پاکستان کا قرضہ اور اعتراضات

سعد اللہ جان برق  جمعرات 16 فروری 2017
barq@email.com

[email protected]

اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور ان کے وزراء کے درجات بلند کرے اور رب کریم اپنے سایہ عاطفت میں بہتر سے بہتر مقام عطا فرمائے کہ انھوں نے ایک مضمون کے ذریعے ہمارے سارے اندیشہ ہائے دور و دراز کو دور کر دیا اور دل سے شکوک و شبہات کے سارے اندھیروں کو نکال دیا۔

ایک پشتو ٹپہ میں کہا گیا ہے کہ خدا میرے محبوب کو جزا دے کہ اس نے آج اپنے رخ زیبا کا چراغ جلا کر میرے دل سے اندیشوں کے سارے اندھیرے دور کر دیے، ورنہ ہم تو ’’منفی تنقیدیے‘‘ لوگوں کے بہکاوے میں آکر تقریباً بے حس ہو کر رہ گئے تھے کیوں کہ یہ کم بخت نہ صرف ملک پر قرضوں کے بوجھ کا دل دھڑکانے والی باتیں کرتے تھے بلکہ خود ہمارے اوپر بھی اپنے قرضوں کا بوجھ لاد رہے تھے کہ ہمارے پیر کانپنے لگے تھے، وہ قرضے جو ہم نے لینا تو کیا کبھی دیکھے بھی نہیں تھے لیکن بات یہ نہیں تھی کہ نہ کچھ کھایا پیا اور بارہ آنے کا بل ہمارے اوپر آرہا تھا کیوں کہ اس کے ہم تھوڑے سے پہلے کے بھی عادی تھے۔

ایک مرتبہ ہم نے آلو بونے کے لیے ایک کھیت کو خوب اچھی طرح تیار کیا بس صرف آلو کا بیج ڈالنا تھا کہ اتنے میں ایک کسان اپنے ساتھ ایک بڑی سفارش لے کر آگیا اور بولا کہ میرے پاس آلوؤں کے لیے زمین بالکل نہیں ہے بال بچے دار آدمی ہوں اگر ایک کھیت بٹائی پرآلوؤں کے لیے دیدیں تو مہربانی ہو گی۔ ہم نے وہ تیار شدہ کھیت اس کے حوالے کر دیا۔ اس نے آلو بو دیے تین مہینے کے بعد ایک کاغذ کا پرزہ لیے ہوئے آگیا۔

ہم نے دیکھا تو اس میں ہمارے ذمے پانچ ہزار روپے واجب الادا تھے، یہ تو خیر عام سی مثال ہے ایک مرتبہ بے نظیر کے پہلے عہد زرین میں غلغلہ ہوا کہ ایک کمپنی کے حصص فروخت ہو رہے ہیں، ایک بینکر دوست نے مشورہ دیا کہ یہ موقع ہے خرید لو، ہم نے بھی سوچا کمپنی میں حصہ داری کوئی چھوٹی موٹی بات تو ہے نہیں اس لیے کچھ حصص خرید لیے۔ اس کے بعد مسلسل ایک شیئر ہولڈر کے ناطے طرح طرح کے کاغذ ہمارے پاس آتے رہے جن میں  حکومتی وزارء کے مضمون جیسے اعداد و شمار ہوتے تھے اور آخر میں سو ایک سو بیس روپے کا منافع بھی ہوتا تھا۔

ہم بڑے خوش تھے،کمپنی کی ٹرانسپورٹ کو ہم بڑے پیار سے دیکھتے اور دعائیں دیا کرتے تھے، لیکن پھر اچانک کاغذات میں خسارے کا رجحان بڑھنے لگا ۔آخر کار پہلے ہمارا اصل سرمایہ خسارے نے کھا لیا اور پھر اس سے پہلے کہ یہ حصہ داری ہمیں بھی کھا جائے ہم نے ہاتھ کھڑے کر لیے کہ ہم شیئر ہولڈری سے لنڈورے ہی بھلے۔

مطلب یہ کہ جب اپنے اوپر اس ان دیکھے قرضے کا سنتے تھے تو کچھ زیادہ تشویش نہیں ہوتی تھی لیکن اس خیال سے تو ڈر رہے تھے کہ کہیں جب ہمارے لواحقین کو پتہ چلے گا تو ہم اتنا اتنا قرض ان کے ذمے چھوڑ گئے ہیں تو وہ دل میں کیا کیا سوچیں گے کہ نہ جانے ہم نے کیا کیا عیاشیاں کر کے خود کو اور پھر ان کو مقروض بنایا ہے۔  خدا ایک مرتبہ پھر بھلا کرے حکومتی وزیر کا کہ انھوں نے ’’اعداد و شمار‘‘ کے ذریعے ثابت کر دیا کہ نہ تو پاکستان مقروض ہے اور نہ ہم … یہ ہوائی دشمنوں کی اڑائی ہوئی تھی۔

اعداد و شمار کے ساتھ ہماری کچھ زیادہ بنتی تو نہیں ہے ،ہم تو خیر ان سے روٹھے ہوئے تھے لیکن ان کم بخت اعداد و شمار نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ کبھی روپے پیسے کی شکل میں آکر نہیں منائیں گے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم اعداد و شمار کے معاملے میں بالکل کورے ہوں، چھوٹے چھوٹے یعنی دو ہندسوں سے کم چھوٹے یعنی ’’بچے‘‘ اداکاروں سے تو ہمارا لین دین قائم ہے اس بڑھیا کی طرح جس نے پہلی مرتبہ دلی میں شاہ جہان کا لال قلعہ دیکھ کر کہا کہ یااللہ اتنا بڑا گھر اس پر تو پورے بیس روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔

سپاہیوں نے بڑھیا کو شاہ جہان کے سامنے پیش کر دیا کہ کروڑوں کی لاگت سے تعمیر ہونے والے قلعے کو یہ بیس روپے کا بتا رہی ہے لیکن جب بڑھیا سے سوال جواب کیا گیا تو پتہ چلا کہ بیس سے زیادہ گنتی اسے آتی ہی نہیں تھی، چنانچہ ہم نے جناب وزیر صاحب کے بڑے بڑے اعداد و شمار اور اعشاریئے فیصد وغیرہ تو نہیں سمجھ پائے لیکن اتنا ضرور سمجھ گئے کہ حالات برے نہیں بلکہ اچھے ہیں اور مزید اچھے ہونے کی توقع ہے۔ ویسے ماننا پڑے گا کہ آخر میں ان جناب نے سارے اعداد و شمار کو کیپسول میں بند کر کے پکڑا دیا ہے ۔

اوپر بیان کیے گئے ’’شواہد‘‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ پاکستان اپنے قرضوں کا ’’انتظام‘‘ مناسب طریقے پر کر رہا ہے اس سے اس تاثر کی بھی فیصلہ کن طریقے سے تردید ہو جاتی ہے کہ آنے والے کئی برسوں تک پاکستان کو قرضوں کی ’’ادائیگیوں‘‘ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ ’’اوپر‘‘ بیان کیے گئے ’’شواہد‘‘ اعداد و شمار اور کچھ مالیاتی قسم کے انگریزی سے بھرے ہوئے ہیں، ہماری سمجھ دانی سے ذرا اوپرکی چیزیں ہیں یوں سمجھ لیجیے،ہماری ویسی ہی تسلی ہو گئی جیسی ایک شوہر کی اس کی بیوی نے کر دی تھی۔

اس شوہر کو شکایت تھی کہ شادی کے تین مہینے بعد اس کے گھر چاند سا بیٹا ہو گیا تھا منفی تنقیدیے لوگوں کے بہکاوے میں آکر اس نے ایک دن بیوی سے پوچھا کہ بچہ تو شادی کے نو مہینے بعد پیدا ہوتا ہے، بیوی نے اسے حساب سمجھاتے ہوئے کہا دیکھو تمہاری شادی کو کتنے مہینے ہوئے؟ شوہر نے کہا تین… بیوی نے کہا تین تو یہ ہو گئے… اب بتاؤ میری شادی کو کتنے مہینے ہوئے؟ شوہر نے کہا تین … عورت نے کہا یہ ہو گئے چھ مہینے اور تین مہینے ہم دونوں کی شادی کو ہوئے کل کتنے بنے ؟ شوہر نے کہا نو … اس پر بیوی نے کہا حساب ٹھیک بیٹھا کہ نہیں؟ … شوہر نے کہا بالکل ٹھیک… اس کے بعد وہ باہر نکلا اور تمام منفی تنقیدیوں سے بولا … تم سب جھوٹ بول رہے ہو حساب تو بالکل ٹھیک بیٹھ رہا ہے، اور جب حساب ٹھیک بیٹھ رہا ہو تو یہ باقی باتیں ساری کی ساری بکواس ہوتی ہیں، ویسے جناب وزیر صاحب سچے بھی بہت ہیں ۔ ان الفاظ پر ذرا غور کیجیے کہ ’’قرضوں کی ادائیگیوں میں‘‘ …آیندہ ’’کئی‘‘ برسوں میں … کچھ مشکلات … کا سامنا کرنا پڑے گا … ’’کس کو کرنا پڑے گا‘‘ کئی برسوں کو کتنا سمجھنا چاہیے اور مشکلات تو ایک سیدھا سا لفظ ہے یعنی سب اچھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔