ہم پاکستانیوں کو پیر صاحب چاہئیں

سید معظم حئی  جمعرات 16 فروری 2017
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

لگتا ہے ہم پاکستانیوں پہ اگر سب پہ نہیں تو ہم میں سے بہت سوں پہ کسی آسیب کا سایہ ہے کہ ہمیں کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا، اچھے برے، صحیح غلط، حرام حلال میں فرق نظر ہی نہیں آتا۔ اوپر سے نیچے تک، دائیں سے بائیں، یہاں سے وہاں تک، سڑکوں سے ایوانوں تک، جہاں تک آپ نظر دوڑائیں گے، آسیب زدہ پاکستانی نظر آئیں گے۔

سڑک پہ ہوں گے توموٹر سائیکل والا سیدھا چلتے چلتے اچانک مڑجائے گا، گاڑی والا رانگ سائیڈ سے آئے گا اورآنکھیں دکھائے گا، چھکڑا منی بس سڑک کے بیچوں بیچ کھڑی ہوجائے گی، چنگ چی رکشا آپ پہ چڑھ دوڑے گا، بھاری بھرکم ٹرک، ٹرالر، آئل ٹینکر چوبیس گھنٹے دندناتے نظر آئیں گے۔ ایک طرف کوئی کردار اور شخصیت کا بونا وی آئی پی اپنے بے ہودہ پروٹوکول سے ٹریفک رکوا کر خود کو بڑا سمجھے گا تو دوسری طرف دس پانچ لوگ سڑک گھیرے ’’احتجاج‘‘ کرتے نظر آئیں گے۔

ایسا ہی احتجاج ہائی وے یہاں تک کے مین ریلوے لائن پہ بھی نظر آئے گا، احتجاجی گاڑیوں کے شیشے توڑ دیں گے، ریل پہ پتھراؤکریں گے اور پولیس اور انتظامیہ ان سے مذاکرات کرے گی تاکہ ’’افہام و تفہیم‘‘ سے معاملہ حل ہو جائے، جو کہیں غلطی سے بھی پولیس نے سڑک، ہائی وے، ریلوے لائن بند کرکے لاکھوں کو یرغمال بنانے والے احتجاجیوں کو ہاتھ بھی لگا دیا تو چینل والے ایک کہرام برپا کریں گے۔

ادھر سڑکوں پہ ٹریفک پولیس منہ زور موٹرسائیکل والوں سے معاملہ کرنے میں مگن سڑکوں پہ ہوتے ہوئے بھی نہ ہونے کے برابر ہوگی۔ سائل تھانے جاتے گھبراتے ہوں گے، تھانے والے کمزور مظلوموں پہ ظالموں سے سمجھوتہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ملیں گے۔ مجرم جتنا بڑا اور برا ہوگا اتنا ہی بے خوف اور عزت دار ہوگا، جاگیردار جمہوریت میں وہ پولیس والوں کے تبادلے اور تقرریاں کرتا پھرے گا، آئی جی تک بھی اگر اس کی بات نہ مانے تو اس کا بھی ٹرانسفرکرتا ہوگا۔

پولیس کے سپاہی و افسر سے لے کر ٹیچر تک پیسے لے کر بھرتی ہوتے ہوں گے۔ ادھر سڑکوں پہ کار شوروم والوں سے لے کر ورک شاپ والوں تک سب نے اپنا کاروبار پھیلایا ہوگا۔ آفس والے سڑکوں پہ گملے اور اینٹیں رکھ کر ’’اپنی‘‘ پارکنگ کی جگہ گھیرتے ہوں گے۔ ناجائز کار پارکنگ جگہ جگہ نظر آئے گی۔

چھپر ہوٹل سے لے کر فائیو اسٹار ہوٹل تک لوگوں کو سڑا ہوا گوشت اور سبزیاں کھلائی جا رہی ہوں گی، قصائی کتے اورگدھے ذبح کرتے پھر رہے ہوں گے، دودھ کے نام پر لوگ ہنسی خوشی غلاظت اور کیمیکل خرید رہے ہوں گے، گٹرکے پانی سے اگائی گئی سبزیاں بک رہی ہوں گی، وزن بڑھانے اور اُجلا کرنے کے لیے ادرک تیزاب میں ڈالی گئی ہوگی، خربوزوں کو میٹھا کرنے کے لیے انجکشن لگ رہے ہوں گے، لوگ دھڑا دھڑ پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کرکے پھینک رہے ہوں گے اور پھر کوڑا بڑھنے کا رونا رو رہے ہوں گے۔

دکاندار ’’صبح‘‘ بارہ ساڑھے بارہ بجے دکانیں کھولنے پہ مصر ہوں گے، دکاندار ہزاروں، لاکھوں کا بھتہ دیتے ہوں گے مگر چند سو، ہزار کا ٹیکس دینے پہ تیار نہیں ہوں گے، اسلحہ سمیت اسمگلنگ کا مال درجنوں چیک پوسٹس سے باحفاظت و باعزت طریقے سے ملک بھر میں پھیلتا ہوگا اور عام شہری ناکوں پہ ذلیل ہوتے ہوں گے۔کہیں اسکول باڑے اور گودام بنے ہوں گے اورکہیں بچے ابلتے گٹرکے پانی میں سے گزرکے اسکول جاتے ہوں گے، پرائیویٹ اسکولوں میں چھٹیوں کی فیس لی جاتی ہوگی مگر ٹیچرزکو چھٹیوں کے مہینوں کی تنخواہ نہیں دی جاتی ہوگی، امیروں کے بچوں کے اسکولوں کا الگ نصاب اورغریبوں کے بچوں کے اسکولوں کا الگ نصاب ہوگا۔

ڈاکٹر صحت مند لوگوں کے دل میں جعلی اسٹنٹ ڈالتے ہوں گے، کہیں ڈاکٹر مریضوں کی پٹائی کر رہے ہوں گے اورکہیں سڑک بند کیے بیٹھے ہوں گے۔ کہیں کسی شہر میں اسٹریٹ کرائمز جیسے روزمرہ کا معمول ہوں گے، ڈاکو بات بات پہ لوگوں پہ گولیاں چلاتے ہوں گے اور پولیس افسر میڈیا پہ الزام ڈالتے ہوں گے۔ بینک کروڑوں اربوں کے قرضے معاف کرتے ہوں گے اور چند ہزار اور چند لاکھ کا قرضہ لینے والوں کے پیچھے غنڈے لگا دیتے ہوں گے۔

سیٹھ ملازموں کی تنخواہیں اور مالک مکان کرایہ داروں کے ایڈوانس کھا جاتے ہوں گے اور کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔ کہیں کسی شہر کے لوگوں کا پینے کا پانی تک چوری کرکے انھی کو پھر واٹر ٹینکروں کے ذریعے مہنگے داموں بیچا جاتا ہوگا۔ ادھر دیہات میں بڑے زمیندار چھوٹے کاشتکاروں کا پانی مار جاتے ہوں گے۔ ملک میں ڈیم بنانے کے مخالف پاکستان کے دریاؤں پہ بننے والے بھارت کے درجنوں ڈیمز اور بیراجوں پہ احتجاج اور مخالفت کا ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالتے ہوں گے۔

دنیا بھر میں کوئلے سے بجلی بنانے والے پلانٹ بند کیے جا رہے ہوں گے کہ یہ بے تحاشا آلودگی پیدا کرتے ہیں اور یہاں نئے لگائے جا رہے ہوں گے۔ بھارت کے پاکستان کے دریاؤں کا پانی بند کرنے، پاکستانی شہریوں اور فوجیوں کو شہید کیے جانے، پاکستان میں دہشتگردی کرانے کا جواب اپنے ہاں بھارتی فلموں کی نمائش سے دیا جا رہا ہوگا۔ ٹی وی ٹاک شوز میں لوگ اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کے جھوٹ کو سچ، سیاہ کو سفید اور کرپشن کو ان کا حق ثابت کرنے کے لیے ایسے جوش سے غل غپاڑہ مچا رہے ہوں گے جیسے ان کے آقا ان کی قبروں میں بھی آکر انھیں بخشوائیں گے۔

برطانوی جمہوریت پہ صدقے واری سیاسی جماعتیں برطانوی جمہوریت کے بنیادی اجزا میں شامل بااختیار شہری حکومتوں کے جمہوری نظام کو سرے سے مانتی ہی نہیں ہوں گی۔ ایک صوبے کے دیہات کی نمایندہ صوبائی حکومت ایک شہر کے محصولات، وسائل اور زمینوں کی مالک بنی بیٹھی ہوگی مگر اس شہر پہ ترقیاتی فنڈز اور اس شہر کے لوگوں پہ صوبائی سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کیے ہوئے ہوگی۔

اس شہر کے لوگوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والے اس شہر کے پارک تک بیچ کھا گئے ہوں گے۔ ملک پہ لادے گئے کھربوں کے قرضے نجانے کہاں گئے ہوں گے۔ چہارجانب حال کچھ ایسا ہی برا نظر آئے گا۔ ان لوگوں سے جو کبھی غلطی سے ان کے کرتوتوں پہ کچھ جو پوچھ لیا جائے تو وہ الٹا آپ پہ چڑھائی کردیں گے۔

سچ پوچھیے تو ہم میں سے بہتوں کی دیوانگی کا یہ عالم دیکھ کے لگتا ہے کہ ہمیں قبلہ جناب ڈنڈا پیر صاحب کی اشد ضرورت ہے جس ساعتِ مبارک سے وہ آن موجود ہوئے اور اپنی کرامات دکھانی شروع کردیں تو اس وقت سے ہم پاکستانیوں پہ سوار کرپشن، چوری اور سینہ زوری، بے ایمانی و منافقت، ہٹ دھرمی و ڈھٹائی، عیاری و مکاری، تمام ہی جملہ آسیب اتر جائیں گے۔ ہمارا ملک جاہلستان وکرپشنستان سے بدل کر سچ مچ کا پاکستان بن جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔