سانحہ لاہور اور معروضی حقائق

ایڈیٹوریل  منگل 14 فروری 2017
 دہشتگردوں نے شہر لاہور پر حملہ کرکے بزدلی اور سفاکیت کی خونی داستان رقم کی ہے ۔ فوٹو فائل/اے ایف پی

دہشتگردوں نے شہر لاہور پر حملہ کرکے بزدلی اور سفاکیت کی خونی داستان رقم کی ہے ۔ فوٹو فائل/اے ایف پی

پیر کو دہشتگردوں نے شہر لاہور پر حملہ کرکے بزدلی اور سفاکیت کی خونی داستان رقم کی ہے، یہ آنسو جو دہشتگردی کے شکار شہر لاہور کے غمزدگان اور شہید ہونے والوں کے لواحقین کی آنکھوں سے جاری ہیں، یہ اہل وطن کی مژگاں پر بھی موجود ہیں،جماعت الاحرار نے دھماکے کی ذمے داری قبول کی ہے ۔ آج ہر دل دہشتگردوں کی ملک دشمنی پر برہم ہے، اس کے وجود میں ایک ہیجان برپا ہے، عام آدمی سے لے کر سیاسی و مذہبی اکابرین، انسان دوست حلقے اس اندوہناکی پر دل گرفتہ ہیں، امن پسندوں کا بس چلے تو وہ دہشتگردوں کو زمین کی پاتال اور آسمان کی وسعتوں سے کھینچ کر زمین پر روند ڈالیں۔

اے کاش! دہشتگردی کے خلاف اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر ہوتے تو متضاد سیاسی بیانیے کے شور میں دشمنوں کو اس طرح کی واردات کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ تاہم اس سانحہ سے ارباب اختیار مزید الرٹ رہیں، سیکیورٹی لیپس پر سیاپا اپنی جگہ مگر زمینی حقائق اور ایک حساس محل وقوع پر اجتماع اور دھرنے کی اجازت دینے پر پنجاب حکومت کی حکمت عملی، لائحہ عمل، معاملہ فہمی، وژن اور سیکیورٹی کے میکنزم کے حوالہ سے کئی سوال اٹھائے جارہے ہیں، ان سوالوں کے قوم جواب مانگتی ہے، کیونکہ وقفہ وقفہ سے دہشتگردی کے واقعات عوام کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتے ہیں، قوم خود کو بے آسرا اور ملک دشمن قوتوں کے رحم و کرم پر پاکر شدید مایوسی اور خوف کا شکار ہوجاتی ہے، قوم سیاسی و عسکری قیادت سے توقعات کے ایک امید افزا بندھن سے بندھی ہوئی ہے جس کی محض مذمتی بیانات سے تسلی ممکن نہیں۔

ہم وطنوں کا مشترکہ احساس اور مطالبہ ہے کہ غیر ملکی دشمن اور داخلی دہشتگرد ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جو پاکستان کا نفسیاتی ، سیاسی، تزویراتی اور معاشی محاصرہ کرنے کے درپے ہیں، ایک گریٹ گیم کے پردہ میں پاکستان کو پھر سے عدم استحکام کا شکار بنانے کی سازش اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جب کہ مختلف مقامات پر وارداتیں کر کے خوف پھیلانا اسی سلسلہ کی کڑی ہے، ریاست مخالف قوتیں  بیگناہ انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے اور ایک بے منزل و خوںخوار ایجنڈے کے نام پر خلق خدا کا قتل عام کرنے والے پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ مگر جو مال روڈ پر ہوا اور ملک کے دیگر شہروں میں بدامنی اور ٹارگٹ کلنگزہوئیں وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مزید مستعدی اور نتیجہ خیز انٹلی جنس کا تقاضہ کرتی ہیں۔

زمینی و معروضی صورتحال اندوہ ناک ہے، ایک طرف مال روڈ پر کیمسٹ ایسوسی ایشن کے احتجاجی مظاہرے کے دوران خود کش دھماکے سے اس دعویٰ یا تاثر کی حقیقت کھل گئی کہ دہشتگردوں کو تہس نہس کردیا گیا بلکہ اس دردانگیز اور الم ناک سانحہ نے اس اندیشہ کو تقویت دی ہے کہ دہشتگرد نیٹ ورک نے خود کش بمبار کو اس کی حرکیات اور وقوعہ کی مناسبت سے اسٹرائیک کرنے کا ہدف سونپا تھا ، بمبار ایک احتجاجی مظاہرہ کے شور میں چپکے سے کیسے ان پولیس افسران کے قریب پہنچنے میں کامیاب رہا جو مظاہرین سے مذاکرات کرکے احتجاج کے خاتمہ کی طرف بڑھ رہے تھے؟

اس الم ناک واقعے میں 2اعلیٰ پولیس افسران سمیت 13افراد شہید جب کہ 83سے زائد زخمی ہوگئے، زخمیوں میں پولیس اہلکار، میڈیا ورکرز، خواتیں اور بچے بھی شامل تھے ۔اس واردات کو ہر پاکستانی انسانیت کے خلاف بزدلانہ اور شرم ناک کارروائی سے تعبیر کریگا، بمبار کی دیدہ دلیری تھی کہ اس نے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی دھرنے کے شرکا سے ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن(ر) احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد گوندل کے قریب آکر کود کو دھماکے سے اڑالیا جب کہ اپنی جان نثار کرنے والے ان فرض شناس پولیس افسروں کے مظاہرین کے عہدیداروں سے مذاکرات جاری تھے۔ اپنی سفاکیت کے اعتبار سے حملہ کولیٹرل ڈیمج تھا۔ دشمن نے اپنے اہداف کثیرالجہتی رکھے۔

سانحہ کی شدت کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، بادی النظر میں دشمن طاقتوں نے پورے ملک پر حملہ کرنے کی ہولناک منصوبہ بندی کی ، ایک طرف زندہ دلان لاہور کے قلب کو مجروح کیا ، سیکیورٹی الرٹ کو خاطر میں نہیں لائے ، جب کہ جنوبی وزیرستان، بلوچستان، کراچی میں خونی وارداتوں سے شہریوں کو خوفزدہ کیا۔

ادھر لائن آف کنٹرول پر بھمبر کے قریب تھوب سیکٹر میں بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 3 پاکستانی فوجی شہید ہو گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بھارتی فائرنگ سے نائیک غلام رسول، نائیک عمران ظفر اور سپاہی امام بخش شدید زخمی ہوئے تھے جو بعد ازاں شہید ہوگئے۔ پاک فوج نے بھی بھارتی فوج کی فائرنگ کا مؤثر اور بھرپور جواب دیا جس سے بھارت کا کافی نقصان ہوا، متعدد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔

آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا نے جائے وقوعہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مال روڈ خودکش دھماکے میں دو افسران سمیت پولیس کے 6جوان شہید ہوئے، لاہور کی دھرتی شہیدوں کے خون سے رنگ دی گئی ہے، مگر اس طرح کے اقدام سے ہم ڈرنے والے نہیں، دہشتگردوں کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی، لاہور پولیس کے بہترین افسروں کی قربانی دی ہے، پولیس فورس پورے پاکستان میں دہشت گردوں کا مقابلہ کررہی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ پر کمیسٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے مذاکرات جاری تھے کہ الفلاح بلڈنگ کی طرف سے آنے والے دہشت گرد نے پولیس افسران کے قریب پہنچ کر خود کو اڑایا۔

دھماکا 6بج کر10منٹ پر ہوا۔شہید ہونے والوں میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن(ر)احمد مبین سید،ایس ایس پی آپریشن زاہد محمود گوندل،ایلٹ فورس کے 2نوجوان،ڈی آئی جی ٹریفک کا گن مین پولیس اہلکاراور ایس ایس پی آپریشن کا سیکیورٹی گارڈ شامل ہے۔ سیاسی وعسکری قیادت نے لاہور دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزدلانہ حملے دہشتگردی کے خلاف قوم کاعزم متزلزل نہیں کرسکتے، پوری قوم اس ناسور کے خلاف متحد ہے جب کہ حکومت دہشتگردی کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہے، آخری دہشتگرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

بتایا جاتا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ نے لاہور میں ممکنہ دہشتگردی کے خدشے کے حوالے سے انٹلی اطلاعات 7 فروری کو صوبائی حکومت سے شیئر کی تھیں جس میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو حساس اور اہم سرکاری تنصیبات، اسپتالوں اور اسکولوں کی سیکیورٹی فول پروف رکھنے کا کہا گیا تھا۔

مراسلے میں تھریٹ الرٹ 061 کا حوالہ دیتے ہوئے آگاہ کیا گیا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ ایک نا معلوم دہشتگرد گروپ شہر لاہور پر حملے کی منصوبہ بندی کررہا ہے، تحقیقات ہونی چاہیے کہ اس انتباہ یا ایک اور مراسلہ میں پیشگی خبردار کیے جانے کے باوجود بے توجہی اور تساہل کیوں برتا گیا، دہشتگرد نے بلاشبہ عیارانہ شہ چال چلی، اس کے ماسٹر مائنڈز کے نقشہ پر کئی اہداف ہونگے، ملک کے دیگر شہروں میں رونما ہونے والے دہشتگردانہ واقعات اسی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

اہداف یہ بھی ہوں گے، مثلاً پی ایس ایل کا لاہور میں فائنل ، ویلنٹائن ڈے، کیمسٹ ایسوسی ایشن کا دھرنا، جو سافٹ ہدف ہی تھا، پولیس کو براہ راست ٹارگٹ کرنا، کپٹن (ر) احمد ندیم اور زاہد گوندل نے جرات و شجاعت کی تاریخ سنہرے حروف میں رقم کی، اب پنجاب اسمبلی کے سامنے خود کش دھماکے کے بعد پاکستان سپرلیگ کا فائنل لاہورمیں ہونے کا امکان سوالیہ نشان بن چکا ہے، ادھر فکسنگ اسکینڈل نے چنگاری بھڑکائی ہے، صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ دھماکا پی ایس ایل کا لاہور میں ہونے شیڈول فائنل سبوتاژ کرنے کی سازش ہوسکتا ہے۔

دریں اثنا نجی ٹی وی کے مطابق آئی جی پنجاب نے کہا ہے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے نمایندگان سے مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں جس کے بعد لاہور میں بند میڈیکل اسٹورکھل گئے، ہول سیل کراچی فارما آرگنائزیشن نے اعلان کیا ہے کہ مارکیٹ آج معمول کے مطابق کھلے گی۔دوسری طرف چیئرمین پنجاب کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن زاہد بختاوری کا کہنا تھا کہ شٹرڈاؤن ہڑتال ہر صورت جاری رہیگی۔

وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق نے کہا ہے کہ ادویات کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ حکومت عوام کی صحت اور ادویات کے اسٹینڈرڈ پر کمپرومائز نہیں کریگی ، ادھر کیمسٹ ایسوسی ایشن کے ذرایع کا موقف ہے کہ 2015ء سے آج تک درجنوں میٹنگ ہوئی ہیں ، ہم نے ڈیڑھ برس انتظار کیا ، کسی نے وقت نہیں دیا ۔ ہمارے ایشو کو غیرسنجیدگی سے لیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈرگ ایکٹ میں ترمیم کی زد میں آنے اور جعلی ادویات کی فروخت پر سزا پانے کے خوف نے میڈیکل اسٹورز مالکان کو احتجاج میں شمولیت پر تیار کیا، جب کہ پنجاب حکومت پر شہری حلقوں اور ملک بھر میں پائے جانے والے اس تاثر اور استدلال کی کوئی تردید ممکن نہیں کہ پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنے کی اجازت کیسے دی گئی اور ایسوسی ایشن کو قائل کرکے ایشو کو حل کیوں نہیں کیا گیا۔ بعض مبصرین دہشتگردی کی اچانک واردات کو نیشنل ایکشن پلان پر نیم دلانہ عملدرآمد کا شاخسانہ بھی قراردیتے ہیں۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے۔

تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ لاہور میں مال روڈ خودکش حملے میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد کے لواحقین کو کب قرار آئیگا، ان کے درد کون شیئر کریگا جو اپنے پیاروں کو دیوانہ وار ڈھونڈتے رہے، دھماکے کی جگہ پر تباہی دیکھ کر کئی افراد زارو قطار روتے رہے، میو،گنگا رام اور سروسز اسپتالوں میں رقت انگیز مناظر دیکھنے میں آئے، خواتین دھاڑیں مار کر روتی رہیں، لوگوں کی بڑی تعداد اسپتالوں میں پہنچی اور زخمیوں کی زندگی کے لیے دعائیں کرتی رہی، خون کا عطیہ دینے والوں کا تانتا بندھا رہا۔

حکومتی اراکین اسمبلی، صوبائی وزرا اور سیاسی رہنماؤں نے بھی مختلف اسپتالوں میں جاکر زخمیوں کی عیادت کی، مگر زخمیوں کے لواحقین نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے سیکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا ورنہ حملہ آور جائے وقوع تک نہ پہنچ پاتا، ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے، اس فریاد میں حکمرانوں کے غور وفکر کا کافی سامان پنہاں ہے۔ دہشت گردوں کو ایسا سبق سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ ملکی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال سے کھیلنے کی کبھی جرات نہ کرسکیں ، شفاف ترین کاؤنٹر ٹیرر اقدامات اور فالٹ فری سیکیورٹی کا خواب اب شرمندۂ تعبیر ہونا شرط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔