- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
- نکاح نامے میں ابہام یا شک کا فائدہ بیوی کو دیا جائےگا، سپریم کورٹ
پیمانِ وفا صرف وطن عزیز کے ساتھ
محترمی و مکرمی امریکا تو جب تک اس کی زندگی ہے وہ اس نے حالت جنگ ہی میں گزارنی ہے اگرچہ کسی کی مجال نہیں کہ وہ امریکا کے ساتھ جنگ چھیڑ سکے لیکن امریکا بغیر جنگ کے زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس وقت ماضی کی جنگی تلخیوں کو زندہ نہیں کرتے۔ آج و ہ افغانستان میں جنگ لڑ رہا ہے اور اپنے ساتھ اپنے حلیفوں کو بھی حالت جنگ میں رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ اس کے بعض حلیف بھاگ گئے ہیں لیکن وہ اپنے قابل اعتماد حلیفوں کے ساتھ ایک ایسے لشکر کے خلاف جنگ کر رہا ہے جس کی کوئی فوجی تنظیم نہیں اور نہ ہی اس کے پاس اپنا اسلحہ ہے۔ جو ہے وہ دشمنوں سے چھینا ہوا ہی ہے۔
ان کی کوئی چھاؤنی نہیں۔ وہ پہاڑوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ان کی غاروں میں رات کو آرام کرتے ہیں۔ یہی ان کی چھاؤنیاں ہیں۔ گرمیوں سردیوں ہر موسم میں ان کے کپڑے ایک جیسے رہتے ہیں لیکن ان کے جسموں میں اتنی طاقت ہے کہ موسم کی سختیوں کو برداشت کر جاتے ہیں اور صلح کے لیے بے تاب نہیں ہوتے۔ امریکا اب سال بھر میں یا کچھ زیادہ وقت میں افغانستان میں بے معنی جنگ سے جان چھڑانا اور نکلنا چاہتا ہے۔ علاوہ جنگ میں گولی سے مرنے کے اس کے بہت سے فوجی جن کی تعداد ہزاروں میں ہے خودکشی کر چکے ہیں۔
ان کی لاشیں امریکا جاتی ہیں یا نہیں‘ ان کے لیے کوئی روتا نہیں اور نہ ہی فریاد اور احتجاج کرتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ اکثر کا کوئی باپ اور خاندان ہی نہیں ہے۔ وہ کس کے بیٹے ہیں۔ ان امریکی ماؤں کی اولاد ہیں جنھیں ’’سنگل مدر‘‘ کہا جاتا ہے لیکن ان کی موت کسی خاندان کا نقصان ہو نہ ہو امریکی فوج کا نقصان ضرور ہے اور فوج اپنی سپاہ کے نقصان سے پریشان ہوتی ہے۔ صورت حال اور وجہ جو بھی ہے امریکا افغانستان کی جنگ سے نکلنا چاہتا ہے لیکن وہ جاتے جاتے اپنے چند دوسرے مقاصد بھی پورے کرنا چاہتا ہے مثلاً افغانستان کی تقسیم کہ اس کی بہادر اور بے خوف طاقت بکھر جائے اور پاکستان کی وہ حالت یا اس سے بھی بدتر جو اس کے ایٹم بم سے پہلے تھی۔
امریکا کو پاکستان کا ایٹم بم اور اس کی اس خطے میں ایٹمی طاقت قابل قبول نہیں ہے۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جب ہم نے ایٹمی دھماکا کرلیا تو امریکا کے ایک نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا ایٹم بم امریکا کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ یہ ایٹم بم اب بھی ناقابل برداشت ہے اور امریکا سنا ہے کہ پاکستان کے بعض موثر سیاست دانوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ آیندہ پانچ برسوں کے لیے وزیراعظم بن جائیں لیکن اس کے عوض یہ بم امریکا کو دے دیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ میاں نواز شریف کو جب یہ پیش کش کی گئی تو انھوں نے انکار کر دیا۔
امریکا پاکستانی لیڈروں اور انتظامیہ کو اپنا پالتو اور وظیفہ خور سمجھتا ہے اس لیے وہ پاکستان کے کسی بھی مفاد کے خلاف کوئی بھی پیشکش بلا تکلف کر دیتا ہے۔ اگر یہ درست ہے تو اسے میاں نواز شریف کا انکار سن کر تعجب ہوا ہو گا۔ ایک بالکل خلاف توقع انکار اور ناقابل تصور گستاخی۔ پاکستان کے سائنس دانوں نے بم تو بنا لیا لیکن پاکستان کے سیاست دانوں اور ارباب اختیار کو ہاتھ پاؤں پڑ گئے کہ اب اس بم کو سنبھالیں کیسے لیکن قدرے اطمینان ہوا کہ اس گئی گزری قوم میں ابھی کوئی چنگاری کہیں دبی ہوئی ہے جو دشمن کی کسی بری نگاہ کو دیکھ کر سلگ اٹھتی ہے۔
اگرچہ لاتعداد اور ناقابل برداشت مسائل نے قوم کی کمر ہمت توڑ دی ہے اور اسے دو وقت کی روٹی کے لیے بڑے ترلے کرنے پڑتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ زندہ رہنا چاہتی ہے۔ میاں نواز شریف ہو یا کوئی ان جیسا دوسرا سیاست دان وہ جب دنیا کی سپر پاور جس کی دھمک وہ دن رات اپنے پڑوس میں سن رہا ہے اور جس کے گھروں پر اس کے طیارے بم برسا رہے ہیں وہ اپنے ہم وطنوں کی اس ہمت کو محسوس کر کے قوت انکار کا مالک بن جاتا ہے ورنہ امریکا کو انکار کرنا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنا ہیں۔ کوئی بھی ڈرون طیارہ کسی بھی گھر پر بم برسا سکتا ہے۔ افغانستان میں تو امریکا براہ راست موجود ہے لیکن پاکستان میں بھی اس کی موجودگی ہر وقت محسوس ہوتی رہتی ہے چنانچہ پاکستان کو اپنے ایٹم بم کی قیمت ادا کرنی ہو گی اور میں یہ عرض کر دوں کہ اگر یہ بم نہ ہوتا تو مسلمانوں کے لیے سارا پاکستان کشمیر یا گجرات بن چکا ہوتا البتہ ہمارے بھارت پرستوں کا کام آسان ہو جاتا‘ آسان کیا ہوتا ان کا مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔
بھارت نے ہمارے ہاں دوستی کی ایک لابی تیار کر لی ہے جو خاصی سرگرم ہے خصوصاً میڈیا میں اس کے مہرے بہت متحرک ہیں لیکن جاہل عوام جو میڈیا والوں جیسے اہل علم نہیں ہیں لیکن اس مٹی سے پیار کرتے ہیں اور اس کی خوشبو میں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اسی خوشبو میں بس کر وہ اس مٹی میں دفن ہو جانا چاہتے ہیں۔ مٹی کا قرض چکانے والوں کو کس کی مجال ہے کہ کوئی لالچ دے کر اس مٹی سے لاتعلق کر دے۔ ہمارے عوام کسی دوسرے ملک کی شہریت کو اپنے وطن کے ساتھ غداری سمجھتے ہیں۔ وہ اسے شرعاً حرام سمجھتے ہیں کہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم ملک کی حفاظت کی کیسے ذمے داری اٹھا سکتا ہے۔ وہ کسی غیر مسلم کے ساتھ کیسے وفاداری کا عہد کر سکتا ہے۔ بہرحال یہ وہ کمزور نادار اور مفلس پاکستانی ہیں جن کو ان کے لیڈروں نے جی بھر کر لوٹا ہے اور لوٹتے چلے جا رہے ہیں لیکن یہ بھوکے عوام اپنے وطن کے ساتھ ایک ناقابل شکست عہد وفا رکھتے ہیں۔ ان کی تمام وفائیں اپنے وطن عزیز کے ساتھ ہیں۔ کسی نوکری اور کسی وزارت کے ساتھ نہیں ہیں۔ امریکا کو پاکستان میں بہت کچھ مل جائے گا لیکن ایک حد تک اسے آگے ’’اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے‘‘
ایک ضروری گزارش:
آپ مہربانی کر کے ہفتہ 5 جنوری کے ایکسپریس میں طلعت حسین کا کالم غور کے ساتھ پڑھیں‘ کہیں بے خبری میں مارے نہ جائیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔