جماعتِ اسلامی اور مولانا محمد اسحاق بھٹی

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 17 فروری 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

’’شخصیت پر لکھنے والا آپ سے بہتر اِس وقت کوئی نہیں ہے۔آپ لکھتے نہیں،کارِ مسیحائی فرماتے ہیں۔ جسے مُردوں کو چلتے پھرتے دیکھنا ہو، وہ آپ کے مضامین پڑھ لے۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ نے کیسی کیسی منتخبِ روزگار شخصیات کو دیکھا۔ وہ لوگ بھی کچھ کم خوش نصیب نہیں جو آپ کے توسط سے یعنی آپ کے مضامین پڑھ کے ان شخصیات کو قریب سے دیکھتے ہیں۔میں بھی ایسے خوش نصیبوں میں شامل ہُوں۔‘‘

یہ توصیفی الفاظ اُردو ادب کے ممتاز ترین نقاد، محقق، شاعر اور مصنف جناب مشفق خواجہ کے ہیں۔ خواجہ صاحب نے یہ تعریفی الفاظ معروف اور محترم مصنف، محقق، خاکہ نگار اور مشہور اہلِ حدیث عالم دین جناب محمد اسحاق بھٹی کے لیے لکھے۔ بھٹی صاحب کی منفرد اور بے پناہ خاکہ نگاری کو ہدیہ تحسین پیش کرنے کے لیے اِسے مشفق خواجہ صاحب (جو صحافتی حلقوں میں ’’خامہ بگوش‘‘ کے نام سے بھی پہچانے جاتے تھے) کی طرف سے غیر معمولی خراج کہا جانا چاہیے کہ خواجہ صاحب کی نظروں میں کم ہی کسی کی تحریر جچتی تھی۔ہمارے ادبی اور صحافتی حلقوں میں اسحاق بھٹی صاحب نے ایک منفرد اور نویکلے خاکہ نگار کے طور پر شہرت حاصل کی۔

برِصغیر پاک و ہند کی ایک سو سے زائد اہم ترین مذہبی، سیاسی، صحافتی اور ادبی شخصیات پر لکھے گئے اُن کے سوانحی خاکے نصف درجن سے زائد جلدوں پر مشتمل ہیں۔ یہ سب اُن کے عمیق مشاہدات کے کمالات ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں واقعی معنوں میں ایک شاندار یادداشت کا حامل دماغ بخشا تھا۔ بھٹی صاحب عامل صحافی بھی تھے کہ برسہا برس اپنے زمانے کے معروف ہفت روزہ اخبار ’’الاعتصام‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ یہ اخبار اور بھٹی صاحب جماعتِ اسلامی اور بانیِ جماعتِ اسلامی، سید ابو الاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ، کے ناقد رہے۔

’’الا عتصام‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں جماعت مخالف اُن کے قلم نے خوب جولانیاں دکھائیں۔ مجھے مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی مجالس میں بیٹھنے اور اُن کی پُرلطف گفتگو سننے کے کئی مواقعے ملے۔ دوران ِ گفتگو اور جماعت کے بارے میں مضمون لکھتے وقت وہ جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودی صاحب (مرحوم و مغفور) پر لطیف پیرائے میں فقرہ بازی سے کبھی نہیں چُوکتے تھے۔ راقم لاہور میں ایک ماہنامہ جریدے کا نائب مدیر تھا۔

ایک دفعہ اُنہوں نے ہمارے ہاں جماعتِ اسلامی کے قیام اور جناب مودودی کی شخصیت پر ایک مفصل مضمون لکھا جو اُن کے مشاہدات اور تجربات کا شاندار مرقع تھا۔ یہ آرٹیکل جماعت کے حلقوں کو پسند نہ آیا، اس لیے سخت تنقید کی زد میں بھی آیا ۔ ہم نے اِس کا جواب بھی شایع کیا جسے جماعتِ اسلامی ہی کے کسی محترم نے لکھا تھا۔

جواب پڑھ کر بھٹی صاحب بے مزہ نہ ہوئے اور بس ایک قہقہہ لگا کر خاموش ہو گئے۔ شائد ’’الاعتصام‘‘ کی یہ پالیسی تھی کہ جماعتِ اسلامی اور بانیِ جماعت اسلامی پر تنقید ہر صورت کرنی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ’’الاعتصام‘‘ نے ممتازاہلحدیث عالمِ دین، حضرت مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی علیہ رحمہ، کی شخصیت اور دینی خدمات پر 1230صفحات پر مشتمل ایک ضخیم خصوصی نمبر شایع کیا ہے۔

اب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کی ایک نئی کتاب اشاعت پذیر ہُوئی ہے۔ یہ بائیس خاکوں اور 315صفحات پر مشتمل ہے۔ اِسے ’’محفلِ دانشمنداں‘‘ کے زیرِ عنوان شایع کیاگیا ہے۔یہ خوبصورت کتاب بھٹی صاحب کے برادرِ خورد، جناب سعیداحمد بھٹی، نے اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے از راہِ محبت بھیجی ہے۔ بیش بہا ارمغان سمجھ کر اس کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔

تین جگہ پر اسحاق بھٹی صاحب نے جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودی صاحب کا ذکر کیاہے (صفحہ نمبر 66،156اور 159پر) بھٹی صاحب لکھتے ہیں:’’ایک مرتبہ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے سربراہ، ایم ایم شریف، نے ادارے میں بعض حاضر الوقت مسائل کے سلسلے میں مذاکرات کا اہتمام کیا۔ مولانا حنیف ندوی اُن دنوں بیمارتھے۔ جلسے کی آخری مجلس کے انعقاد سے ایک دن پہلے مولانا مودودی نے بعض مسائل کے بارے میں چند نکات پیدا کیے اور فرمایا ِ، کل کے آخری اجلاس میں ان نکات پر بحث ہونی چاہیے۔

ندوی صاحب بات ختم کر چکے تو مودودی صاحب نے فرمایا:’’ مولانا حنیف ندوی نے میری کمزوری سے فائدہ اٹھایا ہے اور مجھے فلسفیانہ اصطلاحوں میں الجھا دیا ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر66) آگے چل کر ، صفحہ 156 پر، اسحاق بھٹی صاحب نے لکھا ہے کہ پروفیسر محمد سرور جامعی کوکئی دیگر اہلِ علم کی طرح مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی کے بعض افکارومسائل سے اتفاق نہیں تھا۔مسئلہ ملکیتِ زمین کے سلسلے میں اُن کی رائے مولانا مودودی سے بہت مختلف تھی لیکن اُن کے اسلوبِ تحریر میں طعن و تشنیع نہیں تھا۔

’’محفلِ دانشمنداں‘‘میں ایک ایسا واقعہ بھی لکھا گیا ہے جو انکشاف کرتاہے کہ جنرل صدر ایوب خان، مولانا مودودی کی مخالفت میں اسقدر آگے بڑھ گئے تھے کہ وہ ہر سطح پر مولانا صاحب کو نیچا دکھاناچاہتے تھے۔ صدر ایوب کے دَورِ اقتدار میں پروفیسر سرور جامعی صاحب ایک سرکاری محکمے، ادارئہ تحقیقاتِ اسلامی، سے منسلک تھے۔ حکومت کو معلوم تھا کہ جامعی صاحب، مولانامودودی صاحب سے مختلف نکتہ نظر رکھتے ہیں؛ چنانچہ ایوبی حکومت نے جامعی صاحب سے مولانا مودودی کے خلاف مضامین لکھوانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں اسحاق بھٹی صاحب نے (صفحہ 159پر) ایک حیرت انگیز واقعہ رقم کیا ہے:’’ایک دن صدر ایوب کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس ( این اے رضوی) سرور جامعی صاحب کے شادمان مکان پر پہنچے اور اُن سے کہنے لگے:’آپ کو معلوم ہے کہ صدرایوب اور فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی مقابلہ ہو رہا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ مولانا مودودی کے خلاف مضامین لکھئے‘۔

رضوی کی بات سُن کر جامعی صاحب طیش میں آ گئے اور بولے: ’آپ سے یہ کس نے کہا ہے کہ مَیں مولانا مودودی کی ذات کے خلاف ہُوں اور مَیں نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ جو کچھ وہ کہیں یا کریں، مَیں اس کی مخالفت کروں گا؟ آپ کو یہ کہنے کی جرات کیسے ہُوئی کہ مَیں مولانا مودودی کے خلاف لکھوں!‘ اتنا کہہ کر اُسی وقت جامعی صاحب نے اس شاندار ملازمت سے استعفیٰ دے دیااور پھر کبھی اس سرکاری دفتر نہ گئے۔ اچھی خاصی ملازمت چھوڑ دی لیکن سرکار دربار کی خواہش پر مولانا مودودی کے خلاف نہ لکھا۔‘‘یہ دلچسپ کتاب 03014768918پر فون کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔ قیمت 320 روپے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔