سیاسی دشمنی سے گریز کی ضرورت

محمد سعید آرائیں  جمعـء 17 فروری 2017

اعلی عہدے پر فائز ایک صاحب  نے محسوس کرکے اظہار کرہی دیا کہ ملک میں سیاست دشمنی بننے لگی ہے جوکسی بھی طرح مناسب نہیں۔ان کے خیال میں سیاست کو سیاست تک ہی محدود رہنا چاہیے اورسیاست کی دشمنی میں تبدیلی سیاست ہی نہیں، ملک کے لیے بھی مناسب نہیں ہے جس سے گریزکی اشد ضرورت ہے۔

موجودہ حکومت کے اقتدار سے قبل پی پی کے پانچ سالہ اقتدار میں سیاست کی یہ صورتحال قطعی نہیں تھی اور سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی پالیسی کے تحت اپنی طرف سے قرار دی گئی مسلم لیگ (ق) کو بھی شریک اقتدارکرلیا تھا، جسے وہ اپنی حکومت سے قبل قاتل لیگ قرار دے چکے تھے۔ یہ بجا ہے کہ انھوں نے ایم کیو ایم سے تنگ آکر (ق) لیگ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو  ڈپٹی وزیر اعظم تک بنادیا تھا۔

سابق صدرکے مخالفین کہتے رہے کہ سابق صدر زرداری نے اپنی حکومت کو مضبوط رکھنے اور مدت پوری کرنے کے لیے ایسا کیا تھا اور ان کی (ق) لیگ سے دوری دوستی میں بدل گئی تھی اور یہ دوستی اب بھی برقرار ہے۔ سابق صدر نے اپنی حکومت کے آخری سال میں پی ٹی آئی سے بھی کوئی تنازعہ پیدا نہیں ہونے دیا تھا جب کہ عمران خان سابق صدر اور ان کی پارٹی پر سنگین الزامات لگا رہے تھے۔

سابق صدر نے ڈاکٹر طاہر القادری کا سخت سردی میں دیا جانے والا دھرنا بھی اپنی حکمت عملی سے ختم کرایا تھا حالانکہ اس وقت عوامی تحریک سے جو وعدے کیے گئے تھے ان میں کوئی پورا نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجود ڈاکٹر طاہر القادری نے 2013 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کے خلاف سخت رویہ نہیں اپنایا تھا مگر وہ شریف برادران کے سخت خلاف تھے۔

طاہر القادری نے مسلم لیگ (ن) سے زیادہ شریف برادران پر ہمیشہ کڑی تنقید کی حالانکہ ماضی میں وہ شریف فیملی کے انتہائی قریب تھے اور بعد میں ان کے سخت خلاف ہوگئے اور موجودہ پنجاب حکومت میں جب سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تو علامہ شریف خاندان کے کٹر مخالف بن کر سامنے آئے اور انھوں نے اپنی سیاست کو شریف فیملی کی مخالفت میں بدل دیا جو اب عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔

عمران خان نے بھی نواز شریف مخالفت میں وزیراعظم کی مخالفت کو اب سیاسی دشمنی میں بدل دیا ہے اور وہ وزیر اعظم نواز شریف کو ملک کے لیے سیکیورٹی رسک تک قرار دے چکے ہیں۔ نواز شریف کو 1999 میں حکومت سے ہٹانے والے جنرل پرویز مشرف بھی اعتراف کرچکے ہیں کہ وہ نواز شریف کو ملک کے لیے سکیورٹی رسک نہیں سمجھتے۔

سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی سیاسی مخالفت میں تمام خرابیوں کا ذمے دار مسلم لیگ ن کی قیادت کو قراردیتے ہیں اور ان کی ہرتقریر یا پریس کانفرنس کی تان ان کی مخالفت پر ہی ٹوٹتی ہے اور وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے قریبی تعلقات تھے اور میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دور میں شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اور پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنا دیا تھا۔بعد ازاں انھوں نے جنرل پرویز کا ساتھ دیا جنھوں نے انھیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا تھا اور انھوں نے فوجی جنرل کو وردی میں ایک نہیں دس بار صدر منتخب کرانے کا دعویٰ کیا۔

پی ٹی آئی کے تمام رہنما اپنے چیئرمین کی آواز میں آواز ملا کر نواز شریف کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی میں نواز شریف کی ماضی میں وکالت کرنے اور ججز بحالی تحریک میں صدر زرداری کی پالیسی کے برعکس نواز شریف اور افتخار چوہدری کی حمایت میں پیش پیش  چوہدری اعتزاز احسن اب پیپلزپارٹی میں واحد رہنما ہیں جو نواز شریف مخالفت میں سب سے آگے ہیں مگر وہ پاناما کیس میں شامل نہیں ہوئے اور نہ عمران خان نے  پی ٹی آئی کی طرف سے انھیں سپریم کورٹ میں وکالت کا موقعہ دیا۔

جماعت اسلامی بھی اپنی پالیسی کے تحت کرپشن کیس میں سپریم کورٹ میں نواز شریف کی بھرپور مخالفت کر رہی ہے مگر وزیر اعظم کی شیخ رشید کی طرح مخالف نہیں بنی۔ نواز شریف کے سابق قریبی ساتھی شیخ رشید تو برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کی مخالفت میں ہر سطح پر جاکر ان کی حکومت ختم کرائیں گے۔ وہ حکومت کے خاتمے کی مسلسل تاریخ پہ تاریخ دیتے آرہے ہیں اور اب یہ کہہ رہے ہیں ۔

اے این پی و دیگر قوم پرست پارٹیاں بھی وزیر اعظم  کی مخالف ہیں مگر سیاسی دشمنی کا مظاہرہ نہیں کر رہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری بڑی دانشمندی سے اپنے پتے کھیل رہے ہیں مگراپنے کسی بیان سے نواز شریف دشمنی کا اظہار نہیں کر رہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی نواز شریف حکومت پرکڑی تنقید ہو رہی ہے اور پی پی جلوں میں حکومت  مخالف نعرے بھی لگتے ہیں مگر احتجاجی تحریک یا میاں نواز شریف کو ہٹانے میں پی پی کا کردار حکومت دشمنی نظر نہیں آرہا  اور وہ وقت کے منتظر اور محتاط ہیں۔

سیاست برداشت، بردباری، جھوٹ پہ جھوٹ، سنگین الزام تراشی، ذاتی حملوں، اپنے کہے سے منحرف ہوجانے، مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے، بداخلاقی وبدتہذیبی، کرپشن کرکے بھی ثبوت ہونے کے باوجود تسلیم نہ کرنے اور حکومتی کارروائی کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دینے، سیاست میں آکر قرضے لینے پھر سیاسی اثرورسوخ سے قرضے معاف کرانے، سرکاری زمینوں پر قبضوں، جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی، تعصب و اقربا پروری کا نشان بنتی جا رہی ہے۔

حکومت کی مخالفت میں جمہوریت کو ڈی ریل کرانے کی بھی بھرپورکوششیں ہوچکی ہیں اور ساڑھے تین سال ناکام رہنے کے بعد مزید ڈیڑھ سال حکومت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور عوام یہ سب تماشے دیکھ رہے ہیں۔ من پسند عدالتی فیصلے تسلیم اور خلاف آنے پر  منفی پروپیگنڈا بھی اب سیاست کا حصہ ہے اور عوام اپنے مسائل میں الجھے ہیں۔ جن کے لیے صرف سیاسی دلاسے اور جھوٹے حکومتی وعدوں کے انبار باقی رہ گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔