لگتا ہے نیب اپنا قانون ملزمان سے سودے بازی کیلیے استعمال کرتا ہے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک  منگل 14 فروری 2017
سپریم کورٹ نے مشتاق رئیسانی کیس میں سابق مشیر خزانہ بلوچستان خالد لانگو کی درخواست ضمانت مسترد کردی، فوٹو؛ فائل

سپریم کورٹ نے مشتاق رئیسانی کیس میں سابق مشیر خزانہ بلوچستان خالد لانگو کی درخواست ضمانت مسترد کردی، فوٹو؛ فائل

 اسلام آباد: عدالت عظمیٰ نے مشتاق رئیسانی كرپشن كیس میں سابق صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو كی درخواست ضمانت مسترد كردی جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے نیب اپنا قانون سودے بازی کیلیے استعمال کرتا ہے۔

سپریم كورٹ میں بلوچستان میگا كرپشن كیس كی سماعت جسٹس دوست محمد كی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل تین ركنی بینچ نے كی۔ دوران سماعت عدالت نے گرفتار ملزم اور سابق مشیر خزانہ خالد لانگو كو اسپتال میں وی وی آئی پی كمرہ دیئے جانے پر سخت برہمی كا اظہار كیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریماركس دیئے كہ ملك میں كوئی بھی وی وی آئی پی نہیں ہونا چاہیے، ملزم كا ٹرائل ہورہا ہے اسے وی وی آئی پی پروٹوكول كیوں دیا گیا، كیا بلوچستان حكومت كو عدالتی فیصلوں سے كوئی فرق نہیں پڑتا، بظاہر نیب اپنا قانون ملزمان سے سودے بازی کے لیے استعمال كرتا ہے، تاریخ میں ایسا كیس كبھی سامنے نہیں آیا جس میں برآمد كی گئی رقم گننے كے لیے مشینیں لگانی پڑی ہوں لیكن رنگے ہاتھوں پكڑے جانے كے باوجود ریفرنس دائر نہیں ہوا۔

جسٹس دوست محمد نے ریماركس دیئے كہ كرپشن ملكی وسائل كو دیمك كی طرح چاٹ رہی ہے، كرپشن كے ہوتے ہوئے معیشت بہتركیسے ہوسكتی ہے، نیب كا تفتیشی محكمہ انتہائی كمزور ہے۔ پراسیكیوٹر جنرل نیب نے عدالت كو بتایا كہ ملزم لوكل گورنمنٹ گرانٹ كمیشن كے چیرمین بھی تھے، خالد لانگو نے خالق آباد اور مچھ یونین كونسل كے ترقیاتی منصوبوں كے لیے ایک ارب31 كروڑ كی منظوری دی جب كہ خرچ صرف 5 كروڑ روپے ہوئے، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریماركس دیئے كہ خالق آباد یونین كونسل پاكستان كی خوش قسمت یونین كونسل ہو گی جس كی آبادی 21 ہزار ہے لیكن پھر بھی وہاں اربوں روپے كے ترقیاتی فنڈز جاری ہوئے۔ جسٹس دوست محمد كے استفسار پر نیب كے تحقیقاتی افسر نے عدالت كو بتایا كہ خالد لانگو اكتوبر2013 سے مشیر خزانہ تھے، خالد لانگو كے فنڈز منظوری كے معاملے كی تحقیقات ابھی جاری ہے۔

جسٹس دوست محمد نے كہا كہ تحقیقات مكمل نہیں ہوئی تھی تو مشتاق رئیسانی سے پلی بارگین میں جلدبازی كیوں كی گئی۔ جسٹس مقبول باقر نے ریماركس میں كہا كہ نیب نے ملزم كو مئی سے حراست میں لے ركھا ہے، اتنے عرصے سے ریفرنس فائل نہ ہونا كیوں نہ نیب كی بدنیتی سمجھا جائے، نیب كو تفصیل دینی چاہیے تھی كہ خالد لانگو كے دور میں كتنے فنڈز جاری ہوئے۔ بینچ كے ركن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پراسیكیوٹر جنرل نیب سے استفسار كیا كہ اب تك ریفرنس دائر كیوں نہیں ہوا جس پر اسیكیوٹر جنرل نیب نے مؤقف اختیار كیا كہ 2 سے 3 روز میں ریفرنس دائر كر دیں گے۔

چیرمین نیب نے عدالت كو بتایا كہ ٹرائل كورٹ نے اب تك پلی بارگین كی درخواست پر فیصلہ نہیں كیا، گزشتہ روز ملزمان كے خلاف ریفرنس كی منظوری دے دی گئی ہے۔ پراسیكیوٹر جنرل اور متعلقہ ڈی جی كی مشاورت سے فیصلہ كرتا ہوں، ضابطے كے تحت قانونی مشاورت كا پابند ہوں۔ چیرمین نیب قمر زمان چوہدری کا کہنا تھا کہ وائٹ كالر كرائم كی تحقیقات میں وقت لگتا ہے، نیب نے اس كیس میں شاندار كردار ادا كیا ہے، یہ كرپشن كی تاریخ كا سب سے بڑا اسكینڈل ہے۔

دوران سماعت ملزم خالد لانگو كے وكیل فاروق ایچ نائیك نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار كیا كہ فنڈ كے اجراء میں قوائد كی خلاف ورزی ہوئی ہے تو خالد لانگو ذمہ دار نہیں ہیں، قوائد كی خلاف ورزی ہو تو ذمہ داری وزیر پر نہیں سیكرٹری پر عائد ہوتی ہے۔ خالد لانگو نے اختیارات كاغلط استعمال كیا نہ ہی كوئی مالی فائدہ اٹھایا، 9 ماہ سے میرے مؤكل كو غیرقانونی حراست میں ركھا ہوا ہے،عدالت میرے مؤكل كی بیماری كو بھی سامنے ركھے۔ اس پر جسٹس دوست محمد نے ریماركس دیئے كہ مؤكل بیمار ہے توبری امام جا كر پانچ دیگیں چڑھائیں ، اللہ شفاء دے گا۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ نے ملزم خالد لانگو كی درخواست ضمانت خارج كر دی جب كہ كیس كا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری كیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔