موت کے سوداگر

فرید رزاقی  جمعرات 16 فروری 2017
اب اتنے سخت ترین قوانین کی صورت میں بھلا کس کے لیے کاروبار کرنا ممکن ہوسکے گا؟ کاش ہمارا نظام بھی اِس قدر مضبوط ہوتا جہاں ہمیں یقین ہوتا کہ سزا ٹھیک دی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل

اب اتنے سخت ترین قوانین کی صورت میں بھلا کس کے لیے کاروبار کرنا ممکن ہوسکے گا؟ کاش ہمارا نظام بھی اِس قدر مضبوط ہوتا جہاں ہمیں یقین ہوتا کہ سزا ٹھیک دی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں تب تک حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی، جب تک کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہوجائے۔ 2014ء میں ایک بل حکومت اپنی اکثریتی طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاس کرتی ہے۔ اِس حوالے سے کیمسٹ، فارماسیوٹیکل اور دواساز کمپنیاں دہائی دیتی رہیں کہ ہمارا مؤقف بھی جان لیجیئے لیکن مغلِ اعظم اپنے شاہی فرمان کے آگے کسی کی بات سننے کے کہاں قائل تھے؟ پھر دواساز کمپنیاں اپنی ہی حکومت کو متوجہ کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہارات کا سہارا لیتی ہیں کہ خدارا ہمارا مؤقف بھی جان لیجیئے کہ جعلی اور اصلی ادویات میں کیا فرق ہے؟ لیکن مغلِ اعظم نے نہ موقف سُننا تھا اور نہ ہی سُنا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دواساز کمپنیوں نے احتجاج کی کال دے دی۔ لیکن بھلا شہنشاہ کو کیا پرواہ شٹر ڈاون سے، کیونکہ یہ تو خالص عوامی مسئلہ تھا۔

گزشتہ دنوں تنظیم کے مرکزی صدر طاہراعظم نے ایکسپریس کے پروگرام کل تک جاوید چوہدری کے ساتھ یہ انکشاف کیا ہے کہ ہم خواجہ سلمان رفیق اور دیگر صوبائی وزراء سے ملے، انہیں اپنا مؤقف دیا جس سے صوبائی وزیر نے اتفاق کرتے ہوئے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شہباز شریف ہی اس پر کوئی فیصلہ لے سکتے ہیں اور ہم وہ اِس حوالے سے کچھ نہیں کرسکتے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ صوبائی وزراء اتنے ہی بے بس ہیں اور فردِ واحد نے ہی تمام فیصلے خود کرنے ہیں تو پھر یہ جمہوریت کا ڈرامہ کیوں؟ بادشاہ اور شاہی خاندان نے ہی اگر سارے فیصلے کرنے ہیں تو غیر اہم اداروں کے اخراجات کے لئے عوام پر دباؤ کیوں ڈالا جارہا ہے؟ عدالتوں کو تالے لگادینے چاہیئے اور جاتی عمرہ اور وزیراعلیٰ ہاوس کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کے ہر فرد کو یہ باقاعدہ اعزاز دے دینا چاہیئے کہ وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ظلِ الٰہی کی رضا ہوگی تو آپ کا موقف سُنا جائے گا اور اگر رضا نہیں تو آپ جائیں بھاڑ میں۔

اِس معاملے میں بھی یہی ہوا کہ دواساز کمپنیاں مال روڈ پر احتجاج کے لئے جمع ہوتی ہیں لیکن حکومتی وزیروں کو فرصت ارے نہیں، جرات نہیں ہوتی کہ وہ اُن سے جاکر مذاکرات کریں، جب کہ انٹیلی جنس رپورٹس موجود تھیں کہ لاہور میں 2 خودکش بمبار داخل ہوچکے ہیں پھر بھی فول پروف سیکیورٹی کے دعویدار خادم اعلیٰ نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی۔ لوگوں کی جان کو کوئی پرواہ تھی نہ ہے اور نتیجہ وہی نکلا جس کا خدشہ موجود تھا۔ بھیڑیوں کو بالکل آزادی دے دی گئی کہ وہ انسانیت کو چیرپھاڑ ڈالیں۔ ایک وحشی درندہ آتا ہے اور لاہور کے سب سے حساس علاقے میں دیئے گئے دھرنے کو نشانہ بناتا ہے جس میں دھرنے کے شرکاء سمیت پولیس کے اعلی افسران ہم سے رخصت ہوگئے۔

اِس بدقسمت ساںحے کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ صوبائی حکومت اپنی غلطی کو تسلیم کرتی، مگر پہلے ایسا ہوا ہے جو اب ہونا تھا؟ بلکہ سانحہ کے بعد ظل ِالٰہی فول پروف سیکیورٹی کے حصار میں اسپتال کا دورہ کرتے ہیں اور روٹین کی تسلی دینے کے بعد یہ اہم ترین انکشاف کرتے ہیں کہ لاہور دھماکہ دشمنوں کی سازش ہے۔ یعنی کہ اگر وہ قوم کو یہ نہیں بتاتے تو ہمیں تو پتہ ہی نہیں چلتا، لیکن نہ جانے وہ قوم کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت میں وہ بُری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

بات تلخ ہے لیکن شاید عوام کو بھی لاشیں اٹھانے کی عادت پڑچکی ہے۔ اِس لئے ہر سانحہ کے بعد مکمل خاموشی طاری رہتی ہے۔ عوام کی اکثریت تو یہی سمجھ رہی ہے کہ دھرنا دینے والے دوا ساز موت کے سوداگر تھے جو خود موت کا شکار ہوگئے کیونکہ صبح و شام الیکٹرانک میڈیا پر مہنگے اشتہارات، پرنٹ میڈیا پر پورے صفحے پر مشتمل موت کے سوداگر کے اشتہارات دیکھنے کے بعد عوام کیوں غمگین ہو کر اُن کاغم منائے۔ ایسے موت کے سوداگروں کو جینے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اُن کو تو ویسے بھی بہت جلد سلاخوں کے پیچھے عمر قید یا سزائے موت کی سزا ہوجانا تھی۔ اگر ایک خود کش حملہ آور نے اُن کا راستہ آسان کردیا تو غم کیسا؟

یہ سطریں پڑھ کر یہ ممکن ہے کہ آپ مجھے پاگل کا طعنہ دیں گے اور آپ کا بس چلے تو میرا گریبان بھی پکڑلیں لیکن حضور تحمل سے کام لیجیئے اور میری اگلی سطریں پڑھ کر خود فیصلہ کیجیئے گا کہ میں نے کیا غلط کہا ہے؟ کیا آپ بھی میری طرح اشتہارات دیکھ اور پڑھ کر اب تک اِس نتیجے پر نہیں پہنچ چکے تھے کہ یہ سب دوا ساز موت کے سوداگر ہیں؟

لیکن میرے نزدیک حقیقت کچھ اور ہے، مال روڈ پر 15 سے 20 ہزار یہ موت کے سوداگر کیوں جمع ہوئے اِس کا پس منظر کیا ہے اِس حوالے سے کم ہی لوگ واقف ہوں گے اور مجھے تو شکوہ ہے اُن موت کے سوداگروں سے بھی ہے جو اپنا مدعا معاشرے میں موجود لوگوں تک نہ پہنچا سکے، انہیں اپنی صفائی نہ دے سکے، مہنگے اشتہارات کے عوض اِن موت کے سوداگروں کی آواز میڈیا تک بھی نہ پہنچ سکی، لیکن اصل حقیقت کیا ہے وہ جانیئے اور اگر ممکن ہوسکے تو آپ کی خدمت کرنے والوں اور موت کے سوداگروں میں تمیز ضرور کیجیئے گا۔

یہ 2012ء کی بات ہے جب پاکستان میں آصف علی زرداری صاحب کی حکومت موجود تھی۔ وزیر فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے 1976ء کے ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ڈرگز کی تعریف تک بدل کر رکھ دی تھی اور ایک لفظ کی ہیر پھیر سے وہ بگاڑ پیدا کیا جس کی تلافی اب تک نہیں کی جاسکی۔ 2012ء تک  فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے ہربل ادویات کو ایلوپیتھک ادویات کی نسبت جو استثنیٰ حاصل تھا اسے انگریزی کے ایک لفظ ’’Excluding‘‘ کی جگہ ’’Including‘‘ کا استعمال کرکے بچوں کا دودھ، فنائل، صابن، شیمپو وغیرہ تک سب کو ڈرگ کا درجہ دے دیا۔ یوں ایک نقطے کی غلطی نے محرم کو مجرم بنادیا۔

اداروں نے دہائیاں دی لیکن انہیں تسلی دی گئی کہ ہم اِسے واپس لے لیں گے، مگر بدقسمتی سے کچھ بھی نہ ہوسکا۔ پھر 2013ء میں عام انتخابات ہوئے اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آگئی۔ SRO-412 کے تحت 2014ء میں وفاقی حکومت نے ہربل اداروں کو کہا کہ وہ اپنے آپ کو ان لِسٹ کرالیں۔ اِس موقع پر دوا سازوں کی انجمن نے کہا کہ انہیں اِس حوالے سے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے اور ہم اپنا نام درج کراتے جاتے ہیں، لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ اِس حوالے سے بہت بے ضابطگیاں کی گئیں، جن میں نوازنے والوں کو نوازا گیا اور مخالف لوگوں پر سختی کی گئی۔

یہ پورا معاملہ خالصتاً وفاق سے منسلک تھا اور صوبائی حکومتوں کو اِس حوالے سے کوئی پریشانی نہیں تھی، لیکن چونکہ پنجاب میں بھی ن لیگ کی حکومت تھی اِس لئے وہاں بھی ایسے معاملات چلانے کی کوشش کی جس کی بنیاد پر اپنے لوگوں کو کسی حد تک نوازا جاسکے، لیکن جب اِس پوری کارروائی میں اپنے لوگ میں مشکل میں آنے لگے تو خیال آیا کہ کیوں نہ قانون میں تبدیلی کرلی جائے۔ اگر عوامی مفاد کے لئے سب کیا جائے اور میرٹ کی بنیاد پر لوگوں کو اِس حوالے سے ذمہ داری دی جائے تو بھلا کس کو پریشانی ہوسکتی ہے، لیکن یہاں المیہ یہ ہوتا ہے کہ جن کو قانون سازی کی ذمہ داری سونپی جاتی وہ دواسازی کے عمل کی ’الف، ب‘ سے بھی واقف نہیں ہوتے۔

رواں ماہ پنجاب میں جو نیا ڈرگ ایکٹ منظور ہوا ہے اُس میں ایک دلچسپ بات سامنے آئی کہ غیر معیاری ادویات کو جعلی قرار دے دیا گیا ہے اور اِس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ اِس جرم کے لیے 5 سے 15 کروڑ روپے تک کا جرمانہ یا 15 سال قید کی سزا رکھی گئی ہے اور وہ ناقابل ضمانت۔ اب بات کرتے ہیں کہ غیر معیاری اور جعلی ادویات میں فرق کیا ہوتا ہے، غیر معیاری ادویات وہ ہوتی ہے جو انسانی غلطی کی وجہ سے پرانی ہوجائیں یا موسم کی وجہ سے خراب ہوجائیں، یعنی غیر معیاری دوائی جان بوجھ کر نہیں بنائی جاتی بلکہ یہ خاص غلطی کی وجہ سے ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف جعلی ادویات ایک جرم ہے جس میں دوائی کا فارمولا ہی تبدیل کردیا جاتا ہے اور اپنے منافع کی خاطر انسانی جان کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

سزا سے متعلق چند دلچسپ چیزیں بھی عوام کو بتاتا چلوں کہ تمام سزاوں کا اختیار ڈرگ انسپیکٹر کو دے دیا گیا ہے، یعنی اگر کسی دوکاندار کا ڈرگ انسپیکٹر سے اچھا تعلق ہوا تو وہ بچ جائے گا اور اگر کچھ اونچ نیچ ہوئی تو سمجھیں دوکاندار تو بے موت ہی مارا جائے گا۔ اگرچہ سزا کے خلاف اپیل ڈرگ کورٹ میں دائر کی جاسکتی ہے لیکن ڈرگ کورٹ سے متعلق بھی جان کر آپ کو حیرت کے جھٹکے لگیں گے کہ لاہور میں واحد جج ہے۔ اِسی طرح ایک ملتان میں بھی ہے اور پورے پنجاب میں کوئی 5 ڈرگ کورٹ کے جج ہوں گے، لیکن عام خیال یہی ہے کہ ڈرگ کورٹ کے جج حضرات حکومت کے خلاف فیصلے کم ہی سناتے ہیں۔ سزا کے خلاف اگر آپ ہائی کورٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اُس کے لیے ہائی کورٹ کا ڈبل بینچ بننا ضروری ہے تب ہی آپ کی بات پر کان دھرے جائیں گے جبکہ ایسا عام طور پر قتل کے مقدمے میں ہی ہوتا ہے۔

ڈرگ ایکٹ میں ایک شق یہ بھی ہے کہ میڈیکل اسٹور پر 24 گھنٹے ائیر کنڈیشن (اے سی) چلنے چاہیئے، جبکہ دوکانوں میں گرد و غبار قطعی طور پر بھی برداشت نہیں کیا جائے، لیکن کوئی ایک قانون بنانے والوں سے پوچھے کہ کیا پنجاب میں 24 گھنٹے بجلی میسر ہے؟ اگر بجلی میسر ہے اور حکومت سبسڈی دینے کے لئے تیار ہے تو ٹھنڈک میں بیٹھنا بھلا کس کو بُرا لگتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھلا اِس قدر مہنگائی میں بجلی کے بھاری بل کیسے جمع کروائے جائیں؟ اب آتے ہیں گرد و غبار والے نقطے پر، جس جگہ ہر گلی، ہر محلے، مٹی اور کچرے سے بھرا پڑا ہو بھلا وہاں دوکان کی مکمل صفائی کس طرح رکھی جاسکتی ہے؟ ہاں اگر حکومت گلی محلوں کی صفائی کروادے اور عوام کو صاف ماحول فراہم کرے تو یقیناً میڈیکل اسٹور پر بھی اچھا ماحول دستیاب ہوگا۔

اب اتنے سخت ترین قوانین کی صورت میں بھلا کس کے لئے کاروبار کرنا ممکن ہوسکے گا؟ کاش ہمارا نظام مغرب کی طرف اِس قدر مضبوط ہوتا جہاں ہمیں ڈرک انسپیکٹر پر خود سے زیادہ بھروسہ ہو کہ نہیں اگر سزا دی جائے گی تو بالکل ٹھیک دی جائے گی، کوئی رشوت کا لین دین نہیں ہوگا، لیکن بدقسمتی سے ہم جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز کا پورا نظام بد عنوان ہے، یہ ایک ایسا سسٹم ہے جہاں 10 روپے رشوت نہ ملنے پر سرکارکے اہلکار غصے سے بے قابو ہوجاتے ہیں۔

عام خیال نہیں بلکہ جمہوریت کا حقیقی مفہوم ہی یہ ہے کہ جمہور یعنی عوام کی حکومت ہوتی ہے۔ اِسی لئے جمہوریت میں حکمرانوں کی جانب سے ایسے فیصلوں اور قوانین کی اُمید رکھی جاتی ہے، جن سے عوام کو فائدہ اور سکون میسر آسکے، لیکن موجود ڈرگ ایکٹ کی وجہ سے ہوا یہ ہے کہ پاکستان کی ہربل انڈسٹری عملاً بند ہوچکی ہے۔ جس کا سہرا پنجاب حکومت کے سر پر ہے۔ دوا ساز کمپنیوں نے عدالت سے اسٹے آرڈر لے رکھا ہے، لیکن اِس کے باوجود چھاپہ مار ٹیمیں سرگرم ہیں اور دوا ساز کمپنیوں کا معاشی اور سماجی استحصال جاری ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی دوا ساز کمپنیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں مزید کچھ وقت دیا جائے تاکہ وہ معیار کو اور بھی بہتر کرسکیں لیکن حکومت اپنے پس پردہ مفادات پر ہرگز سمجھوتہ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔

یہ صورتحال اب صرف ایک صوبائی حکومت تک محدود نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ کی طرح ہمارا دشمن بھارت بھی اِس پورے معاملے سے فائدہ اُٹھانے کے لئے پوری طرح تیار ہے۔ پاکستان کی دوا ساز کمپنیوں کے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوچکا ہے اور جن جن ممالک میں پاکستان کی ادویات فروخت کی جارہی ہوتی ہیں وہاں پنجاب حکومت کے اشتہارات پہنچائے جارہے ہیں اور پاکستانی کمپنیوں سے خریدار کہہ رہے ہیں کہ آپ کا وزیراعلیٰ تو آپ کو موت کا سوداگر کہہ رہا ہے تو ہم کیونکرآپ کی دوائیاں خریدیں؟

حکیم اجمل جن کا قیام پاکستان میں کردار کوئی فراموش نہیں کرسکتا اُن کے دواخانے پر تالے پڑے ہیں۔ مرحبا، قرشی اور دیگر پاکستانی ادارے جنہوں نے ایلوپیتھک کے مقابلے میں تحقیق کرکے پاکستان میں اور بین الاقوامی اداروں میں اپنا نام کمایا ہے، جنہوں نے ہیپا ٹائٹس تک کا علاج دریافت کیا ہے انہیں بھی موت کے سوداگر کہہ کر مخاطب کیا جارہا ہے۔ یعنی اچھے اور بُرے میں تمیز ہی اب ختم ہوچکی ہے۔ خدانخواستہ آج پاکستان پر اگر ایسے بُرے حالات آجاتے ہیں جن میں بیرونِ ممالک سے ادویات نہ مل سکیں تو پاکستان کیا کرے گا؟ اِس کا جواب آپ کی حکومت کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی وہ اِس پر سوچنا چاہتی ہے۔ اب ذرا دیگر ممالک کو جانیے جنہوں نے اپنے روایتی طریقہِ علاج کی سرپرستی کرتے ہوئے پیش رفت کی۔ بھارت سے محبت کے گن گائے جاتے ہیں تو پہلی مثال بھارت کی ہی لے لیجیئے۔ بھارت میں باقاعدہ وزارت موجود ہے جو اپنے روایتی طریقہِ علاج کی تشہیر پر کام کررہی ہے اور دنیا بھر میں اپنی کمپنیوں کی برینڈنگ کا فریضہ سرانجام دے ر ہی ہے۔

’’انڈین ٹریٹمنٹ ‘‘ کے نام پر روایتی طریقہِ علاج کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اِس وقت جب ہماری کمپنیوں کو تالے لگائے جارہے ہیں بھارت سے دھڑا دھڑ ادویات منگوا کر پاکستان کے گن گائے جارہے ہیں۔ بھارت کی 12 دوا ساز کمپنیاں ڈابر، ہمالیہ وغیرہ پاکستان میں ادویات سپلائی کررہی ہیں۔ چین ہمارا دوست اور ہمسائے ملک کی لوکل انڈسٹری ہربل پر انحصار کرتی ہے، جاپان جیسا ترقی یافتہ ملک اپنے روایتی طریقۂ علاج ’’کومپو‘‘ کو اپنائے ہوئے ہے، لیکن ہم ہیں کہ بے بسی کے بت بنے بیٹھے ہیں اور منتظر ہیں اگلے کسی کاری وار کے۔ سُننے میں تو یہ بھی آرہا ہے کہ بھارت اور ترکی سے ادویات منگوانے کے حوالے سے بھی کوئی تیاری کی جارہی ہے، جس کا مقصد صرف بھاری کمیشن ہیں، اور ڈرگ ایکٹ شاید اسی کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

اِس پورے کھیل میں ایک اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ طبِ نبوی اور ہومیوپیتھک کو سستا علاج قرار دے کر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ فائدہ مند نہیں ہے، اِس لیے اِس پر پر بھی مکمل پابندی عائد کردی جائے۔ سیانے کہتے رہے کہ کسی تاجر کے ہاتھ حکومت نہ دی جائے مگر قوم نے کان نہ دھرا، نتیجتاً موت کے سوداگروں کا یہی انجام ہونا چاہیئے تھا۔ اس لئے رعایا کو چاہیئے کہ وہ شہنشاہوں کے گُن گائیں اور پاکستان کی انڈسٹری کی تباہی کاجشن منائیں۔

لیکن یاد رہے کہ اِس پوری تحریر کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ڈرگ ایکٹ 2017 میں کوئی اچھے پہلو نہیں، بلکہ یقیناً اِس میں ایسے بہت سے اچھے پہلو ہیں جن سے دو نمبر افراد مشکلات میں پھنس جائیں گے، لیکن اتنی تلخ باتیں لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ چند دو نمبر لوگوں کو مشکل میں پھنسانے کے لیے پوری انڈسٹری کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
فرید رزاق

فرید رزاقی

ایم ایس سی جامعہ پنجاب سے کر چکے ہیں۔ ماہنامہ پیغام ڈائجسٹ لاہور کے چیف ایڈیٹر اورآفاق انسائیکلو پیڈیاکی مجلس ادارت سے بھی منسلک ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے ممبرشپ کوآرڈینیٹر۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @FaridRazaqi پر رابطہ کرسکتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔