محبت سے نفرت کی نفی

جاوید قاضی  جمعرات 16 فروری 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

دہشت کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ اس کی نہ قوم نہ مذہب، نہ زمیں ہوتی ہے۔ ہم تو سمجھے تھے کہ اب یہ صرف کوئٹہ تک محدود ہے۔ کل لاہور میں عین اْس دن اس نے اپنی کروٹ بدلی جب دنیا ویلنٹائن ڈے منانے جا رہی تھی۔ دہشت پھیلانے والوں نے اپنا نام بھی بتا دیا۔ جس شخص کو بموں سے بھر دیا تھا اس کی تصویر بھی شایع کر دی اور اگر نہ کرتے تو مقصد کیسے پاتے۔ دہشت کیسے پھیلتی۔

یہ پہلا موقع تھا شایدکہ بھرے احتجاج میں راستے پرکھڑے بھرپور مجمعے پر خود کش دھماکا کیا گیا۔ وہ سمجھے کہ شاید یہ ویلنٹائن ڈے منانے والے ہیں یا وہ یہ چاہتے تھے کہ دھماکے کے اگلے دن جناح کے پاکستان  کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، کالج و اسکول کے طلباء جب ویلنٹنائن  منائیں گے، ناچیں گے، گائیں گے،کھیلیں گے، کْودیں گے تو ان پر اْس سے پہلے دہشت اور وحشت طاری ہو جائے اور وہ ڈرجائیں۔

اِن طلباء کو، بچوں کو، بوڑھوں کو ہمارا آرٹیکل20 اْس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منائیں۔ کیا کرتے ہیں ویلنٹائن ڈے پر، وہ بہت سارے ٹاک شو اینکرز کی طرح نفرتیں تو نہیں پھیلاتے، اِسے کافر، اْسے واجب القتل تو نہیں قرار دیتے۔ کیوں نہ آئیں وہ گلیوں اور چوراہوں پرکہ ان کے ہر رویے میں مسکان ہے۔ ان کی آنکھوں میں تابناکی ہے، ہواؤں میں جھولتے ہوئے مچلتے ہوئے، پیار میں تیرتے ہوئے یہ نوجوان ہر نفرت سے نبرد آزما ہیں کہ جیسے وہ کہتے ہوں چتراؔ کی گائی ہوئی غزل کی طرح۔

ہم کو دشمن کی نگاہوں سے نہ دیکھا کیجیے
پیار ہی پیار ہے ہم پر بھی بھروسہ کیجیے

پیار، سنسار، میرا گھر، میری جنت، پرندوں کے جْھرمٹ،کھلی فضاؤں  میں گاتے ہوئے، اْڑتے ہوئے، سورج کی روشنی سے مچلتے ہوئے،گیسو، سائے، شجر، دھوپ کنارہ، شام ڈھلے، صبح کی ِکرنیں کتنے رنگ ہیں پیار کے۔ کتنا وشال کتنا وسیع ہے پیار۔ کتنے  معنی ہیں پیار کے۔ کسی معصوم بچے کی مسکان کی مانند، رہگزاروں کی طرح۔ آبشاروں کی طرح پھیلتا ہوا، سمٹتا ہوا ماں کی ممتا کی طرح دشتِ تنہائی کی آغوش میں ہجر میں محبوب کے خیال سے پیوست پیار۔ آنکھوں سے پلکوں میں آیا چشم اور اس میں اْن کے عکس جو نہیں آتے اور وجود میں اْتنے موجود کہ نہ بھی ہوں، تو بھی کیا۔

کیا سزا دو گے؟ کیا جزا دو گے؟ کون سا انصاف کرو گے؟ کتنی پابندیاں لگاؤ گے؟ اِس دن پر جس کا نشان ہے’’دل‘‘ اور رنگ ہے ’’لال‘‘ اور نام ہے ویلنٹائن وہ شخص جسے خود کلیسا نے سْولی پر لٹکا دیا اور اسے کلیسا کے سْولی پر لٹکانے سے یہ دن وجْود میں آیا۔

اور جس وجہ سے وہ لٹکایا گیا تھا وہ ایک آفاقی حقیقت تھی اور اتنی منّور تھی کہ شائد سورج بھی نہ ہو، جس طرح رْومی کہتے ہیں۔

’’مداحِ شمس، مداحِ خود اَست‘‘

پیار خود بھی ہوتا ہے پیار عکس بھی ہوتا ہے اْسے  کیسے زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے۔ آپ شوق سے اپنی عداوت پہ رہیںاور  میں آپ کے عداوت پر رہنے کے حق کی وکالت کرونگا کہ میرا آئین آپکو بھی یہ حق دیتا ہے، اختلاف رکھنا آپ کا بنیادی حق ہے اور آپ بھی  بھلے گلیوں اور چوراہوں پر آکر احتجاج کریں۔ کہ آپ بھی اِس مملکت ِ خداداد کے شہری ہیں مگر آپ کو کسی کو بھی مارنے کا حق نہیں ہے۔ دہشت، وحشت پھیلانے کا حق نہیں۔ اس سے پہلے کہ قانون آپ کو روکے آپکو یہ بہ خوبی علم ہونا چاہیے کہ یہ کسی بھی لحاظ سے مہذب شہری کا رویہ نہیں۔ یہ سب کْچھ جنگل کے جانوروں میں ہوتا ہے تو پھر آپ صادر کریں کہ آپ ہمیں واپس جنگل کی وحشتوں میں بھیجنا چاہتے ہیں !!!

یہ بزدلی بھی ہے اور بزدلی کا اعتراف بھی، یہ شکست بھی ہے اور شکست کا اعتراف بھی کہ باتیں دلیلوں سے ہوتی ہیں۔ سننے اور سنانے شواہد اور حقائق سے ہوتی ہیں۔آپکے اس عمل سے یہ اور ہو گا وہ رْکے گا نہیں وہ اور پھیلے گا ، اس میں مزاہمت بھی آئے گی۔

میں اِس دْکھ کی گھڑی میں اہلیانِ لاہور کے ساتھ ہوں۔ اِن ماؤں کے جن کے لخت ِ جِگر جو بے قصور تھے مارے گئے۔ کئی بچے جو معصوم تھے یتیم ہو گئے۔ پولیس کے دو ڈی آئی جی شہید ہو گئے، درجنوں لوگ مارے گئے۔ کیا یہ سب کْچھ ایسے نہ تھا کہ محبت کے دن، محبتوں کے لیے مارے گئے۔

’’تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے

تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں پر مارے گئے‘‘

(فیضؔ)

ریاست ہے بھی اور ریاست نہیں بھی یا شائد ابھی تک ریاست واضح نہیں کہ اْسے کیا کرنا ہے کس سمت جانا ہے۔ وہ ریاست کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ہم اسکو جڑ سے نہیں اوپر سے کاٹ رہے ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ اْن کو جڑ سے کاٹا جائے۔ جو نفرتین پھیلاتے ہیں، جو کافر، غدار اور واجب القتل کے اعزازات فرماتے ہیں۔ یہ اس کا تسلسل ہے۔ جو اِن کو فنڈز فراہم کرتے ہیں باہر سے یا اندر سے۔  یہ اْس کا تسلسل ہے۔

ضربِ عضب صرف ایکشن تھا بھلے کتنا  ہی بھر پور اور معنی خیز ہو، وہ تھا نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے تابع لیکنNAP کے باقی عوامل فالج زدہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ایک مجموعی اور جامع پالیسی بنائی جائے۔ ہمیں اپنی تاریخ جو مسخ ہے اس میں درستگی لانی ہو گی۔ ہم جو بچوں کو اسکولوں میں پڑھاتے ہیں اس میں سے نفرتوں کے سبق نکالنے ہوں گے۔ ہمیں ان  اینکرز اور ٹاک شوز پر گہری نظر رکھنی ہو گی جو کہ اعلانیہ نفرتیں پھیلاتے ہیں۔

خوش آیند بات یہ ہے کہ بظاہر ضربِ عضب نے دہشتگردی کی کمر توڑ دی ہے لیکن اب بھی وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ اس کے پھیلنے اور وسیع ہونے کے خدشات اب بھی موجود ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریاست اور اْس کے ادارے اب  بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ پہلے تو اچھے اور بْرے طالبان کی تفریق سے اِن کی شناخت کرتے تھے جب تفریق ختم ہوئی تو ریاست کو یہ بات اب بھی سمجھنے میں نہ آئی کہ کثیرالمذاہب کے اس ملک میںکثیرالخیال بھی ہیں، لبرل بھی ہیں۔ وہ کسی فرقے سے بھی ہوں، کسی بھی قوم و قبیلے سے ہوں لیکن سب سے پہلے لبرل ہیں۔

لبرل کافر نہیں ہیں، خرد افروزی کے علمبردار ہیں، انسانیت کے پرچارک ہیں، ان کے لبرل ہونے  کے حق کو بھی آئین نے تسلیم کیا ہے۔ وہ ویلنٹائن ڈے منانا چاہتے ہیں تو شوق سے منائیں، ریاست سب شہریوں اور اْن کی تمام سوچوں، خیالوں اور رویوں کی محافظ ہے۔ اسے اپنا کام کرنا چاہیے جو کہ آئین میں موجود ہے نہ کہ آئین سے تجاوز کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔