عامل ’باولا‘ بنگالی بمقابلہ ماہرِ نفسیات

عندیل علی  بدھ 15 فروری 2017
میں جنّات اور جادو کے وجود سے منکر نہیں ہوں، لیکن آسانی سے سمجھ آجانے والے اور قابلِ حل مسائل کو بھی ہم سوہانِ روح بنالیتے ہیں۔

میں جنّات اور جادو کے وجود سے منکر نہیں ہوں، لیکن آسانی سے سمجھ آجانے والے اور قابلِ حل مسائل کو بھی ہم سوہانِ روح بنالیتے ہیں۔

  • میرے شوہر اب میری طرف دیکھتے تک نہیں، لگتا ہے کسی نے تعویذ کروادیا ہے۔
  • میرا بیٹا اب میرا نہیں رہا، ہر وقت منگیتر سے باتیں کرتا رہتا ہے۔
  • نوکری نہیں ملتی ہے، بندش ہوگئی ہے۔
  • اولادِ نرینہ کیوں نہیں ہوتی ہے؟
  • بیٹی پر جن آگیا ہے، میں کہتی تھی ناں! شام کو چھت پر مت جایا کرو۔

مندرجہ بالا اقوال ہمارے معاشرے میں کافی عام ہیں۔ اکثر خواتین و حضرات اِن مسائل کا شکار نظر آتے ہیں اور ان کا حل؟ عامل بابا بنگالی، جن کی مارکیٹنگ شہر کی ہر دیوار پر ہورہی ہوتی ہے اور اِس سے بھی زیادہ اُن کے چرچے زبان زدِ عام ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مسائل دراصل سماجی، معاشی اور نفسیاتی نوعیت کے ہیں۔ میں جنّات اور جادو کے وجود سے منکر نہیں ہوں، لیکن آسانی سے سمجھ آجانے والے اور قابلِ حل مسائل کو ہم سوہانِ روح بنالیتے ہیں اور پھر اپنی جمع پونجی، چین سکون اور کبھی کبھار عزت و آبرو بھی جعلی عاملوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھتے ہیں۔

اِن مسائل کے پیچھے کارفرما عوامل پیش کئے دیتا ہوں، مشورہ مفت ہے، باقی آپ کی مرضی۔

 

  •  ’’میرے شوہر اب میری طرف دیکھتے تک نہیں، لگتا ہے کسی نے تعویذ کروا دیا ہے‘‘

عموماً یہ شکوہ خواتین کرتے ہوئے ملتی ہیں۔ دراصل ہوتا کچھ یوں ہے کہ تمام ہی خواتین و حضرات جو نوکری کرتے ہیں تقریباً 8 گھنٹے روزانہ انتھک محنت کرتے ہیں۔ ان آٹھ گھنٹوں میں ایسے کئی مسائل ہوتے ہیں جن کا روز سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر کام کی بہتات اِس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ کھانا کھانے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔ دوسری اہم بات یہ کہ اِن آٹھ گھنٹوں کے علاوہ روزانہ 2 گھنٹے دفتر آنے اور جانے میں بھی لگ جاتے ہیں، اب ایسی صورتحال میں جب ایک بندہ صبح کا نکلا شام کو گھڑ لوٹتا ہے تو اُس کا جسم ٹوٹ رہا ہوتا ہے، وہ آرام چاہتا ہے، لیکن اِس کے برعکس اُس کو ایک درجن بریکنگ نیوز سننے کو ملتی ہیں۔ وہ بندہ جو دفتر میں چار لوگوں کی جی حضوری کرکے دس باتیں سُن کر گھر لوٹتا ہے پھٹ پڑتا ہے۔

بیوی غم زدہ ہو کر رو پڑتی ہے، گھر میں یاسیت کا سماء چھا جاتا ہے۔ یہ ساری کہانی صرف ایک دن کی نہیں ہے بلکہ اگلے دن دوبارہ یہی ہوتا ہے۔ چند دن بعد بندہ اِس سائیکل کو توڑنے کے لئے حل ڈھونڈ نکالتا ہے۔ اب وہ گھر وقت پر گھر آنے کے بجائے دیر سے آتا ہے، کچھ تو عموماً کھانے کے وقت آجاتے ہیں لیکن کچھ لوگ رات دیر تک دفتر میں وقت لگانا شروع کردیتے ہیں جبکہ کچھ سیدھا کسی دوست کی طرف نکل جاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ اِس حرکت کو حالت سے نبردآزما ہونا نہیں بلکہ حالات سے بھاگنا کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس حل کا گھر میں اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ بتا کر تو بندہ غائب ہوتا نہیں ہے، حیلے بہانے کرتا ہے اور ذہن میں فطور ڈالنے کے لیے ٹی وی پیش پیش رہتا ہے اور یوں بیوی کے ذہن میں شک فوراً کسی عورت کے حوالے سے آجاتا ہے۔ اب جو عورت ہے ہی نہیں اُس کا سراغ کہاں سے ملے گا؟ نتیجتاً کوئی غم خوار کسی بابے کا نام بتا دیتی ہے اور بس گھر کا شیرازہ بکھرنا شروع۔

 

  •  ’’میرا بیٹا اب میرا نہیں رہا، ہر وقت منگیتر سے باتیں کرتا رہتا ہے‘‘

تو اور کیا کرے؟ آپ کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامے دیکھے؟ جس سے شادی کرنی ہے، جس کے ساتھ رہنا ہے، اُس سے باتیں نہیں کرے گا تو کس سے کرے گا؟ بلکہ اگلا مسئلہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ’’اب تو بیٹا بیوی کے پلو سے ہی بندھ گیا ہے۔‘‘ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ خاندان ہمیں خود بخود ملتا ہے لیکن دوست ہم خود بناتے ہیں، اور انسان کا سب سے قریبی دوست اُس کا شریکِ حیات ہی ہوتا ہے۔ ذرا غور سے پڑھیئے! ’’شریکِ حیات‘‘ اب بندہ اور بندی ایک دوسرے سے غم نہیں بانٹیں گے تو کس سے بانٹیں گے؟ بات چیت کرنے کے لئے پرائیوسی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، ساری دنیا کے سامنے بیٹھ کر تو دُکھڑے گائیں گے نہیں، اِس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیئے۔ ایک لڑکی جب اپنا گھر چھوڑ کر آپ کے گھر آگئی ہے تو اُسے اُس کا حق ملنا چاہیئے۔

لیکن اِس مسئلے کا بھی ایک ہی حل ہوتا ہے، عامل باؤلا بنگالی! جی ہاں مائیں معذرت کے ساتھ کسی نہ کسی کے کہنے پر یہ کیس بھی کسی جعلی عامل کے پاس لے جاتی ہیں اور پھر پیسے کا زیاں شروع۔

 

  •  ’’نوکری نہیں ملتی ہے، بندش ہوگئی ہے‘‘

جو بندہ یہ دُہائی دے اُس سے یہی پوچھنا چاہیئے کہ نوکری نہیں ملتی ہے یا پسند کی نوکری نہیں ملتی ہے؟ تلخ سچائی تو یہی ہے کہ بے روزگاری بہت زیادہ ہے، افراطِ زر بھی بہت زیادہ لیکن، بندہ اگر چاہے تو اُس کو کام ضرور مل جاتا ہے، لیکن چار سالہ ڈگری کی بنیاد پر ایک لاکھ کی نوکری شاذ و نادر ہی ملتی ہے، اور جب تک یہ مخصوص نوکری نہ ملے لوگ فارغ بیٹھنا بہتر سمجھتے ہیں اور پھر اچانک شدید یاسیت کا شکار ہوجاتے ہیں، اور پھر آخری حل کے طور پر جعلی عامل کے در پر پہنچ جاتے ہیں۔

 

  •  ’’اولادِ نرینہ کیوں نہیں ہوتی ہے؟‘‘

یہ سوال وہ لوگ اُٹھاتے ہیں جن کے گھر میں ماشاءاللہ ایک سے زائد بیٹیاں ہوتی ہیں، لیکن چاہ اُن کو فقط بیٹوں کی ہوتی ہے۔ بیٹا پیدا کیوں نہیں ہوتا؟ یہ بابا تو کیا ڈاکٹر بھی نہیں بتا سکتا ہے، اِس میں نہ مرد کا قصور ہوتا ہے نہ عورت کا، اگر اولاد کا اختیار انسان کے ہاتھ میں ہوتا تو پتہ نہیں انسان کیا حشر کرتا۔ ویسے فی الحال انسان اِسی قابل ہوا ہے کہ وہ قبل از ولادت اپنی اولاد کی جنس معلوم کرلیتا ہے، اور پیشگی معلوم کرنے کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اُس کو ہونے والے بچے کے کپڑے خریدنے ہوتے ہیں بلکہ اِس لئے پتہ کیا جاتا ہے کہ لڑکی ہوئی تو اس کا کیا، کیا جائے۔

 

  •  ’’بیٹی پر جن آگیا ہے، میں کہتی تھی شام کو چھت پر مت جایا کرو‘‘

بالکل آگیا ہوگا، لیکن کیا آپ نے کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کیا؟ ہوسکتا ہے جنّات بلِا وجہ بدنام ہو رہے ہوں۔ عموماً جو علامات ’جن‘ کے آنے سے منسوب ہیں وہی علامات، ڈسوسی ایٹو پرسنالٹی ڈس آرڈر Dissociative Personality Disorder میں بھی پائی جاتی ہیں، مثلاً ایک بالکل الگ شخص کی طرح پیش آنا، اور کچھ ایسی ہی علامات انفصام یا شیزو فرینیا Schizopherenia کے عارضے میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً غیبی آوازوں کا سنائی دینا یا اشکال کا دکھائی دینا۔ یہ باقاعدہ عارضے ہیں لیکن آگاہی و شعور کی قلت کے باعث عوام معالجین سے رجوع کرنے کے بجائے ڈھونگی باباؤں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں لوگوں نے بیماریوں کی بھی درجہ بندی کر رکھی ہے، استغفراللہ! بلند فشارِ خون، دل کی شریانوں کا بند ہوجانا اور ذیابطیس یہ امراء کی بیماریاں ہیں، ٹی بی و کالی کھانسی یہ غرباء سے منسوب بیماریاں ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ امراضِ قلب ٹینشن لینے سے ہوتے ہیں اور ٹینشن تو فقط امیروں اور کاروباری حضرات کو ہی ہوتی ہے غریبوں کو نہیں، اسی طرح ٹی بی اور کالی کھانسی غریب مزدوروں میں پائی جاتی ہے کیوںکہ وہ کارخانوں میں کام کرتے ہیں اور سستے برانڈ کی سگریٹ پیتے ہیں، اور ذہنی امراض؟ وہ کس طبقے کے لوگوں کو لاحق ہوتے ہیں؟ غالباً کسی کو نہیں!

ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض کو بطور گالی استعمال کیا جاتا ہے، ہر وہ شخص جو ہماری بات سمجھنے سے قاصر ہو ہم اُس کو پاگل، کوڑھ مغز یا بے وقوف کا خطاب دے ڈالتے ہیں۔ اِسی طرح اگر کسی انسان کو آوازیں سنائی دینے لگیں، اشکال دکھائی دینے لگیں تو ہم اُس کا علاج کروانے کے بجائے یا تو اس کو پہنچی ہوئی شخصیت سمجھنے لگتے ہیں یا الزام جنات کے سر ڈال دیتے ہیں۔

یاسیت یعنی کہ ڈپریشن Depression، ذہنی تناؤ یعنی کہ ٹینشن Tension، نرگسیت یعنی کہ Narcissistic Personality Disorder، شیزوفرینیا (Schizophrenia)، یہ ذہنی مسائل ہیں اور اِن سب کا علاج موجود ہے۔

مندرجہ بالا پانچوں مسائل کا حل ماہرینِ نفسیات کے پاس موجود ہوتا ہے، ملک بھر میں ماہرینِ نفسیات انسانیت کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں، لیکن افسوس بہت ہی قلیل تعداد میں لوگ اُن سے رجوع کرتے ہیں۔ بطور ذمہ دار شہری ہمیں اپنے ہم وطنوں کو اُن جعلی پیروں سے ہر ممکن حد تک بچانا چائیے اور ذہنی و نفسیاتی مسائل کے علاج کے لئے مستند ماہرینِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیئے۔

کیا آپ بلاگر کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔