بلیک میلنگ روسیوں کی پرانی خصلت

سردار قریشی  بدھ 15 فروری 2017

نو منتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، منظر عام پر آنے کے پہلے دن ہی سے اسکینڈلز کی زد میں تھے۔ انتخابی مہم عروج پر تھی جب مختلف خواتین نے ان پر جنسی زیادتیوں، اور ہراساں کرنے کے الزامات لگانے شروع کردیے تھے۔ وہ توخیر ہو آزاد امریکی معاشرے کی برکت سے ان الزامات کے صدارتی انتخابات کے نتائج پرکوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے اور ٹرمپ دنیا بھر میں کی جانے والی پیشگوئیوں کے برعکس ہلیری کلنٹن کو ہرا کر انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن اس موقعے پر سر اٹھانے والی روسی مداخلت کی سرگوشیوں نے ری پبلکن پارٹی کے کیمپ میں منائے جانے والے کامیابی کے جشن کو گہنا کر ٹرمپ کے حامیوں کی خوشیوں پرگویا پانی پھیر دیا۔

ان سرگوشیوں کو امریکی میڈیا نے اس وقت سنجیدگی سے لینا شروع کیا جب صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت اور ٹرمپ کوکامیابی دلانے میں اس کے خفیہ ہاتھ کی خبریں آنا شروع ہوئیں۔ ان خبروں نے فوراً ہی دنیا بھرکی توجہ حاصل کرلی، جب وہائٹ ہاؤس نے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے نہ صرف ان کی تصدیق کی بلکہ ان سے باقاعدہ بریفنگ لینے کا بھی اعلان کیا۔ پھر سی آئی اے اورایف بی آئی کی طرف سے صدراوباما اور ٹرمپ دونوں کو مفصل رپورٹس پیش کی گئیں جوگویا اس بات کا سرکاری اعلان تھا کہ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کی خبریں حقائق پر مبنی تھیں۔

یہی وہ موقع تھا جب بین الاقوامی میڈیا میں ٹرمپ کے کہے ہوئے ان جملوں کو خوب اچھالا گیا کہ ’’میرے بطور امریکی صدر حلف اٹھانے کے بعد روس امریکا کا بہترین دوست ہوگا‘‘ اور ’’پیوٹن کی دوستی میرا قیمتی سرمایہ ثابت ہوگی۔‘‘ جب پہلے پہل امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوئی تھیں تو ٹرمپ نے انھیں مضحکہ خیزقرار دے کر مسترد کردیا تھا۔اس موضوع پر ان کے آخری بیان سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ موقف میں تبدیلی کہیں روسی بلیک میلنگ کا نتیجہ تو نہیں کہ بلیک میلنگ روسیوں کی پرانی خصلت ہے ۔

روسی تاریخ کے اس پہلوکا جائزہ لینے کے لیے ہمیں اسٹالن کے دورمیں واپس جانا ہوگا جب سوویت یونین نے ٹوئرسٹ ہوٹل اور ٹریول کمپنی قائم کی تھی، ان کے تمام بیل بوائز، ڈرائیور، باورچی اور ملازمائیں سب خفیہ پولیس ایجنسی این کے وی ڈی کے لیے کام کرتے تھے جو آگے چل کر کے جی بی کہلائی۔ طوائفیں بھی اس کی تنخواہ دار تھیں جوغیرملکی سیاستدانوں اورتاجروں کو پھانسنے اوربلیک میل کرنے کے لیے ملازم رکھی گئی تھیں۔ کریملن کے قریب واقع ٹریول کمپنی کے ڈوڈی فلیگ شپ ہوسٹلری سمیت روس کے یہ ان ٹوئرسٹ ہوٹل اب بک چکے ہیں۔

یہ پرتعیش ہوٹل اب رٹزکارلٹن کہلاتا ہے جوشہر کے وسط میں پانچ ستاروں والے معیارکا ایسا رہائشی کمپلیکس ہے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں ٹھہرنے کے تجربے کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، مگر واشنگٹن کی ایک سیاسی اورکارپوریٹ ریسرچ فرم کے لیے کام کرنے والے ایک سابق برطانوی جاسوس کی ناقابل بیان اور بدنامی کی باعث یاد داشتوں کے مطابق رٹزایسی جگہ تھی جہاں ڈونلڈ جے ٹرمپ جیسے غیر ملکی مہمانوں کو بظاہر عیش وعشرت کے جال میں پھانس کر استعمال کیا جاتا تھا۔

روسی فن کا یہ شاہکار’’کمپرومیٹ‘‘کہلاتا ہے۔ اس سابق جاسوس کی یاد داشتوں کی سمری صدراوباما اور نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کو پیش کی گئی تھی جنہوں نے ایک پریس کانفرنس میں اس میں لگائے گئے الزامات کو جھوٹا قرار دے کر مستردکردیا۔

روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی ان الزامات کو لغو اورمن گھڑت قراردیا۔ہوٹل کے ترجمان نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکارکردیا۔ منیجر مارکیٹنگ اینڈکمیونیکیشن نے اپنے ای میل میں کہا کہ ہم اپنے مہمان رہنے والوں کی پرائیویسی کا تحفظ کرنے کے اصول پرکاربند ہیں۔ اب 2013ء میں اس ہوٹل کے اس سوئٹ میں کیا ہوا تھا اورکیا نہیں ہوا تھا جس میں ٹرمپ اس وقت ٹھہرے تھے جب وہ حسینہ عالم کا مقابلہ دیکھنے کے لیے روس گئے تھے، یہ تو نہیں پتہ لیکن یہ طے ہے کہ کمپرومیٹ کے ذریعے حاصل کردہ اس قسم کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے جو کریملن اپنے مخالفین کو رسوا کرنے اوردوستوں کو نوازنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

روس بھر میں پھیلے ہوئے اس قسم کے ہوٹلوں میں کئی عشروں تک کے جی بی نے اس مقصد کے لیے خفیہ کیمرے اورجاسوسی کے آلات نصب کر رکھے تھے۔ ان میں سے بہت سی بچی ہوئی چیزیں سابق سوویت ریپبلک ایستونیا کے دارالحکومت تیلن میں دیکھی جاسکتی ہیں جو سابقہ ان ٹوئرسٹ ہوٹل کے نئے فنش مالکان نے اپنے قائم کردہ عجائب گھر کی زینت بنا رکھی ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو غیر ملکی مہمانوں کی جاسوسی اور انھیں بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔

عجائب گھر قائم کرنے میں مدد دینے والے ، پیپ ایحاسالو، نے بتایا کہ ہوٹل کے 423 کمروں میں سے 60 کی جاسوسی کی جاتی تھی جو غیر ملکی تاجروں جیسے ’’ دلچسپی رکھنے والے افراد ‘‘ کے لیے مختص تھے۔ جن مہمانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے موزوں خیال کیا جاتا تھا، ان کے کمروں کی دیواروں کے پوشیدہ سوراخوں میں نصب خاص کیمروں سے طوائفوں کے ساتھ ان کے گزارے ہوئے لمحات ریکارڈکیے جاتے تھے۔ ان کے بقول یہ ساری طوائفیں کے جی بی کے لیے کام کرتی تھیں۔ ان دنوں زیادہ تر مہمانوں کا تعلق فن لینڈ سے ہوتا تھا جس کے ماسکو کے ساتھ غیرمعمولی قریبی اوراچھے تعلقات تھے مگر روسی لیڈروں کو اس کے بارے میں ہمیشہ یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ وہ کسی بھی وقت مغرب سے جاملے گا۔

ایسی کسی صورتحال سے بچنے کے لیے کے جی بی نے فن لینڈ کے پالیسی سازوں کو نشانہ بنایا جن کا ایستونیا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان میں سے کسی سیاستدان یا تاجرکو جب پتہ چلتا کہ کے جی بی اس کی تصاویر شایع کرواسکتی ہے ، یا اس کی بیوی کو بھجواسکتی ہے تو وہ بڑی آسانی سے استعمال ہونے کے لیے تیارہوجاتا۔ کے جی بی کا شکار ہونے والے یہ تاجروطن واپس جاکر اپنے دورے کو انتہائی کامیاب قرار دیتے اورکہتے کہ ہمیں سوویت یونین کے ساتھ تجارت کو مزید فروغ دینا چاہیے۔

کومپرومیٹ نامی اس روسی کھیل کا پہلا شکار جوزف السوپ بنا جو امریکا کا بااثر اخباری کالم نویس تھا اور 1957ء میں اپنے ماسکو کے دورے میں اس وقت کے جی بی کے ہتھے چڑھ گیا جب وہ ایک ہم جنس کے ساتھ داد عیش دے رہا تھا۔ کے جی بی نے روسی نوجوان کے ساتھ اس کی مصروفیت کو فلما لیا۔

السوپ کے اپنے بیان کے مطابق اس کے فارغ ہوتے ہی کے جی بی کے دو افسران زبردستی اس کے کمرے میں داخل ہوئے اورکہا کہ ان کے پاس اس کی مصروفیت کی تصاویر موجود ہیں،اگر وہ ان کی مدد چاہتا ہے تو اسے بھی ان کی مدد کرنا ہوگی۔ السوپ نے امریکی سفارتخانے کو مطلع کیا اور عجلت میں ماسکو سے نکل گیا۔ ایستونیا کے بر عکس، روس نے 1990ء کی دہائی میں سوویت دورکے کام کرنے کے یہ طریقے ترک کردیے تھے لیکن 16 برس قبل ولادیمیر وی پیوٹن کے برسراقتدار آنے کے بعد انھیں دوبارہ اختیارکرلیا۔

صدر بننے سے قبل انھوں نے 1997ء میں، جب وہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھے،روس کے پراسیکیوٹر جنرل یوری اسکاراتوف کا کیریئر تباہ کرنے میں اہم کردارادا کیا تھا، جوکریملن کی بدعنوانیوں کی تحقیقات کر رہے تھے اور جس سے خوش ہوکر صدر بورس یلسن نے پیوٹن کو وزیراعظم نامزدکیا تھا۔ خفیہ کیمرے سے بنائی ہوئی پراسیکیوٹر جنرل کی جو فلم سرکاری ٹی وی پر دکھائی گئی تھی اس میں موصوف کو اپنے بیڈ پربیک وقت دوخواتین کے ساتھ مصروف دکھایا گیا تھا۔اس فلم کے ہدایتکار مسٹر پیوٹن اب روس کے صدرہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔