جرگہ اور پنچایتی نظام؟ 

 جمعـء 17 فروری 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں قانون اور انصاف کا نظام جن بھول بھلیوں میں اور جن طبقاتی پیچدگیوں میں گھرا ہوا ہے اور غریب طبقات کو انصاف کے لیے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے پیش نظر اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ عدالتی نظام کا ایک ایسا آسان اور کم خرچ متبادل تلاش کیا جائے جو نچلی سطح پر تنازعات حل کرنے میں معاون ثابت ہو۔

دنیا میں اس حوالے سے بلدیاتی نظام موجود ہے جو علاقائی مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کے گھریلو مالی قسم کے مسائل اور تنازعات حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن پاکستان میں اس نظام سے مثبت کام لینے کے بجائے اسے ذاتی اور سیاسی حوالوں سے اس قدر متنازعہ بنا دیا گیا ہے کہ یہ نظام علاقائی مسائل حل کرنے سے بھی معذور ہو کر رہ گیا ہے۔ بھارت سمیت کئی پسماندہ ملکوں میں پنچایتی نظام رائج ہے جو عوام کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کو کامیابی سے نمٹا رہا ہے۔

سابق بلدیاتی نظام میں بھی ثالثی کے ذریعے عوامی تنازعات حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن غیر منظم اور عدم منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ سلسلہ نہ چل سکا۔ہماری قومی اسمبلی نے اس حوالے سے ایک بل پاس کیا ہے جس کے مطابق ملک میں جرگہ اور پنچایتی نظام رائج کیا جائے گا۔

اس حوالے سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قدر اہم مسئلے پر قانون سازی کرنے میں پونے چار سو کے ایوان میں صرف تئیس ارکان حاضر تھے یوں ہم اس بل کو تئیس ارکان کا بل کہہ سکتے ہیں کیا اس قدر اہم بل پر اراکین کی اس قدر کم شرکت افسوسناک نہیں؟ اس بل کی رو سے تئیس اقسام کے جھگڑوں میں ثالثی کی جائے گی۔ اس بل کے تحت جو جرگے اور پنچایتیں تشکیل دی جائیں گی ان میں ہائی کورٹس کی منظوری سے وکلا، سابق بیوروکریٹس، علما، ریٹائرڈ ججوں، سماجی کارکنوں وغیرہ کو نامزد کیا جائے گا۔

اس نظام کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے ایسے تنازعات جنھیں نچلی سطح پر حل کیا جا سکتا ہے دیر میں حل ہوتے ہیں اور اعلیٰ سطح عدالتوں میں جاتے ہیں جب کہ تنازعات کی بھرمار اور عدالتی سہولتوں کی کمی کی وجہ سے یہ تنازعات لاکھوں کی تعداد میں عدالتوں میں ڈمپ ہو جاتے ہیں اور فریقین برسوں تک انصاف کے حصول میں خوار ہوتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا عدالتی نظام اس قدر مہنگا ہو گیا ہے کہ غریب عوام اس سے استفادہ کرنے سے معذور ہیں۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جرگوں اور پنچایتوں میں انصاف فراہم کرنے والے کون ہوں گے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ہماری ایلیٹ کسی شعبے میں بھی نچلی سطح کے لوگوں کو آگے آنے نہیں دیتی اور ہر جگہ اپنی بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سابقہ بلدیاتی نظام میں اشرافیہ اہم عہدے اپنے ہاتھوں میں رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتظامی اور مالی اختیارات عوام کی بہتری میں استعمال ہونے کے بجائے ایلیٹ کی گرفت مضبوط کرنے میں استعمال ہوتے رہے۔

جرگہ سسٹم تو ویسے ہی ہمیشہ قابل اعتراض رہا ہے کیونکہ اس نظام کو چلانے کے لیے جس اہلیت اور غیرجانبداری کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارا مروجہ جرگہ سسٹم فراہم نہیں کر سکا۔ جرگوں کے فیصلوں سے ہمیشہ اہل علم، اہل خرد اور قانون اور انصاف کی بالادستی کے خواہشمندوں کو اعتراض رہا ہے، غالباً اسی پس منظر میں سپریم کورٹ نے جرگوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

جرگوں کا نظریہ قبائلی نظام کی ایجاد ہے اور بدقسمتی سے آج کی جدید اور صنعتی معیشت اور معاشرت میں جرگوں کی اہمیت اس لیے نہیں رہی کہ اس نظام میں جن لوگوں کے ہاتھوں میں اختیارات آ جاتے ہیں وہ لوگ جدید معاشرتی ضرورتوں سے نابلد رہتے ہیں اور اپنے فیصلوں میں قبائلی روایات کو اولیت دیتے ہیں جو جدید معاشرتی ضرورتوں سے متصادم رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں کیا یہ ممکن ہے کہ جرگے بغیر بنیادی تبدیلیوں کے انصاف کے تقاضے پورے کر سکیں گے؟ یہ نشاندہی اس لیے ضروری ہے کہ اس حوالے سے جو بل پاس ہوا ہے اس میں جرگوں کی ساخت میں کسی بامعنی تبدیلی کا ذکر نہیں۔

پنچایتی نظام ماضی میں بھی کامیابی سے چلتا رہا اور اگر اسے درست خطوط پر چلایا گیا تو آج بھی اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی نظام کو چلانے میں نچلی سطح کے قابل ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کا کتنا دخل ہو گا؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ 69 سال  سے ہمارے ملک میں جو جمہوری نظام رائج ہے وہ ایک مخصوص طبقے کی ملکیت بنا ہوا ہے اور یہ اشرافیائی طبقہ ہر قیمت پر ہر شعبے پر اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔

پنچایتی نظام کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ ایک تو مقدمات کی بھرمار کی وجہ عدلیہ پر ضرورت سے زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے دوسرے ہمارے عدالتی نظام کو اس قدر مہنگا اور سست رفتار کر دیا گیا ہے کہ اس سے غریب طبقات فائدہ اٹھانے سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ پنچایتی نظام کو ایلیٹ کی جاگیر بننے سے بچایا جائے اور نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے اہل لوگوں کو پنچایتی نظام میں آگے لایا جائے۔

نظام جمہوری ہو یا پنچایتی اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس نظام میں بالادست کون سے طبقات ہیں اگر کسی پنچایتی نظام میں ہماری روایتی جمہوریت کی طرح اشرافیہ ہی کی بالادستی ہو گی تو پنچایتی نظام بھی ایلیٹ کی جاگیر بن جائے گا اور جہاں ایلیٹ یا اس کے کارندوں کی بالادستی ہو گی، وہاں قانون اور انصاف حاکم نہیں محکوم بن کر رہے گا۔

یہ بڑی روایتی بات ہے کہ ہم کسی بھی نظام کو چلانے کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں وہ بدقسمتی سے نظام کی ناکامی کا سبب بن جاتے ہیں۔ وکلا، ججز، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، علما، سماجی کارکن وغیرہ کا تعلق عموماً مڈل کلاس ہی سے ہوتا ہے لیکن پنچایتی نظام کی ہیئت ترکیبی میں تبدیلی لا کر کیا اس نظام میں ٹریڈ یونین رہنماؤں، کسانوں کے اہل رہنماؤں، صحافیوں اور ادیبوں کے اہل رہنماؤں کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔