ویلنٹائن ڈے سے آخر آپ کو مسئلہ کیا ہے؟

وسیم نقوی  منگل 14 فروری 2017
میں ذاتی طور پر ویلینٹائن ڈے نہ مناتا ہوں نہ منانے کے حق میں ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، میں ان کے درمیان دیوار بن جاؤں۔ فوٹو: فائل

میں ذاتی طور پر ویلینٹائن ڈے نہ مناتا ہوں نہ منانے کے حق میں ہوں، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، میں ان کے درمیان دیوار بن جاؤں۔ فوٹو: فائل

سچی بات تو یہ ہے کہ میں مسلمان ہونے کے باوجود اپنے تمام معاملات عیسوی کلینڈر کے مطابق طے کرتا ہوں۔ اُٹھتا صبح پیٹر کی ایجاد کردہ گھڑی سے ہوں، اپنے تمام کام اسی کےمطابق کرتا ہوں، نماز کے اوقات میں بھی اس غیر مسلم کی بنائی ہوئی گھڑی کا سہارا لیتا ہوں، نماز کے علاوہ اذان اور روزہ بھی اسی لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کی بدولت سُنتا اور کھولتا ہوں جو ایک وقت میں حرام کہلاتا تھا۔

بیرونِ ملک دوستوں سے رابطے کے ذریعے معلوم چلتا ہے کہ اُن کی اہلیہ، بہنیں، والدہ باحجاب اور برقع پوش ہیں، اور وہ اپنی تہذیب کو مکمل آزادی کے ساتھ منارہی ہیں۔ خواتین کے لیے شلوار قمیض اور برقع کا استعمال اور مردوں کے لیے داڑھی، ٹوپی، ٹخنوں سے اونچی شلوار اور ہاتھ میں تسبیح رکھنے سمیت کسی چیز پر کوئی قید نہیں، اگر کوئی غیر مسلم  لڑکی مکمل پردے میں ہو تو ہم بھی تعریف کرتے ہیں کہ ماشاءاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے، اللہ اسے ہدایت دے اور یہ ایسی ہی رہے۔

یہ تمام خیالات اور تجزیہ ہماری تہذیب و مذہب کے مطابق ہوتا ہے، جسے ہم حق و سچ سمجھتے ہیں اور دوسرے شخص کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ حال ہی میں سندھی ثقافتی دن منایا گیا جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکا، کینیڈا تک منایا گیا تھا۔ پاکستانیوں نے سڑکوں پر سندھی گانے پر رقص کرکے خوب آزادی سے منایا، جس میں بہت سے گورے بھی شریک ہوئے اور وہ بھی خوب لطف اندوز ہوئے۔ کسی گورے نے نہیں کہا کہ بھائی، یہ پاکستان اور سندھ کی ثقافت ہے، اِس سے ہمارا کیا تعلق؟ نہ کسی گورے نے اِس سے اپنے عقیدے کو خطرے میں محسوس کیا نہ کسی نے امریکا کے خلاف سازش قرار دیا۔

آج ویلینٹائن ڈے ہے، اگر آپ کراچی کے رہنے والے ہیں تو سڑکوں پر جابجا بینرز لگے نظر آئیں گے، جو مختلف مذہبی جماعتوں کی طرف سے لگائے گئے ہیں اور اُن سب پر ویلینٹائن ڈے مخالف مواد درج ہے۔ (کاش یہ مذہبی جماعتیں اتنی ہی شدت سے طالبان و دہشت گردوں کے خلاف بھی مہم چلاتیں اور ایسے ہی بینرز اور ریلیاں نکالتی جو پاکستان کے نومولود بچے سے لے کر بزرگ تک سب کے قاتل ہیں)۔

ویلنٹائن ڈے منانے سے پاکستان اور ہماری مذہبی تہذیب کو خطرہ ہے، عوامی مقامات پر اُس کو منانے پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔ اگر یہی معیار اور یہی پیمانہ ہم نے بنالیا ہے کہ کسی بھی غیر ملکی تہوار کو ہم اپنے ملک اور ایمان کے لئے خطرہ تصور کررہے ہیں تو پھر یہی معیار غیر ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے بھی ہونا چاہیئے، ورنہ انصاف تو نہیں ہوا کہ ہم اپنی ریاست میں تو تمہاری کوئی چیز نہیں چلنے دیں گے، لیکن اگر تم نے اپنے ملک میں ہماری مذہبی آزادی پر پابندی لگائی تو اچھا نہیں ہوگا، پھر احتجاج بھی ہوگا اور دنیا تو تمہارا مکروہ چہرہ بھی دکھائیں گے کہ تمہیں اسلام فوبیا ہے۔

ہم سارا سال امریکا کو گالیاں اور لعن طعن کرتے ہیں لیکن جیسے ہی ٹرمپ نے مسلمانوں پر پابندی عائد کی تو ہر طرف کُہرام مچ گیا جیسے ہمارا امریکا کے بغیر گزارا ہی نہیں۔ جب غیر مسلم ممالک مسلمانوں کے داڑھی رکھنے، برقع پہننے، عوامی مقامات پر تبلیغ کرنے پر پابندی لگادیں تو پھر ہمیں بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جب ہم اپنے ملک میں اُن کے کسی تہوار کو منانے کی اجازت نہیں دے سکتے تو اُن کو بھی حق ہے کہ وہ بھی اپنے ملک میں اپنے عقیدے اور تہواروں کے علاوہ کسی قسم کے تہوار منانے کی اجازت نہ دے، لیکن شکر کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

میں ذاتی طور پر ویلینٹائن ڈے نہ مناتا ہوں نہ منانے کے حق میں ہوں، لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ جو ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں، میں اُن کے درمیان دیوار بن جاؤں اور ہر پیار کرنے والے کو روک کر کہوں کہ بھائی اور میرے بھائی کی گرل فرینڈ ایسا مت کرو یہ سب چھوڑ دو، لیکن مجھے کیا غرض؟ جو مناتا ہے وہ منائے جو نہیں مناتا وہ نہیں منائے۔ جتنا حق منانے والوں کا ہے، اُتنا ہی حق نہ منانے والوں کا ہے۔

لیکن اِس سے قطع نظر یہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ اگر آپ نے ویلنٹائن ڈے پر تھوڑی بھی لچک دکھائی تو فوراً سوال آئے گا کہ کیا آپ اپنی بہن کو بھی کسی کے ساتھ جانے کی اجازت دیں گے؟ ارے معصوموں! جو لڑکیاں اپنے پیاروں سے ملنے آئیں ہیں، کیا اُن کو اُن کے بھائیوں نے بھیجا ہے؟ یہ ذاتی حملے اور فوراً خاندان پر حملہ وہی لوگ کرتے ہیں جن کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی اور وہ خود کو مذہب اور معاشرے کا علمبردار اور نجات دہندہ سمجھتے ہیں کہ بس وہی ٹھیک ہیں، باقی جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سب خرافات ہیں۔ دنیا جاہل ہے بس وہی عقلِ کل ہیں، یہاں گولی مارنے والے کو تو کوئی نہیں پوچھتا لیکن پھول دینے والے پر کُفر کے فتوے ہیں۔ محبت ضروری نہیں کہ نامحرم لڑکا لڑکی ہی کریں، ماں اپنے بیٹے سے، بہن اپنے بھائی سے، شوہر اپنی بیوی سے، اسی طرح سے سب اپنے پیاروں سے کرسکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے ذہن میں بیٹھالیا ہے کہ یہ یومِ محبت نہیں یوم بےحیائی ہے۔

اگر میں بھی ڈنڈا لے کر عوامی مقامات پر کھڑا ہوجاؤں کہ ہاں بھائی کون ہے جو ویلینٹائن ڈے منانے آئے؟ تو انتہا پسندی کی یہ پہلی سیڑھی ہے کہ آپ اپنے کئے جانے والے فعل کو تو درست لیکن دوسرے کو اس چیز کی اجازت نہ دیں کہ وہ بھی اپنے مطابق زندگی گزار سکے۔

ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کیا آپ بلاگر کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔