محبت کے دیار پر نفرت کی یلغار

رضوان طاہر مبین / محمد عثمان جامعی  جمعـء 17 فروری 2017
دہشت گرد تحفظ اور امن کا ہر حصار مٹادینا چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

دہشت گرد تحفظ اور امن کا ہر حصار مٹادینا چاہتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کیا ہماری یہی مشق رہے گی۔۔۔؟ سفاک درندوں کی ہر بربریت اور دہشت گردی پر۔۔۔

ایک دہشت گردی، آگ اور خون کی وحشت۔۔۔ اور پھر مذمت اور قاتلوں کو نیست ونابود کرنے کے پہاڑ جیسے عزائم۔۔۔ اور پھر ایک اور افسوس ناک دہشت گردی۔۔۔!

گذشتہ دنوں کراچی میں نجی خبری چینل کی گاڑی پر فائرنگ کے واقعے کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر نے کل سیہون شریف شہر کو خون میں نہلا دیا۔۔۔ ایک ایسے وقت میں جب لعل شہباز قلندرؒ کے مقبرے پر بڑی تعداد میں عقیدت مند جمع تھے، ہلاکو اور چنگیزی سوچ رکھنے والے اپنے مذموم منصوبے میں کام یاب ہوگئے۔۔۔

سیہون میں بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے نہ صرف طبی امداد میں دشواری پیش آئی، بل کہ اطلاعات آنے میں بھی دیر ہوئی۔۔۔ یہ سطریں لکھے جاتے وقت 70 سے زاید جانیں تلف ہوچکی ہیں۔۔۔

حالت یہ ہے کہ اب قلم سے مذمت لکھو تو، دکھ اور افسوس کے لفظ تو لکھ دیے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن لگتا کچھ ایسا ہے کہ یہ کھوکھلے ہیں اور اپنے معنی کھو چکے ہیں۔۔۔

سچ یہ ہے کہ جس پر گزرتی ہے، وہی جانتا ہے۔۔۔ الفاظ میں ہم کچھ بھی کہہ لیں، مگر اس تکلیف کا احاطہ نہ ہو سکے گا۔۔۔ اپنے پیاروں کو کھو دینے کا دکھ آسمان ٹوٹ جانے جیسا ہوتا ہے۔۔۔

ریاست بھر میں پانچ دن میں دہشت گردی کے آٹھ واقعات گنے گئے۔۔۔ جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے، ہر واقعے کے بعد ہی سب کو متحرک کیا گیا، مگر اس کے باوجود دہشت گردی ہو جاتی ہے۔۔۔

کب تک سخت مذمت، گہرے رنج، اجازت نہیں دیں گے، قرار واقعی سزا دیں گے اور ٹھکانے لگا دیں گے جیسی باتیں ہوں گی۔

کہاں تک عوام کو یہ تسلیاں دی جاتی رہیں گی کہ دہشت گرد بوکھلا کر ’ایسی‘ کارروائیاں کر رہے ہیں، ان کی کمیں گاہیں تباہ کر دی گئی ہیں۔۔۔ کمریں توڑ دی گئی ہیں اور اب بس وہ ’راہ فرار‘ اختیار کر رہے ہیں۔

حکام کی ایسی باتیں سن کر طرح طرح کے ستم اٹھاتی جنتا سمجھتی ہے، شاید واقعی عنقریب اب اِن کے دیس میں امن و آشتی کا دور شروع ہونے والا ہے۔۔۔ اب یہاں ہر انسان بلا تفریق، رنگ ونسل وجنس، پورے سکھ اور آزادی سے جیا کرے گا۔۔۔ اس کی جان کو کسی سے بھی کوئی خطرہ نہ ہوا کرے گا۔۔۔ ریاست بنیادی سہولیات نہ سہی، لیکن اپنے شہریوں کو جان کا تحفظ دینے جیسے بنیادی ترین وظیفے کو اچھی طرح ادا کیا کرے گی۔۔۔ مگر جیسے کہا جاتا ہے کہ امن دو جنگوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے، آج افسوس کے ساتھ ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم بھی دو دھماکوں کے درمیانی وقت کو ہی ہم ’امن‘ سمجھ لیتے ہیں!

کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، شبقدر، مہمند اور اب سیہون نشانہ بنائے گئے۔۔۔ یعنی یہ واضح ہو چکا ہے کہ سفاک دہشت گرد مسلسل لاشیں گرا رہے ہیں۔۔۔ لوگوں کی جانیں جاتی ہیں اور کہا یہ جاتا ہے کہ دہشت گردوں نے یہ بہت ’بزدلانہ کارروائی‘ کی ہے۔۔۔ جان کی امان پائیں، تو یہ پوچھنے کی گستاخی کی جاتی ہے کہ حضور والا، کیا دہشت گردوں کو بزدلی کا ’طعنہ ‘ دے کر خدانخواستہ کسی ’بہادری‘ کے لیے اُکسایا جانا مقصود ہے! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا لہو پانی ہوگیا۔۔۔ اور ایسی خوں ریزی پر بہادری، اور بزدلی کی باتیں چہ معنی دارد۔۔۔؟ لوگ مارے گئے، سوال یہ ہے کہ ان کی جان ومال کا تحفظ کس کی ذمہ داری ہے۔۔۔جواب کون دے گا؟

ایک ایسے وقت میں جب متاثرہ گھروں میں کہُرام مچا ہوا ہوتا ہے، اور صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک دوسرے کو مورودِ الزام ٹھیرانے لگتی ہیں۔۔۔ ایک دوسرے کی کارکردگی پر تنقید کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے، جو بڑھتے بڑھتے پھر روایتی سیاسی بیانات اور جوابی بیانات کے دھندلکوں میں کہیں کھو کر رہ جاتا ہے!

حالت یہ ہوتی ہے کہ ابھی تو دہشت گردی میں جاں بحق افراد کے جنازے ہی اٹھ رہے ہوتے ہیں کہ بعض حکام ایک نہایت عجیب وغریب اور بے رحم دلیل دینے لگتے ہیں کہ ہماری حکومت سے پہلے تو ملک میں روزانہ بم پھٹتے تھے، اب تو ’پہلے سے کم‘ ہوگئے ہیں۔ ارے سوچو، جس کا کوئی اپنا مارا گیا، اسے سیاست دانوں کے ایسے الفاظ کس قدر کرب اور دکھ سے دوچار کرتے ہوں گے۔۔۔!

کبھی اسکول، جامعات، کبھی گلی کوچے، سڑکیں، شاہ راہیں، کبھی بازار، اسپتال، عبادت گاہیں اور تفریحی مقامات۔۔۔ کبھی معصوم بچے، تو کبھی اپنی روزی روٹی کے لیے گھروں سے نکلنے والے نامعلوم افراد کی گولیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔۔۔ کبھی اور کسی دہشت گردی کی زد میں آجاتے ہیں، الغرض خیبر سے کراچی تک دہشت گردی کے دل دوز واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔

امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اب 15 برس سے زاید کا عرصہ بیت چکا ہے۔۔۔ اس عرصے میں مستقل دہشت گردوں، انہیں تربیت دینے والے گروہوں، نفرت انگیز مواد پھیلانے والوں، حتیٰ کہ ان کے ’سہولت کاروں‘ تک کو نہیں بخشا گیا، تو پھر یہ بھیانک عفریت اب تک قابو میں کیوں نہیں آسکا۔۔۔؟

2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں خوں خوار دہشت گردوں کی واردات کے بعد شدت پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کو ایک نیا رخ دیا گیا۔ خاطر خواہ طور پر بہت سے نئے اقدام کیے گئے اور ان کارروائیوں کے ثمرات بھی دیکھے گئے، لیکن گاہے بگاہے کہیں نہ کہیں اہدافی قتل اور بم دھماکوں کی وارداتیں رونما ہوتی رہیں۔۔۔ ہر تھوڑے سے وقفے کے بعد ریاست کا کوئی نہ کوئی گوشہ خوں نم خون ہو جاتا ہے۔۔۔ کسی نہ کسی نگری میں موت کا بھیانک رقص ہوتا ہے۔۔۔ گھروں میں کُہرام مچا جاتا ہے۔ دکھوں کا وہ الم ہے کہ جس کا کوئی اَنت دکھائی نہیں دیتا۔۔۔

والدین جوان اولاد کے جنازے اٹھا کر زندہ درگور ہو رہے ہیں۔۔۔ بہنیں بین کر کر کے نڈھال ہیں۔۔۔ سہاگنوں کے مانگ کے سندور اجڑ رہے ہیں۔۔۔ یتیم بچوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں سوالی ہیں۔۔۔۔ لواحقین چلّا رہے ہیں، فریاد کر رہے ہیں۔۔۔ ہمارے پیاروں کو کس جرم میں ہم سے چھین لیا گیا، ہمارے بچے، بہن بھائی اور والدین کیوں قتل کیے گئے؟ ہماری یہ نوحہ گری آخر کب تک جاری رہے گی۔۔۔؟

اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی نئی لہر کی زد میں محسوس ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض دشمن اور غیرملکی قوتیں ریاست کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی غرض سے ایسے واقعات کرا رہی ہیں۔ 2009ء میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد سے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں ہونے ’پاکستان سپر لیگ‘ تک کے مقابلے تک پرائے میدانوں میں کرانے پڑ رہے ہیں۔ اس وقت بھی متحدہ عرب امارات میں ’سپر لیگ‘ کے مقابلے جاری ہیں، جس میں ملکی اور بین الاقوامی کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔ اس بار اس کا فائنل لاہور میں کرانے کا اعلان کیا گیا، کہ بین الاقوامی برادری کا اعتماد حاصل ہو اور ہمارے میدان آباد ہو سکیں، لیکن دہشت گردی کی لہر نے لاہور کو بھی متاثر کیا ہے، جس کے بعد اس میچ پر بھی خدشات کے بادل گہرے ہو گئے ہیں۔

دہشت گردی کا ایک نشانہ ’پاک چین اقتصادی راہ داری‘ کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اقتصادیات کے باب میں اس منصوبے کو بے حد اہمیت دی جا رہی ہے۔ حکام کہتے ہیں کہ دشمن قوتیں اس راہ داری منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے یہ ہتھکنڈے اپنا رہی ہیں۔ دہشت گرد ہم سائے ممالک کی سرزمین بھی استعمال کر رہے ہیں۔

دہشت گردی کا اژدھا اپنے پھن پھیلائے بے گناہوں کو نگلے جا رہا ہے، ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف مزید سخت اور موثر کارروائیاں کی جائیں۔ مسلح اہلکاروں سے لے کر اساتذہ، طلبا، علما، وکلا، صحافیوں سے عام شہریوں تک ہر طبقے کے لوگ دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ ایسے کٹھن سمے پر دہشت گردیوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ تمام شہریوں کا مضبوط سیاسی اور سماجی اکٹھ بھی ناگزیر ہے۔ ایسے نازک مرحلے پر ضروری ہے کہ تمام دوریاں ختم کی جائیں۔ حکام سے لے کر عوام تک بھرپور اتحاد ویگانگت ہی وہ راہ ہے، جس کے ذریعے دہشت گردی کے منہ زور جن کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔

لعل کی نگری لال

لعل کی نگری لال
پریم بانٹنے والے کی بستی کا حال نڈھال
درد کی آہ کراہ بنا وہ مست دمادم گیت
کھاکر گھاؤ گرا آنگن میں کرتا رقص دھمال
لعل کی نگری لال
خون میں ڈوبے، سُرخ ہوئے سب عشق کے روشن رنگ
نذرانے کے پھولوں پر برسے نفرت کے سنگ
ایسا ظلم اور ایسی وحشت!
نفرت بھی ہے دنگ
امن کا ایسا کال
لعل کی نگری لال
جس کے در پہ سیکھے دنیا انسانوں سے یاری
جس کو خالق پیارا، اس کی ساری خلقت پیاری
جس نے سب کا درد سنبھالا، کی سب کی دل داری
اس کا گھر پامال!
لعل کی نگری لال

مزارات جو انتہاپسندوں کا نشانہ بنے

صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے مزارات امن، محبت اور یگانگت کے گہوارے اور ان روشن اقدار کی دمکتی علامات ہیں، چناں چہ یہ مزار وحشت اور دہشت کے ہرکاروں کا خاص ہدف بنتے ہیں۔ کل شام سہون شریف میں واقع حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار کو نشانہ بنایا گیا، تاہم اس سے پہلے بھی یہ امن کے دیار انتہاپسندوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک انتہاپسندوں نے جن درگاہوں پر قیامت برپا کی ان کی تفصیل یوں ہے:

27 مئی 2005

اسلام آباد میں واقع بری امان کی درگاہ میں ہونے والی مجلس پر خودکش حملے میں 20 افراد شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔

19مارچ 2005

بلوچستان کے ضلع جھل مگسی کے گاؤں فتح پور میں پیر راکھیل شاہؒ کا مزار دہشت گردی کا نشانہ بنا، 35 افراد شہید ہوئے اور لاتعداد زخمی ہوئے۔

5 مارچ 2009

پشتو زبان کے صوفی شاعر بابا رحمٰنؒ کے پشاور کے نواح میں واقع مزار پر بم دھماکے جس میں کوئی ہلاک اور زخمی نہیں ہوا، تاہم مزارات کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔

2 جولائی 2010

لاہور میں داتا دربار پر وحشت نے ہلہ بولا۔ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر کے37 زائرین جان سے گئے جب کہ متعدد زخمی ہوئے۔

7 اکتوبر2010

کراچی میں عبداﷲ شاہ غازیؒ کے مزار پر دو شخص کش حملہ آوروں کے حملے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے اور ساٹھ زخمی ہوئے۔

26 اکتوبر 2010

پاک پٹن، پنجاب میں واقع بابا فرید گنج شکرؒ کا مزار نشانہ بنا۔ چھے جانیں گئیں۔

21 جون 2014

اسلام آباد میں واقع بابا ننگے شاہؒ کے مزار پر ہونے والے دھماکے میں اکسٹھ افراد زخمی ہوگئے۔

13نومبر2016

بلوچستان کے ضلع خضدار میں واقع شاہ نورانی درگاہ پر ہونے والے حملے میں باون افراد ہلاک اور 102 زخمی ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔