بین الریاستی اور عالمی تعلقات میں اس جہت کے شامل ہونے کے اثرات سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ قومی سلامتی کے مقاصد کی موثر پیروی کے لیے اسٹرٹیجک فریم ورک وضع کرنے کی ضرورت ہے جو قومی قوت کے تمام عناصر کا احاطہ کرتا ہو۔

وزیراعظم پاکستان نے اپنے خطاب میں جو باتیں کی ہیں، ان سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اور پاک آرمی حالات کی نزاکت کا ادراک رکھتی ہیں اور دہشت گردی اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کو بخوبی سمجھتی ہیں۔ اگلے روز کور کمانڈر کانفرنس میں ملکی سلامتی کے امور پر بھی غور ہوا ہے۔ اب کوئی شبہ نہیں رہا کہ اس وقت پاکستان کو اپنے عسکری نظریے میں ترمیم یا تبدیلی کی ضرورت ہے۔گزشتہ 6 دہائیوں سے شمال مغربی سرحد کو محفوظ تصور کیا جاتا چلا آ رہا ہے۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد شاید یہ تصور درست ہو اور اس کو سامنے رکھ کر جو دفاعی اسٹرٹیجی اپنائی گئی وہ بھی درست ہو لیکن اب حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ جب سابق سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، اس وقت پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر خطرات منڈلائے لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس خطرے کی نوعیت مختلف تھی۔ سوویت افواج کے واپس جانے اور پھر وہاں طالبان کی حکومت قائم ہونے تک بھی معاملات میں بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ افغانستان پر امریکا کے حملے کے بعد پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر بڑی تبدیلی آچکی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے اور اس سے ملحقہ افغانستان کے علاقوں میں ہونے والی سرگرمیاں پاکستان کے لیے سنگین مسائل پیدا کر رہی ہیں۔

ان علاقوں میں القاعدہ اور طالبان سے وابستہ گروہ سرگرم عمل ہیں۔ادھر افغانستان میں امریکا اور نیٹو آرمی بھی موجود ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موثر ریاستی رٹ نہ ہونے کے باعث نان اسٹیٹ ایکٹرز کے لیے نقل وحرکت جاری رکھنا خاصا آسان ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ڈرون حملے بھی ہو رہے ہیں جس سے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر حرف آ رہا ہے۔ ادھر تحریک طالبان ملک کی سیکیورٹی سے وابستہ اداروں پر حملہ آور ہو رہی ہے۔ یہ لوگ جدید اسلحہ سے لیس اور پوری طرح تربیت یافتہ ہیں۔ ان حقائق اور خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو اب مشرقی سرحدوں کے ساتھ ساتھ مغربی اور شمالی سرحد پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے، غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے غیرمعمولی اقدامات کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر مستقل بنیادوں پر حفاظتی اقدامات کی ضرورت سے انکار کیا جا سکتا ہے نہ اس سے پہلوتہی کی جانی چاہیے۔اسی طرح پاک ایران سرحد پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔سرحدوں پر حفاظتی انتظامات کرنا کوئی برائی نہیں ہے۔ ریاست کا پہلا فرض ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔