جب مریض کا علاج مفت ہوتا تھا

عبدالقادر حسن  بدھ 15 فروری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہڑتال جدید دور کا ایک تکلیف دہ مسئلہ ہے جس سے نجات کا کوئی امکان بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔ ہڑتال عموماً حکومت کا کسی پالیسی کے خلاف ہوتی ہے لیکن اس کی سزا عوام کو ملتی ہے اور یہ سزا بعض اوقات بہت سخت بھی ہوتی ہے۔ مثلاً دوائیں فروخت کرنے والے اداروں کی ہڑتال جس کی وجہ حکومت کا کوئی صحیح یا غلط حکم ہوتا ہے یا پھر ٹرانسپورٹ کی ہڑتال یا اس طرح کسی دوسرے ایسے ادارے کی ہڑتال جس سے عوام کو ہروقت واسطہ پڑتا ہو جیسے دوائیں فروخت کرنے والے ادارے یا کسی راستے پر ٹرانسپورٹ کی ہڑتال۔ ایسی ہڑتال اور بندشوں سے ہم ہر روز پریشان ہوتے ہیں اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو ادویات فروخت کرنے والوں نے ملک گیر ہڑتال کر رکھی ہے جس کی سزا مریضوں کو مل رہی ہے جو کسی دوا کے بغیر آرام سے نہیں رہ سکتے یا کوئی دوا جو ان کی زندگی کو آسودہ رکھتی ہے یا بچاتی ہے۔

یہ تمام دوائیں دوا فروشوں کی دکانوں سے ملتی ہیں۔ میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ کسی ایمرجنسی میں مریض کے لواحقین کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں اور راتوں کو اڑوس پڑوس والوں کو بھی جگا دیتے ہیں کیونکہ انھیں فوری طور پر دوا چاہیے جو کسی دکان میں بند ہے اور دکان کا مالک گھر میں سو رہا ہے۔ وہ نیند سے بیدار ہوگا دکان کھولے گا تو وہ دوا کسی مریض تک پہنچے گی اور ممکن ہے اس کی زندگی بچانے کا سبب بھی بن جائے۔

مختلف ادویات کی اس قدر کثرت ہو گئی ہے کہ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی دوا فروش چند ضروری دوائیں اپنے پاس رکھتا ہو کہ کسی وقت فوری ضرورت پر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ آپ دواؤں کی کسی دکان پر جائیں تو آپ کو وہاں کوئی نہ کوئی دوا پڑی ہوئی ملے گی جو کسی نسخے میں درج ہو گی اور اس کا حصول لازم ہو گا۔

دوا سازی اور اس کا کاروبار ایک بڑی صنعت بن چکا ہے اور اس کی مالیت کا اندازہ آسان نہیں صرف اس کی کسی مشکل وقت میں ضرورت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اثرات میں ملتی جلتی دوائیں ہر جگہ دستیاب ہوتی ہیں اور خود ڈاکٹر جانتے ہیں کہ کس دوا کی قلت ہے چنانچہ مریض کی سہولت کے لیے وہ ایک سے زیادہ دوائیں لکھ دیتے ہیں کہ کوئی تو مل ہی جائے گی پھر ان کی قیمتیں جو بھی ہوں وہ بیمار کو ادا کرنی ہوتی ہے۔

ڈاکٹر، مریض اور دوا یہ تین کسی انسان کی زندگی بچانے کا سبب بن جاتے ہیں اگرچہ ہر وفات پانے والا کسی نہ کسی ڈاکٹر اور دوا کا شکار ہوتا ہے اور وہ پلے سے خرچ کرکے دوا اور ڈاکٹر حاصل کرتا ہے لیکن اگر قدرت اسے شفا دے دے تو وہ اپنے ہر خرچ پر خوش ہو جاتا ہے ورنہ ان دنوں بعض اوقات علاج کسی زندگی سے زیادہ مہنگا ثابت ہوتا ہے اور قریبی لوگ یہ تک کہنے سے باز نہیں آئے کہ زندگی بھی گئی اور قرض بھی برداشت سے بڑھ گیا اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ آج کے زمانے میں علاج بھی ایک اہم ذریعہ روز گار بن چکا ہے۔

مسلمانوں کے ہاں مریض سے فیس لینے کا رواج نہیں تھا۔ اور ایسی کوئی روایت نہیں تھی کہ کوئی مسلمان طبیب کسی سے فیس اور علاج کا معاوضہ طلب کر ے بلکہ علاج معالجہ ثواب کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ دلی کے نامور طبیب مفت علاج کیا کرتے تھے اگرچہ ان کے پاس دور دور سے مریض آتے تھے اور پیش کش بھی کرتے تھے لیکن طبیب ان سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے بلکہ مستحق مریضوں کو تو دوا بھی مفت دے دیا کرتے تھے۔

عام مریضوں تک رسائی کو آسان بنانے کے لیے دلی کے طبیبوں نے ایک طریقہ ایجاد کیا تھا۔ وہ شام کے وقت گھر سے بارہ نکلتے اور ان کے اس سیر کے راستے مقرر ہوتے۔ ان راستوں پر شہر بھر کے اور دور دراز کے مریض بھی ان راستوں پر انتظار میں بیٹھ جاتے تھے۔

حکیم صاحب کی سواری گزرتی تو مریض لپک کر اپنا پرانا نسخہ لے کر یا نئے علاج کے لیے حکیم صاحب کے پاس پہنچ جاتے۔ سواری رک جاتی اور مریض سے فارغ ہو کر حکیم صاحب آگے بڑھتے۔ مریض سے کسی معاوضے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے دلی کے طبیب خاندان کے بزرگ سے پوچھا کہ پھر یہ طبیب حضرات کا خرچ کیسے چلتا تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ حکیم کو سال دو سال بعد کوئی نواب والی ریاست یا متمول آدمی علاج کے لیے بلانا تھا اور اس علاج میں وہ طبیب بہت کچھ کما لیتے تھے جو کسی ایسے اگلے مریض تک چلتا رہتا تھا لیکن عام مریضوں سے فیس وصول کرنے کا کوئی تصور نہ تھا۔

مسلمانوں کے ہاں کسی مریض سے اس کے علاج کا معاوضہ لینا مکروہ سمجھا جاتا تھا۔ بہرکیف یہ زمانے گزر گئے اب ان کی یاد بھی دل دکھاتی ہے لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس سے دل دکھے یا خوش ہو ایک مجبوری ہے اور مریض کو اپنی بیماری کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے جو کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہوتی کہ علاج موثر ہو گا یا نہیں۔ اب تو اللہ کے سہارے کسی معالج کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور صحت کی دعا مانگتے ہیں اپنے اللہ سے کیونکہ ایک معالج تو دکان سجا کر بیٹھا ہے اور خریدار کی اپنی ہمت ہے کہ وہ علاج کرانے کی سکت رکھتا ہے یا صرف دعا کا طالب ہے۔ مفت صرف دعا ہی دستیاب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔