کشتی کبھی خالی نہیں جاتی

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 15 فروری 2017

بچپن کی محرومیاں اورچیزوں کی قلت انسان کے اندر ننگی اوروحشی بھوک پیدا کردیتی ہیں پھر وہ اپنی بقیہ زندگی اس بھوک کو مٹانے کے لیے اسے جتنا کھلاتا رہتا ہے وہ اتنی اور بڑھ جاتی ہے، وہ اور کھلاتا ہے وہ اور بڑھ جاتی ہے اور پھر ایک روزوہ بھوک اس کو نگل جاتی ہے۔

ہٹلر، مسولینی، شاہ ایران سے لے کر ہمارے ملک کے تمام اہم کرداروں کی اکثریت سب کے سب اسی بھوک کا شکار ہیں۔بھوک کے شکار بظاہر آپ کو نارمل انسان نظرآئیں گے لیکن اصل میں یہ سب کے سب مریض ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنا علاج کرتے اوراپنی تکلیفوں کو بڑھاتے اور پیچید ہ بناتے چلے جاتے ہیں اوریہ خیال کرتے ہیں کہ کہیں سے کوئی عطائی نسخہ ہاتھ آجائے گا اور وہ اچھے ہوجائیں گے مگرا ن کی حالت ہمیشہ بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ان کو یہ علم نہیں ہے کہ وہ درحقیقت ایک ہائڈرا گارجیاس کا سر کاٹ رہے ہیں۔

یاد ر ہے یونانی ضمیات میں ہائڈرا اس سانپ کوکہتے ہیں جس کے ایک سر کے کاٹنے کے ساتھ بہت سے اور سر پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ بھوکے اپنے آپ کو جتنا پورا کرنے کی کو شش کرتے ہیں، اتنے ہی اورادھورے ہوجاتے ہیں یہ جتنے روپے پیسے، زمینیں، جاگیریں، ملیں، زیورات، طاقت،اختیارات جمع کرتے جاتے ہیں یہ اتنے ہی اورکنگال اورگداگر ہوتے جاتے ہیں ان کی بے چینی، خواہش، تمنا اور بڑھتی چلی جاتی ہے خود بھی ساری زندگی تکلیف اور اذیت میں رہتے ہیں اور اپنی وجہ سے دوسروں کو بھی تکلیف اوراذیت میں مبتلا رکھتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ ساری عظمتیں، عزتیں، شان وشوکت، امنگیں، کامیابیاں، عیش وعشرت سب فریب ہیں سب مایا ہیں۔

قصہ مشہور ہے کہ جب عظیم رومی شہنشاہ مارکیوز اورلیوس کاانتقال ہوا تو اولمپائی دیوتاؤں نے اس کے اعزاز میں پرتکلف دعوت کااہتمام کیا۔ اس دعوت میں اس کے دائیں طرف شہنشاہ اگٹس، طبرس اورویسپا سین بیٹھے تھے جب کہ اس کے بائیں جانب دوسرے عظیم رومی شہنشاہ براجمان تھے ان میں نروا، ٹراجن،ہڈرین اوراس کا سوتیلا باپ انٹونی نس پیوس شامل تھے، نیرو اورکیلی گلا کو البتہ دروازے پر ہی روک لیا گیا تھا۔

اس ضیافت میں دیوتا جیو پیٹر نے ایک مقابلے کااعلان کیا جس کے ذریعے یہ طے کرنا مقصود تھا کہ ان میں عظیم ترین رومی شہنشاہ کون ہے یہ سب شہنشاہ امیدوار تھے وہ باری باری اٹھے اورانھوں نے اپنے بارے میں مختصر تقریریں کیں، اکثرنے اپنی اپنی فتوحات کی شیخیاں بگھاریں پھر مارکیو زاورلیوس کی باری آئی تو وہ کھڑا ہوا اس نے بس یہ کہا کہ ’’میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے‘‘ کہانی یوں آگے بڑھتی ہے کہ مارکیوز اورلیوس کے یہ الفاظ سننے کے بعد اس کو عظیم ترین رومی مان لیا گیا، مگر اس کو عظیم ترین انسان نہیں کہا گیا کیونکہ اس تمنا کی تکمیل کی راہ میں فلسفی مارکیوز اورلیوس کو شہشاہ مارکیوزاورلیوس نے روک لیا تھا۔

انسان اطمینان، خوشی، سکون اورسکنیت کے لمحوں کے حصول کی خاطر شروع ہی سے بھٹک رہا ہے اورمسلسل نامرادی و ناکامی سے دوچار ہے کیونکہ وہ زندگی کے اصل فلسفے کوکبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا ہے زندگی کی سب سے اہم ترین بنیادی بات جسے ہر وقت یاد رکھنا سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے اس بات کو ہم سب سے پہلے غیر ضروری بات سمجھتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ہم سب بھکاری اورگداگر کے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں۔

ہمارے پاس اپنا ذاتی کچھ بھی نہیں ہے حتیٰ کہ سانس بھی نہیں۔ سب ہی کچھ خدا کا عطاکردہ ہے اور سب ہی کچھ عارضی ہے ہم ہر وقت اس سے مانگتے رہتے ہیں اور وہ ہر وقت ہمیں عطا کرتا رہتا ہے اور واپس لیتا رہتا ہے حتیٰ کہ زندگی تک بھی۔ جب ہم سب بھکاری ہیں تو ایک بھکاری دوسرے بھکاری کو دے بھی کیا سکتا ہے اس کی کسی دوسرے کو کچھ دینے کی اوقات ہی کیا ہے۔ یہ ہی وہ سب سے اہم ترین بات ہے جو ہم سب بھول جاتے ہیں اس معاملے میں ہم سب یکساں ہیں۔

1775ء کے بہارکے دنوں میں دوستوں کو جب معلوم ہوا کہ عظیم فلسفی ڈیوڈ ہیوم ان سے جدا ہونے والا ہے تو وہ اس کو آخری احترامات پیش کرنے کی خاطر جمع ہوئے۔ ان میں سے اکثر دل ہی دل میں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھے کہ ہیوم اپنے آخری سفرکی تیاری کس انداز میں کرتا ہے۔ ’’مجھے فکر یہ ہے کہ‘‘ اس نے دوستوں کو بتایا ’’میں قیرون ملاح سے کیونکر ملوں گا جو مردہ روحوں کو دوزخ کے دریا کے پار پہنچاتا ہے میں اس جہان میں تھوڑے سے زیادہ قیام کے لیے کیا بہانہ کروں گا؟

میں اس سے التجا کروں گا کہ ’’اے نیک دل قیرون! ذرا صبرکرو تھوڑی دیر مجھے یہاں رہنے دو۔ برس ہا برس سے میں لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہوں۔ زندگی کے چند سال اور مجھے مل جائیں تو مجھے ان توہمات کا خاتمہ دیکھنے کی تسلی ہوجائے گی جن کے خلاف میں لڑتا رہاہوں لیکن یقینی بات ہے کہ قیرون میری التجا سن کر برافروختہ ہوجائے گا اور غصے سے چلائے گا ’’او خوابوں میں گم رہنے والے لا علاج شخص تمہاری خواہش کبھی پوری نہ ہوگی تم نے مجھے بیوقوف سمجھ رکھا ہے کہ اس بہانے میں تمہیں ایک زندگی دے دوں گا اورکاہل آوارہ گرد اور احمق رجائیت پسند فورا میری کشتی میں بیٹھو‘‘ یاد رکھو جب جانے کا وقت آن پہنچا ہے توکشتی کبھی بھی خالی واپس نہیں جاتی ہے اور جب انسان کشتی میں بیٹھاآخری سفرکر رہا ہوتا ہے تو اسے اپنی گزاری ہوئی زندگی کی ساری باتیں، ساری غلطیاں، ساری زیادتیاں، سارے ظلم وستم، ساری ناانصافیاں ایک ایک کرکے یاد آرہے ہوتے ہیں۔

ساری عیش وعشرت، ساری لذتیں ایک ایک کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہوتی ہیں جن کی خاطر وہ اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو ذلیل وخوارکرتا رہا انھیں اذیتیں اورتکلیفیں پہنچاتا رہا۔انھیں بے چین اور تنگ کرتا رہا لیکن بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور وہ بھوک اس کو نگل چکی ہوتی ہے وہ جھوٹی شان وشوکت، وہ ہیرے جواہرات کے ڈھیروں، زمینیں اور جاگیریں اور ملیں جنھیں وہ چھوڑ آیا ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کے اپنے اور غیرگدھوں کی طرح ان چیزوں کو نوچ رہے ہیں۔

حقیر اشیاء کو جو ازل سے حقیر ہیں اور ابد تک حقیر ہی رہیں گی۔ وہ بھی وہ ہی غلطیاں شروع کرچکے ہیں جو وہ کرکے آرہا ہے۔ زندگی کا اصل فلسفہ تب ہی شروع ہوتا ہے جب ذہن انسانی مڑکر اپنی طرف دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو پہنچانتا ہے، جب ہی سقراط کہتا تھا اپنے آپ کو پہچانو۔ اس لیے خدا کے واسطے میرے دوستوں اپنے آپ کو پہچانوکشتی میں بیٹھنے سے پہلے، پہلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔