- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
مسلم ممالک پر پابندی؛ امریکا کی 17 جامعات بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مخالف
واشنگٹن: امریکا میں چوٹی کی جامعات نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمان ممالک پر پابندی کے حکم نامے پر انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے جس میں قانونی طور پر اسے چیلنج کیا گیا ہے۔
امریکا کی لگ بھگ 17 جامعات نے ٹرمپ کے اس خصوصی حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے جس میں صومالیہ، شام، ایران، عراق، سوڈان، لیبیا اور یمن کے تمام باشندوں پر 3 ماہ کے لیے ویزہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں جسے اب عدالت کی جانب سے وقتی طور پر منسوخ کردیا گیا ہے۔
ان جامعات نے ’’ایمیکس کیورائی‘‘ ( عدلیہ کے دوست) کے نام سے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں قانونی لحاظ سے ٹرمپ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کا مؤقف ہے کہ ان پابندیوں سے ان کے مشن کو شدید دھچکا پہنچے گا، اس سے نہ صرف علمی اور تحقیقی کام متاثر ہوں گے بلکہ جامعات شدید معاشی مشکلات سے بھی دوچار ہوسکتی ہیں۔
جامعات نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بین الاقوامی اساتذہ، طالب علم اور محققین کی خدمات سے انہیں بے پناہ فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ اس معاہدے پر براؤن، کارنیگی میلون، شکاگو، کولمبیا، کورنیل، ڈیوک، ہارورڈ اور جان ہاپکنز یونیورسٹیوں کے علاوہ ایم آئی ٹی، ڈارٹماؤتھ کالج کے ساتھ ساتھ نارتھ ویسٹرن، اسٹینفرڈ، وینڈربلڈ اور ییل یونیورسٹی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی بار بار یقین دہانی کے باوجود بھی اسے ’’مسلم بین‘‘ یا مسلمانوں پر پابندی کا نام دیا گیا۔ اب جامعات کے اس اقدام میں نیویارک کے اٹارنی جنرل اور دیگر ریاستوں کے ہم منصب افراد شامل ہوگئے ہیں جو مستقل طور پر ٹرمپ کے ایسے اقدامات کے خلاف درخواستیں دیتے رہیں گے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔