مسلم ممالک پر پابندی؛ امریکا کی 17 جامعات بھی ٹرمپ کے فیصلے کی مخالف

ویب ڈیسک  جمعـء 17 فروری 2017
جامعات نے ٹرمپ کے مسلم ممالک پر پابندی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ فوٹو؛ اے پی

جامعات نے ٹرمپ کے مسلم ممالک پر پابندی کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے۔ فوٹو؛ اے پی

واشنگٹن: امریکا میں چوٹی کی جامعات نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلمان ممالک پر پابندی کے حکم نامے پر انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف ایک درخواست دائر کی ہے جس میں قانونی طور پر اسے چیلنج کیا گیا ہے۔

امریکا کی لگ بھگ 17 جامعات نے ٹرمپ کے اس خصوصی حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کیا ہے جس میں صومالیہ، شام، ایران، عراق، سوڈان، لیبیا  اور یمن کے تمام باشندوں پر 3 ماہ کے لیے ویزہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں جسے اب عدالت کی جانب سے وقتی طور پر منسوخ کردیا گیا ہے۔

ان جامعات نے ’’ایمیکس کیورائی‘‘ ( عدلیہ کے دوست) کے نام سے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں قانونی لحاظ سے ٹرمپ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کا مؤقف ہے کہ ان پابندیوں سے ان کے مشن کو شدید دھچکا پہنچے گا، اس سے نہ صرف علمی اور تحقیقی کام متاثر ہوں گے بلکہ جامعات شدید معاشی مشکلات سے بھی دوچار ہوسکتی ہیں۔

جامعات نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ بین الاقوامی اساتذہ، طالب علم اور محققین کی خدمات سے انہیں بے پناہ فوائد حاصل ہورہے ہیں۔ اس معاہدے پر براؤن، کارنیگی میلون، شکاگو، کولمبیا، کورنیل، ڈیوک، ہارورڈ اور جان ہاپکنز یونیورسٹیوں کے علاوہ ایم آئی ٹی، ڈارٹماؤتھ کالج کے ساتھ ساتھ نارتھ ویسٹرن، اسٹینفرڈ، وینڈربلڈ اور ییل یونیورسٹی شامل ہیں۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی بار بار یقین دہانی کے باوجود بھی اسے ’’مسلم بین‘‘ یا مسلمانوں پر پابندی کا نام دیا گیا۔ اب جامعات کے اس اقدام میں نیویارک کے اٹارنی جنرل اور دیگر ریاستوں کے ہم منصب افراد شامل ہوگئے ہیں جو مستقل طور پر ٹرمپ کے ایسے اقدامات کے خلاف درخواستیں دیتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔