جو آپ کو موٹا کہے اُسے بھی کھا جائیں!

کوثر جبیں  پير 20 فروری 2017
معاشرے میں خوبصورتی کا جو موجودہ غیر حقیقی معیار بن گیا ہے، اِسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یاد رکھیے اس کے لیے آسمان سے کوئی نہیں اُترے گا، ہمیں خود یہ کام کرنا ہوگا۔

معاشرے میں خوبصورتی کا جو موجودہ غیر حقیقی معیار بن گیا ہے، اِسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یاد رکھیے اس کے لیے آسمان سے کوئی نہیں اُترے گا، ہمیں خود یہ کام کرنا ہوگا۔

گڑیوں سے کھیلنا بچیوں کا بہت پرانا شوق ہے اور گڑیوں میں سب سے مقبول ہے باربی۔ 1959ء میں امریکہ میں متعارف کروائی جانے والی یہ نازک سی باربی ڈول سب ہی بچیوں کی آئیڈیل ہوتی ہے اور بچپن میں سب ہی اِس کے جیسا بننے کی کوشش بھی کرتی ہیں، جو عملی طور پر تو ناممکن کام ہے۔ کبھی کبھی تو باربی ڈول کی طرح نظر آنا ہی لڑکیوں کا جنون بن جاتا ہے۔ دنیا میں ایسی سرپھری اور باربی کی دیوانی لڑکیاں اور خواتین بھی موجود ہیں جو ہمیشہ بالکل باربی کی طرح نظر آنا چاہتی ہیں، اور اِس مقصد کے حصول کے لئے لاکھوں ڈالرز پلاسٹک سرجری پر خرچ کردیتی ہیں۔ وہ باربی جیسے کپڑے پہنتی ہیں، ہمہ وقت اُس کے جیسے میک اپ میں رہتی ہیں، اور تو اور باربی جتنی کمر حاصل کرنے کے لئے اپنی پسلیاں بھی نکلوانے سے دریغ نہیں کرتیں۔

عام طور پر لڑکیوں کی سب سے بڑی خواہش خوبصورت اور اسمارٹ نظر آنا ہوتی ہے، کیونکہ معاشرے میں لڑکیوں کی خوبصورتی کو اُن کے وزن اور رنگ سے ہی جانچا جاتا ہے اور صرف دبلی پتلی لڑکیوں کو ہی خوب صورت گردانا جاتا ہے، جو اِس جھوٹے پیمانے پر پورا نہیں اترتیں، اُنہیں خوبصورتی کی کیٹگری سے خارج کردیا جاتا ہے۔ لہذا اِس لاحاصل مقصد (یعنی سِلم ہونے) کے لئے لڑکیاں خوب جتن کرتی ہیں، فاقے کرکے اپنے آپ کو مرنے کے قریب لے جاتی ہیں۔ بچپن میں سیکھی جانے والی چیزوں کا اثر زندگی بھر رہتا ہے اور لڑکیوں کی تو گھٹی میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ انہیں موٹا نہیں ہونا چاہیئے، اگر وہ موٹی ہیں یا ہوگئیں تو نہ تو انہیں اچھا رشتہ ملے گا اور نہ ہی کوئی اُن کی عزت کرے گا، حالانکہ بہت زیادہ کم وزن کے باعث انہیں مستقبل میں حمل اور زچگی وغیرہ میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ہمارا موجودہ کلچر اور میڈیا لڑکیوں کی سوچ کچھ اِس طرح کی بنا رہا ہے کہ آئیڈیل خوبصورت لڑکی صرف دبلی پتلی ہی ہوتی ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب یہ جھوٹا تصور اُن کی خوراک کو شدید متاثر کرتا ہے اور وہ جان بوجھ کر فاقے کرنا شروع کردیتی ہیں۔ وزن کم کرنے کے لئے کھانا پینا چھوڑ دینا باقاعدہ ایک بیماری ہے جسے anorexia nervosa کہا جاتا ہے۔

ایک عام لڑکی کا قد 4.5 فٹ اور وزن 60 کلوگرام ہوتا ہے جبکہ ایک ماڈل لڑکی کااوسط قد 6 فٹ اور وزن 48 کلو گرام ہوتا ہے۔ ماڈلز کی متناسب ساخت کپڑوں، فیشن اور دیگر مصنوعات کے اشتہارات کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور عام خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ انہیں یہ چیزیں اپنے لئے خریدنی چاہیئے۔ خواتین کو یقین دلایا جاتا ہے کہ صرف یہی وہ چیزیں ہیں جو اُن کے خوبصورت نظر آنے کے لئے ضروری ہیں، لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ کپڑے وغیرہ ایک دبلی پتلی ماڈل لڑکی نے پہنے ہوتے ہیں جس کے جیسا بننے کی خواہش عام عورتوں اور لڑکیوں میں پیدا ہوجاتی ہے، اور اب تو ماڈلز کی تصاویر مزید فوٹو شاپ بھی کردی جاتی ہیں۔ یہ غیر حقیقی تصویر کشی عورتوں کو براہ راست ایٹنگ ڈس آرڈر میں مبتلا کررہی ہے۔

میڈیا میں ماڈل خواتین کے لئے آئیڈیل باڈی امیج ان کے expected وزن سے 13 سے 19 فیصد کم ہونا چاہیئے۔ جب کہ anorexia nervosa کی تشخیص کے لیے آپ کا وزن اگر expected وزن سے 15 فیصد سے کم ہو تو بیماری کا شُبہ ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ لڑکیاں فیشن اور بیوٹی میگزینز کی ماڈلز اور اداکاراؤں کی جسمانی ساخت یا باڈیز سے اپنا موازنہ کرتی ہیں، اور اُن کے جیسا بننے، وزن گھٹانے کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کھانا پینا چھوڑ دیتی ہیں۔ عام الفاظ میں انہیں ڈائٹنگ کا خبط ہوجاتا ہے۔

اسی طرح ٹیلی وژن ہمیں بتاتا ہے کہ خواتین کی کامیاب زندگی کے لئے ڈائیٹنگ، ایکسر سائز اور دبلا پتلا رہنا بہت ضروری ہے۔ ٹی وی پر کیریئر میں ترقی کرتے ہوئے اسمارٹ خواتین کو ہی دکھایا جاتا ہے اور خوشگوار گھریلو زندگی گزارتے ہوئے بھی. پھر اِسی کامیابی کے حصول کے لئے لڑکیاں اپنے وزن اور جسم کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ المیہ یہ کہ ہمارا معاشرہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ موٹا ہونا باعثِ تضحیک ہے۔ تھوڑی سی صحت مند خواتین کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے، اور یہی معاشرہ اِس کا حل یہ پیش کرتا ہے کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ لوگ آپ پر نہ ہنسیں، آپ کا مذاق نہ اڑائیں تو کھانا پینا چھوڑ دیں اور اسمارٹ بن جائیں۔ وزن اور جسمانی خدوخال کے بارے میں معاشرے کے اِن تصورات کی وجہ سے لاکھوں خواتین ایٹنگ ڈس آرڈر کا شکار ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت مزید تباہ کُن اس طرح ہے کہ خواتین اِسے بیماری ہی نہیں سمجھتیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ایک دبلا پتلا جسم کسی ڈس آرڈر کا شکار نہیں ہوسکتا۔ انہیں آئینے میں اپنا آپ بہت موٹا لگنے لگتا ہے، صرف 80 پونڈ وزن میں وہ اپنے آپ کو دنیا کا موٹا ترین انسان سمجھنے لگتی ہیں۔ اُن کے نزدیک وزن کم کرنا ہی دنیا کا سب سے اہم کام ہے، چاہے وہ صحت کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ پیدائش سے لے کر موت تک وہ اپنے جسم کو ڈائٹنگ کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں، کیونکہ صرف یہی راستہ ہے جس سے انہیں سراہا جائے گا، انہیں خوبصورت سمجھا جائے گا اور محبت کی جائے گی۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں، جس میں صحت مند وزن بھی اہانت کا سبب ہے، جہاں خواتین موٹی ہونے کے خوف سے کھانے سے نفرت کرنے لگتی ہیں، فاقے کرکے جسم بیمار، وزن خطرناک حد تک کم کرلیتی ہے اور اس طرح وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بننے کے لیے اپنی جان کی بازی بھی لگا دیتی ہیں۔ وزن کم کرنے کے لیے کھانا پینا ترک کردینا ایک نفسیاتی مرض (خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں) ہے، تشخیص اور علاج کے بعد بھی اِس بیماری کا بار بار عود کر آنا عام ہے۔ اِس سے مکمل صحتیابی میں کئی سال لگ سکتے ہیں لیکن اِس پر قابو پانا مناسب علاج سے ممکن ہے۔

خوبصورتی کا جو موجودہ غیر حقیقی معیار بن گیا ہے، اِسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے آسمان سے کوئی نہیں اُترے گا۔ ہمیں خود ہی یہ کام کرنا ہوگا، اِس سلسلے میں والدین کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ بچپن سے ہی بچوں اور بچیوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کرنا چاہیئے کہ وہی انسان خوبصورت ہوتا ہے جس کے اندر انسانیت ہو، جس کی سوچ اچھی ہو، جس کا کردار بہترین ہو۔ ہمیں ظاہر کے بجائے باطن کی خوبصورتی پر توجہ مرکوز کرنا چاہیئے۔ لڑکیوں کو بھی منحنی نظر آنے کے لئے اپنے آپ کو موت کے منہ میں لے جانے کے بجائے علم کی روشنی سے اپنے ذہنوں کو منور کرنا چاہیئے اور معاشرے کی بہتری میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں میڈیا کے اثرات سے آگہی ہونا چاہیئے کہ میڈیا امیجز اور مارکیٹنگ کس طرح آپ کی خود اعتمادی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیئے آپ کیا دیکھ رہے ہیں اور یہ آپ کے شخصی تصور کو کس طرح متاثر کرسکتا ہے۔ اپنے آپ پر اعتماد رکھیں کہ اللہ نے آپ کو جیسا بنایا ہے، خوبصورت بنایا ہے۔ یاد رکھیں آپ کوئی باربی گڑیا نہیں ہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی انسان ہیں۔ لہذا جو چاہیں کھائیں اور اگر کوئی آپ کو موٹا کہے تو اسے بھی کھا جائیں (ازراہِ تفنن)۔

موٹاپے کے حوالے سے معاشرتی روئیے کے بارے میں بیان کیے گئے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔