اک نئی کتاب، کہانی انقلابیوں کی

انیس باقر  جمعـء 17 فروری 2017
anisbaqar@hotmail.com

[email protected]

چند روز ہوئے کہ ان انقلابیوں کی کہانی پڑھنے کا موقع ملا جو آج ہم میں موجود نہیں، کتاب کا نام ’’رفیقان صدق و صفا‘‘ ہے، اس کے مصنف مرحوم اعز عزیزی ہیں۔ یہ وہ نام ہے جس سے عام لوگ واقف نہیں، مگر تحریر میں حسن ہے کہ جیسے آپ ویڈیو دیکھ رہے ہیں اور یہ ماضی کی آوازوں سے پُر ہے۔ یہ آوازیں مجاہدین صدق و صفا کی ہیں جو اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے زندہ ہیں۔

ان میں پہلی کہانی شہید حسن ناصر کی ہے، جس کے لب شہد سے زیادہ شیریں اور عمل فرشتہ صفت انسان کا۔ اس کہانی کا آغاز 1954ء سے ہوتا ہے، جب پنڈی سازش کیس اپنے انجام کو پہنچا، جس میں سجاد ظہیر، میجر اسحاق، فیض احمد فیض، جنرل اکبر خان اور سیکڑوں رہا ہوتے ہیں۔ اور ان ہی میں حسن ناصر بھی تھے۔ کتاب 3 حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا باب حسن ناصر پر ہے، دوسرا ناصر کے جانثاروں کا اور آخری حصہ کتاب کے مصنف پر، سید مظہر جمیل نے البیلے اعز کے نام سے تحریر کیا ہے۔

کتاب پر تبصرہ پروفیسر سحر انصاری اور ڈاکٹر سید جعفر احمد کی کاوشیں ہیں۔ یہ کتاب یوں تو بائیں بازو کے جاں نثاروں پر مشتمل ہے، مگر اس کو پڑھنے سے پاکستان کے سیاسی حالات اور خصوصاً ملک کے معاملات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ کتاب تمام سیاسی کارکنوں اور ان کے رہنماؤں کے لیے ایک گائیڈ کی طرح ہے اور ہر شخص اس کتاب سے اپنی مرضی سے اپنی راہ متعین کرسکتا ہے، کیونکہ کتاب میں موجود مواد انسانی روح میں جذب ہوکر اس کو متحرک کردیتا۔

حسن ناصر ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے، وہ جس سے ملتے وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا اور بہت سی صفات اس میں منتقل کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور وہ ان کے دوست بن جاتے۔ اس کتاب میں یہ بھی تحریر ہے کہ سیاسی پارٹی چلانے کے لیے 5 اہم اصول ہیں یا یہ سمجھیں کہ 5 محاذ ہیں۔ طلبا محاذ اول، مزدور محاذ دوم، ادبی محاذ سوم، چہارم محاذ ہاری اور ان سب کو یکجا کرکے سیاسی ایندھن سے منسلک کرنا۔ پابندی وقت ایمانداری، جفاکشی اور خلوص کے بغیر سیاسی پارٹی نہیں چل سکتی، ان کے چند جفاکش ساتھیوں کے اسما گرامی ملاحظہ ہوں جو طلبا محاذ پر کام کرتے تھے اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) سے وابستہ تھے، ان میں ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر پوہومل، ڈاکٹر سرور اور ڈاکٹر شیر افضل ملک۔ حسن ناصر کی ایک بہت اہم خوبی یہ تھی کہ وہ خبروں کو پڑھ کر یہ سمجھ لیتے تھے کہ اب کیا ہونے والا ہے، یہ خصوصیت ان کے بنائے ہوئے کارکن ڈاکٹر شیر افضل میں بھی موجود تھی۔

چونکہ میں 1968ء میں این ایس ایف کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اور شروع میں ڈاکٹر شیر افضل سے کبھی کبھی راہ و رسم کے طور پر کام کرتا رہا، لہٰذا خبروں پر تجزیہ کی دسترس تھی اور آج بھی حالات کا جائزہ لے سکتا ہوں۔ لیکن میری ملاقات حسن ناصر سے کبھی نہ ہوئی، کیونکہ ان دنوں میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، میری ملاقات حسن ناصر کے شاگردوں سے 1963ء میں ہوئی، جنھوں نے حسن ناصر کے ساتھ حکومت وقت کے ناروا سلوک کی داستان سنائی۔

اتنے عرصے کے بعد یعنی 13 نومبر 1960ء کے بعد حسن ناصر کی شہادت کو اعز عزیزی نے جس طرح اپنی سیاہ رنگت والی روشنائی سے دوبارہ روشناس کرایا ہے، اس سے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ اسے غریبوں کے کروڑ پتی خوب رو سرخ و سفید تعلیم یافتہ، عوامی راج کے قیام کی جدوجہد میں معروف دوست بقول فخر الدین جی ابراہیم کے، انھیں ایوبی آمریت کے دور میں اذیت کے بعد تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، جب زہرہ آپا چارٹرڈ طیارے سے دکن حیدرآباد کا سفر طے کرکے لاہور پہنچیں تو ان کے لخت جگر کی لاش بھی نہ ملی، زہرہ علمدار بیگم بیٹے کی لاش لیے بغیر حیدرآباد دکن چلی گئیں۔

یہ تمام واقعات یوں رقم کیے گئے ہیں کہ ہر صاحب دل ایسے زیرک اور انسان دوست رہنما کا ماتم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر ہم حسن ناصر کا موازنہ چی گویرا سے کریں تو معلوم ہوگا کہ چی گویرا نے تو کاسترو کو مسند نشین کیوبا بنادیا مگر خود جنگلات کی گھنی شاخوں میں تہہ تیغ ہوگئے۔ چی گویرا کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے حسن ناصر نے کہا تھا کہ چی گویرا کی ڈائری رکھنے کی عادت اور اپنا پرنسپل سیکریٹری کو ساتھ لے کے چلنے کی عادت اس کے راز فاش کردے گی اور حقیقت میں چی گویرا کی ہلاکت کے اسباب یہی تھے۔ اس کتاب میں حسن ناصر کے اقوال بھی درج ہیں، جن میں سے دو اہم اقوال تحریر کیے دیتا ہوں۔

پہلا قول یہ ہے کہ کسی خفیہ تنظیم کے کارکنوں کو شراب نوشی یا کسی دوسرے نشے سے دور رہنا چاہیے۔ جب کہ دوسرا اہم انقلابی نوعیت کی تنظیم سازی کے لیے کثیر تعداد میں لوگوں کی شمولیت کے لیے انتظار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یکساں نظریات اور عمل کے لیے چھوٹی تعداد میں لوگوں کے اجتماع میں بھی فکر و عمل کی ہم آہنگی کی بنیاد پر تنظیم قائم کرلینی چاہیے، رفتہ رفتہ لوگ شامل ہوتے جائیں گے اور قافلہ بنتا چلا جائے گا۔ اس کتاب کی اہم اور خاص بات یہ ہے کہ حسن ناصر کی شخصیت کی یہ عکاس ہے۔

حسن ناصر تو 1948ء میں حیدر آباد دکن سے کراچی آگئے تھے اور وہ کراچی کی مزدور بستیوں اور تعلیمی اداروں کے مقبول ترین آدمی تھے، ان کی ایک آواز پر بڑا بورڈ سائٹ ایریا پر کئی ہزار مزدور جمع ہوجاتے تھے اور یہی حال تعلیمی اداروں کا بھی تھا۔ لانڈھی، کورنگی کی بیڑی بنانے والی فیکٹریوں کے مزدور بھی ان کی آواز پر لبیک کہا کرتے تھے۔ پنڈی سازش کیس کے خاتمے کے بعد سید سجاد ظہیر جو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے وہ تو پاکستان سے چلے گئے اور جب تک زندہ رہے پاکستان میں جو بھی سیاسی حالات رونما ہوئے اس سے دور ہی رہے، جب کہ وہ پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری تھے۔

حسن ناصر سندھ کے سیکریٹری تھے، مگر جب یہ ملک بدر ہوگئے تو بھارت کے کئی شہروں جہاں کمیونسٹ گورنمنٹ تھی وہاں اور تلنگانہ کا چکر لگا کر واپس سندھ میں داخل ہوگئے اور یہاں پر بھی مختلف تحریکوں کو منظم کرتے رہے، یہاں تک کہ کراچی میں 1955ء میں کسانوں کے عظیم الشان کلہاڑی بردار جلوس جس کی قیادت خان عبدالغفار خان، حیدربخش جتوئی اور جی ایم سید کر رہے تھے، اس کی تنظیم اور خیال آفرینی میں بھی حسن ناصر کا ہاتھ تھا۔ اسی طرح نیشنل عوامی پارٹی کی تشکیل میں حسن ناصر نمایاں شخصیت مانے جاتے تھے۔

حسن ناصر کی ایک خاص بات تھی کہ خاکروبوں سے لے کر محلات میں رہنے والوں سے ان کے بہترین تعلقات تھے۔ یہ شخص بیک وقت پرستان کا شہزادہ اور خاکروبوں کا سالار تھا، جس کی وجہ سے حکومت وقت اس سے خوفزدہ تھی۔ جنرل ایوب خان جو شروع سے ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کی سازش میں مصروف تھے، حسن ناصر سے بہت خائف تھے، پنڈی سازش کیس اور ایوب خان کی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘ کا اگر بغور مطالعہ کریں تو پنڈی سازش کیس کے تانے بانے صاف طور پر مصنوعی نظر آئیں گے، جس سے مارشل لا کی بو آپ کو محسوس ہوگی۔ حسن ناصر کی کمیونسٹ پارٹی سے ایوب خان بہت متاثر تھے، کیونکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد انھوں نے کراچی کے22 خاندانوں پر کاری ضرب لگائی اور پورے اقتصادی نظام کو وقتی طور پر مفلوج کرکے غریبوں کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی، حسن ناصر ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھے، اس لیے ایسے بہادر آدمی کا زندہ رہنا ان کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔

حسن ناصر کی گرفتاری جو ایک معمہ تھی وہ بھی واقعہ کافی تفصیل سے اس میں درج ہے۔ اس کتاب میں 50ء کی دہائی کے اکثر جانبازوں کی کہانی ہے۔ مگر ان تمام جاں نثاروں میں حسن ناصر سب پر سبقت لے گئے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد اعز عزیزی، مظہر جمیل اور احمر عزیزی کی کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ’’رفیقانِ صدق و صفا‘‘ کوئی خاکہ نگاری نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ حصہ ہے جو اب تک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، وہ منور ہوا ہے۔

اس کتاب میں 33 رفیقان صدق و صفا کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے کہ شاید پاکستان کے عوام کی قسمت بدلنے والا کوئی اور پیدا ہو جو حسن ناصر کے قافلے کو آگے بڑھائے۔ حسن ناصر کو شہید کیا گیا مگر وہ آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔ کتاب لاہور سے چھپی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔